پاکستان: مشکلات پر قابو کیسے پایا جائے؟

February 06, 2023

پاکستان آج تاریخ کے سنگین ترین بحران کا سامنا کر رہا ہے۔ ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر 10سال کی کم ترین سطح 3ارب ڈالر پر آگئے ہیں جب کہ 4.5بلین ڈالر سعودی عرب اور چین نے ہمیں محفوظ رکھنے کیلئے دیئےتھے ۔ ہمیں مارچ 2023 ءتک تقریباً 8بلین ڈالر کے قرضوں کی مزید ادائیگی کرنی ہے۔ غیر سرکاری ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف ماضی کے وعدوں کے پورا نہ ہونے کی وجہ سے موجودہ حکومت کیساتھ مذاکرات کرنے سے کترا رہا تھا دیگر امدادی ایجنسیاں بھی ہماری مزید مدد کرنے سے گریزاں ہیں۔ تو، آگے کا راستہ کیا ہے؟

ایک تو یہ کہ نہایت افسوس کی بات ہے کہ زرمبادلہ کی شدید کمی کے باوجود ہم بیرون ملک سے دودھ، پنیر، چاکلیٹ، سگریٹ کیلئےتمباکو، حتیٰ کہ بلیوں کی خوراک تک آج بھی درآمد کر رہے ہیں۔پچھلے چھ مہینوں میںبڑی تعداد میں لگژری گاڑیاں درآمدکی گئی ہیں۔ پر آسائش موٹر گاڑیوں کے علاوہ، حسن و آرائش کا سامان اور دیگر ساما ن تعیش کی درآمد بھی جاری ہے جس کے نتیجے میں ہماری مقامی صنعت تباہ ہو چکی ہے۔ ہمیں تمام غیر ضروری درآمدات پر فوری طور پر پابندی لگادینی چاہئے (یا اگر یہ بین الاقوامی/ڈبلیو ٹی او (WTO) قوانین کی خلاف ورزی ہے، تو ان پر 1000فیصد ٹیکس عائد کرنا چاہئے) اور مقامی صنعتی ترقی اور اعلی ٰو قیمتی مصنوعات کی برآمد کو تحریک دینے کیلئے اپنی پالیسیوں کو تبدیل کرنا چاہئے۔

اسکے علاوہ ہمیں غیر ملکی قرضوں پر انحصارختم کرکے اپنی پالیسیوں میں اصلاح کرنےکی ضرورت ہے تاکہ ہمارے اخراجات ہماری آمدنی سے کم ہوسکیں، اس طرح ہم اپنے غیر ملکی قرضوں کو کم کر سکیں گے۔ مختصر مدت میں ہمیں روپے کو تقریباً 270روپے تک یا اس سے بھی زیادہ 300 روپے فی ڈالر تک جانے دینا پڑے گا۔ کیونکہ اس سے برآمدات میں اضافہ ہوگا اور درآمدات میں کمی آئے گی لیکن ایسی پالیسی کامنفی نتیجہ یہ ہو گا کہ اس سے ایندھن، بجلی اور درآمد شدہ خوردنی تیل کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہو گا ،جس کا غریبوں پر برا اثر پڑے گا۔ اسلئے، احساس پروگرام کے ذریعے انکی مدد کیلئے تقریباً 500ارب روپے مختص کئے جائیں۔ اس سے جزوی طور پر ان پالیسیوں کے ذریعےمشکلات میں کمی آئے گی۔

پاکستان کی 220ملین آبادی میں سے صرف 3.4 ملین ٹیکس دہندگان ہیں۔ اس کیلئےہمیں زیر کاشت فی ایکڑ زمین کی بنیاد پر زرعی انکم ٹیکس لگانے کی فوری ضرورت ہے ۔ اس سے ایک قابل ذکر رقم حاصل ہوگی۔پراپرٹی ٹیکس (Property Tax)بھی جائیداد کی اصل قیمتوں سے کافی کم تشخیص کیا جاتا ہے۔ موجودہ قیمتوں کی بنیاد پر ان کا بھی دوبارہ جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ صرف اس ایک قدم کے نتیجے میں پراپرٹی ٹیکس میں تین گنا اضافہ ہوجائے گا۔

