الیکشن کا خوف، ملک داؤ پر؟

March 28, 2023

قارئین کرام !آج کے ملکی سیاسی و معاشی بحران کو مزید گمبھیر بلکہ پرخطر بنانے کی بڑی وجہ ’واحد حل ’’الیکشن بمطابق آئین‘‘ کے انعقاد میں مسلط نظام بد کسی بڑی بینی فشری موجود متنازعہ اتحادی حکومت کادانستہ مسلسل اوربڑی بڑی رکاوٹیں ڈالنا ہے، حکومت کے اس رویے نے اب سول آمریت سے بڑھ کر فسطائیت کی شکل اختیار کر لی ہے۔ یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ عمران حکومت کو اکھاڑنے کی مہم جوئی کی عملی صورت کوئی پی ڈی ایم کے کسی بڑے جمہوری کردار یا ریکارڈ سے نہیں بنی تھی موجودہ ناکام مکمل خودغرض اور بنیادی عوامی حقوق و مفاد سے متصادم حکومت کے مقابل سابقہ حکومت کی کئی کامیابیوں اور اقدامات کے باوجود عالمی وبا کی کوکھ سے نکلی اور بڑھتی اشیائے خورونوش، ضروریہ کی وہ مہنگائی بنی جس کے عملی جواز کو پی ڈی ایم نے بروقت اور غیر معمولی کامیاب پروپیگنڈہ مہم سے وہ صورتحال پیدا کر دی جس میں عمران حکومت کا آئینی مدت پوری ہونے کا اور ملکی جمہوری عمل کا ارتقا رک گیا۔ صحت مند سیاسی عمل جس نے پی ڈی ایم کو مہنگائی کے خلاف تین پرامن مارچ کرنے کا حق دیا ،جسے اس نے آزادی سے استعمال کیا مولانا صاحب کو بار بار متضاد سیاسی جماعتوں کو پکڑ پکڑ کر منانے بٹھانے کی فضا ان پر کوئی جھوٹا سچا مقدمہ قائم ہوئے بغیر ملتی رہی اور حضرت بالآخر ماضی کی سخت حریف جماعتوں کا اتحاد بنانے میں پھر حکومت مخالف پروپیگنڈہ مہم ایک ہی روز میں کئی کئی وزرا کی پریس کانفرنسیں ، کامیاب پروپیگنڈہ مہم علمی بنیاد اور اصولوں سے بھی تجاوز کر رہی تھیں لیکن کوویڈ وبا سے ہونے والے خساروں کے بعد عالمی کساد بازاری سے بڑھتی عالمگیر مہنگائی اور گورننس کے واضح گرے ایریاز کی ہائی فری کویئنسی پر نشاندہی نے عمران خان کے ہیلتھ کارڈ اور کامیاب اور سچے عوام دوست ’’احساس پروگرام‘‘ کے مثبت اثر کو بھی محدود کر دیا جبکہ دنیا بھر میں پاکستان کی کوویڈ مینجمنٹ اسمارٹ لاک ڈائون اور اکنامک گروتھ کی تعریف و توصیف درجہ بندی کے ٹھوس ثبوتوں کے ساتھ ہو رہی تھی۔ قارئین کرام! پہلے ہی موجود قومی نفاق اور کج بحث کلچر کی شدت کو کم کرنے کے لئے ’’بیرونی سازش یا مداخلت یا دھمکی‘‘ کے بیانیے سے تو پہلوتہی کی جاسکتی ہے۔عمران خان کے سیاسی ابلاغ کا تجزیہ کیا جائے تو یہ ارتقائی کیفیت میں آچکا ہے تازہ ترین ثبوت لاہور کے کامیاب عظیم جلسے سے ملا وگرنہ اتنی سرکاری رکاوٹوں اور بلاوجہ گرفتاریوں کے فسطائی اقدام کے بعد ایسے کامیاب جلسے میں تو محتاط سیاسی قائدین کاابلاغ بھی لڑکھڑا جاتا ہے، زیر بحث ’’بیرونی سازش‘‘ والے بیانئے کو بھی کم کرتے کرتے اب انتہائی محتاط رویہ اختیار کیا ہے ۔تاہم آئندہ کے لئے اپنے یقینی شک یا مکمل یقین کی بنیاد پر امریکہ میں بذریعہ لابنگ (اگر خبر سچ ہے ) سے علمی معاونت کا راستہ اختیار کیا، جو اس سے قبل محترمہ بے نظیر نے استعمال کیا تھا اور شنید ہے کہ ن لیگ نے بھی اب یہ راہ اختیار کی ہوئی ہے دوسری جانب پی ڈی ایم کی جانب سے ٹی وی اسکرین پر ببانگ دہل تنخواہ دار ایک وفاقی وزیر بے محکمہ کے آن ایئر اعتراف کہ ’’ہمارے پاس سلیکٹڈ حکومت کو تبدیل کرنے کےلئے ہارس ٹریڈنگ کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں تھا ‘‘اس امر کا ثبوت نہیں کہ ن لیگ کی چھتری میں پوری پی ڈی ایم حکومت، حکومتوں کے آئینی مدت پوری ہونے کے کامیاب ارتقائی عمل کو سبوتاژ کرنے کی مرتکب ہوئی لیکن وجہ فقط قابل فہم اور موجود کے مقابل کہیں کم تر مہنگائی ہی نہیں تھی احتسابی عمل کے نتائج کا خوف بھی تھا اس کا ثبوت وفاقی وزیر توانائی خرم دستگیر کے اس بیان سے ملا کہ’’ اگر ہم مشکل فیصلوں والی حکومت نہ بناتے تو ہم نے نیا سال آنے تک جیلوں میں ہونا تھا ۔‘‘

