پشاور:دہشت گردی کا ہولناک سانحہ

February 01, 2023

پہلے ہی بدترین سیاسی اور معاشی عدم استحکام کے شکار پاکستان کی سلامتی سے کھیلنے کیلئے ملک مخالف عناصر نے اپنی انسانیت دشمن سرگرمیاں تیز کر دی ہیں اور یہ سب کچھ اس وقت سے ہو رہا ہے جب سے پڑوسی ملک افغانستان میں طالبان نے اقتدار سنبھالا ہے۔ افغانستان کی سرزمین بری طرح پاکستان میں دہشت گردی کیلئے استعمال ہو رہی ہے جبکہ بظاہر پاکستان کے بارے میں نرم گوشہ رکھنے والی کابل حکومت اسے روکنے کیلئے کچھ کرنے کی بجائے ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھی ہے۔ پولیس لائنز پشاور کی جامع مسجد میں عین نماز کے وقت خودکش دھماکہ اس سال اس سلسلے کا سب سے بڑا اور مجموعی طور پر دوسرا المناک ترین سانحہ ہے جس میں پولیس اہلکاروں سمیت 93افراد شہید اور ڈیڑھ سو سے زائد شدید زخمی ہو گئے زخمیوں میں سے کئی کی حالت تشویشناک ہے جس سے شہدا کی تعداد میں اضافے کا خدشہ بھی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ مسجد میں نماز باجماعت شروع ہوتے ہی پہلی صف میں موجود بدبخت خودکش حملہ آور نے خود کو بارودی مواد سے اڑا لیا جس سے مسجد کی چھت گر گئی اور اس کا ایک حصہ شہید ہو گیا۔ بارودی ٹکڑے لگنے اور ملبے میں دب جانے کے باعث پولیس اہلکاروں، پیش امام اور ایک خاتون سمیت دو سو سے زائد نمازی شہید یا زخمی ہو گئے۔ اس وقت مسجد میں چار سو سے زائد سیکورٹی اہلکاروں سمیت نمازیوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔ شہدا میں زیادہ تر پولیس اہلکار شامل ہیں۔ شہید اور زخمیوں کو لیڈی ریڈنگ ہسپتال پہنچایا گیا جبکہ شہر کے تمام ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی اور عوام سے خون کے عطیات وصول کئے جانے لگے۔ سکیورٹی فورسز نے علاقے کو گھیرے میں لے کر کومبنگ آپریشن شروع کر دیا ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے یہ معلوم ہونے پر کہ حملہ آور دو دن پہلے سے مسجد میں موجود تھا شدید برہمی کا اظہار کیا ہے کہ دہشت گرد اتنی زیادہ سکیورٹی کے باوجود مسجد میں کیسے پہنچا؟ پاک فوج اور سکیورٹی اداروں نے پاکستان میں دہشت گردوں کی کمر توڑ دی تھی اور وہ افغانستان میں اپنی پناہ گاہوں میں چھپنے پر مجبور ہو گئے تھے مگر کابل میں طالبان حکومت کے برسر اقتدار آنے کے بعد پاکستان کی عمران خان حکومت نے طالبان کے ایک گروہ تحریک طالبان پاکستان سے مفاہمت کی بات چیت شروع کر دی جس سے فائدہ اٹھا کر اس گروہ کے دہشت گردآزادی سے پاکستان واپس آنے لگے اور اپنے سابقہ ٹھکانوں سے دہشت گردانہ سرگرمیاں شروع کر دیں۔ بدقسمتی سے کابل کی طالبان حکومت نے سرحد پار ان کی سرگرمیوں سے چشم پوشی اختیار کی جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج یہ دہشت گرد نہ صرف افغانستان کی سرزمین سے سرحدی چوکیوں پر حملے کر رہےہیں بلکہ پاکستان کے اندر خیبرپختونخوا، بلوچستان حتیٰ کہ پنجاب اور سندھ کے علاقوں میں بھی سرگرم ہو چکے ہیں۔ کابل حکومت بار بار توجہ دلانے کے باوجود اپنی سرزمین سے ان کی سرگرمیاں روکنے کیلئے کوئی قدم نہیں اٹھا رہی۔ پاکستان لاکھوں افغان پناہ گزینوں کو آج بھی اپنی سرزمین پر پناہ دئیے ہوئے ہے اور ان کی کفالت کر رہا ہے مگر طالبان حکومت اس کے دشمنوں کی سرپرستی کر رہی ہے۔ پشاور کے اس بڑے سانحے کے علاوہ صوابی اور کوئٹہ میں ہزار گنجی کے علاقے میں بھی اسی روز دہشت گردی کی وارداتیں ہوئیں، یہ صورتحال تقاضا کرتی ہے کہ حکومت اور انٹیلی جنس ادارے نیشنل ایکشن پلان پر سختی سے عملدرآمد کرائیں۔ کابل حکومت کے متعلق سخت سفارتی پالیسی اپنائیں اور اس حوالے سے مشکل اور جرات مندانہ فیصلے کریں۔ اب جبکہ معلوم ہو گیا ہے کہ ٹی ٹی پی کے دہشت گرد سکیورٹی فورسز پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دوسرے اداروں کو نشانہ بنا رہے ہیں تو ان اداروں کو ملکی سلامتی اور حفاظت خود اختیاری کیلئے تمام وسائل اور طریقے بروئے کار لانے چاہئیں۔ پولیس لائنز پشاور کی مسجد کا سانحہ چشم کشائی کیلئے کافی ہونا چاہئے۔