ملک بھر کی تمام دکانوں پر ان کے رقبے اور مقام کی بنیاد پر ٹیکس عائد کیا جانا چاہئے۔ پاکستان میں تقریباً 20لاکھ ریٹیل اسٹورز ہیں۔ اوسطاً 4000 روپے ماہانہ فی دکان کا لازمی ٹیکس لگانے سے 100ارب روپے اضافی سالانہ جمع ہو سکتے ہیں۔ پاکستان کو بھی بھارت کی طرح ملک میں 5000 اور 1000روپے کے نوٹوں پر پابندی لگانی چاہئے اور پھر عوام کو 4ہفتوں کی مہلت دی جائے کہ وہ اپنے بینک اکاؤنٹس میں یہ نوٹ جمع کرائیں۔ اس سے سفید معیشت میں اور ٹیکس کے حجم میں نمایاں اضافہ ہوگا۔ اسی طرح، قیمتی زرمبادلہ کو محفوظ رکھنے کیلئے، تمام لیٹر آف کریڈٹ صرف مقامی ڈالر کی خریداری یا غیر ملکی کرنسی مہیا کرنے پر کھولے جا نے چاہئیں۔ ایکسپورٹ واؤچر ترجیحی صنعتی اعلی ٰتکنیکی برآمدات کو دیئے جاسکتے ہیں تاکہ بجلی کی قیمتوں اور دوسرے پیداواری اخراجات وغیرہ کی تلافی کی جاسکے۔

انفارمیشن ٹیکنالوجی کا استعمال قومی ٹیکس وصولی کو شفافیت کے ساتھ بہت زیادہ فروغ دے سکتا ہے۔ اس سلسلے میں ایک اہم قدم یہ ہوگا کہ قانون کے ذریعے اس بات کو لازمی بنایا جائے کہ قانونی لین دین سے پہلے جائیداد، حصص، کاروں یا کسی بھی دوسرے اثاثوں کی تمام فروخت اور خریداری کو مکمل تفصیلات کے ساتھ سرکاری ویب سائٹ پر ڈال دیا جائے۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ذریعےٹیکس وصولی میں شفافیت لا ئی جاسکتی ہے اس کی ایک مثال نالج اکانومی ٹاسک فورس ہے جس کے ذریعے شروع کئے گئے ایک پروجیکٹ سےہم نےٹیکس نیٹ کو وسیع کرنے اور ٹیکس ریونیو میں اضافےکیلئے نادرا اور ایف بی آر کے ساتھ مل کر کام کیا تھا۔ نادرا کے لین دین کے ریکارڈ کے ایک حصے کو استعمال کرتے ہوئے اور مصنوعی ذہانت (AI) پروٹوکول کا استعمال کرتے ہوئے، پروگرام نے 3.8ملین ا یسے ٹیکس نادہندگان کی نشاندہی کی جن پر000 100ر وپے سے زیادہ ٹیکس کی ذمہ داری تھی اورجنہیں ایک اندازے کے مطابق 1.6کھرب روپے کا انکم ٹیکس ادا کرنا تھا۔ 3 ماہ کی کوششوں کے نتیجے میں ،جس میں حکومت کو کوئی اضافی اخراجات بھی نہ کرنے پڑے ، کل اعلان کردہ اثاثے تیزی سے تین کھرب روپے تک ادا کئے گئے اور اضافی ٹیکس 65 ارب روپے ادا کیا گیا ۔ مزید برآں،000 90سے زیادہ نئے افراد سے ٹیکس وصول کیا گیا اور 30 جون 2018 ءکوختم ہونیوالے سال کے ٹیکس گوشوارے 20 لاکھ سے تجاوز کر گئے تھے۔ یہ ایف بی آر کی تاریخ میں اب تک کی سب سے زیادہ تعداد تھی۔ اس طرح کے اقدامات کو تمام صوبوں میں رائج کیا جاسکتا ہے اور ٹیکس نا دہندگان پر فضائی یا ریلوے ٹکٹ خریدنے، یا پاسپورٹ، ڈرائیونگ لائسنس وغیرہ کی تجدید پر پابندیاں عائد کی جا نی چاہئیں۔پاکستان کے قرضوں میں ڈوبنے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اربوں ڈالر کے غیر قانونی اثاثے بیرون ملک پڑے ہیں۔ پنڈورا پیپرز (Pandora Papers)کے نام سے جانی جانے والی لاکھوں دستاویزات نے 35موجودہ اور سابق عالمی رہنماؤں اور 91ممالک کے 330 سیاست دانوں اور عوامی عہدیداروں کے مالی رازوں سے پردہ اٹھایا تھا۔ اس کا تدارک اسٹنگ آپریشن (Sting Operation) اور وسیع پیمانے پر بدعنوانی کرنے پر سزائے موت دینے میں مضمر ہے جیسا کہ چین، انڈونیشیا اور بہت سے دوسرے ممالک میں کیا گیا۔

پاکستان کیلئے ترقی کی راہیں کھولنے کا آخری لیکن شاید سب سے اہم قدم تعلیم، سائنس اور جدت طرازی ہے جس کو سب سے زیادہ ترجیح دینی چاہئے۔ یہ کامیابی جمہوریت کی صدارتی شکل میں ایک ایماندار اورتکنیکی طور پر قابل قیادت ہی حاصل کر سکتی ہے ،جہاں وزراء کا تقرر ان کی قابلیت کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)