گویا قانون کی عملداری سےسزا و احتساب کا خوف بھی ایک اور بڑی وجہ تھی عالمی وبا، ناتجربہ کاری اور عمران خان کے کئی بلنڈرز کے باوجود کئی عوامی مفادات کے حوالے سے کامیاب حکومت جس کے نتائج پی ڈی ایم نے کامیاب پروپیگنڈہ مہم اور عمران حکومت کے ناکام ترین سیاسی ابلاغ سے دب گئے تھے، آج یاد کی جائے تو سیاسی عمل کے ارتقا اور عوامی مفادات کے حوالے سے مکمل کامیاب دی جاسکتی ہے۔اس کا ثبوت اس عوامی اطمینان سے بھی ملتا ہے کہ پی ڈی ایم حکومت مہنگائی پروپیگنڈے سے عمران خان کی مقبولیت تو کم کرنے میں کامیاب تھی عوام کوبھڑکانے یا حکومت کے خلاف نکل کھڑے کرنے میں اسے کوئی کامیابی نہیں ملی تھی ثبوت عمران حکومت میں ہونے والے پی ڈی ایم کےمہنگائی کے خلاف ہونے والے تین لانگ مارچ سے ملا جن میں تابعدار کارکن ہی بمشکل شرکا بنے ۔موجود سیاسی و آئینی انتشار اور پر خطر معاشی بحران اور اب متنازعہ حکومت کا اختیار کیا فسطائی رنگ، اب لوکی دعامانگنے تک محدود نہیں جس میں عوامی ترقی کی طرف مائل اور کامیاب سیاسی عمل والی مدت پوری کرتی حکومت قبیح سیاسی ہتھکنڈوں سے اکھاڑی گئی ،چولہے تو ٹھپ ہوئے ہی ہیں پہلے بھی ہوتے رہے لیکن موجود حکومت نے ریکارڈ توڑ دیئے اور اب جو سیاسی عمل نے مکمل حکومتی فسطائیت کی شکل اختیار کی ہے، اس نےتو عوام کے جلسے جلوس کے بنیادی حقوق بھی چھین لئے سیاسی اختلاف رائے والوں پر ظلم ڈھائے جا رہے ہیں حکومتی بدتر سیاسی کھلواڑ کی دیدہ دلیری نے آئین پر ڈاکے کا رخ اختیار کرلیا ہے ۔ملکی عدالت عظمیٰ کی بجائے وزارت داخلہ و قانون و اطلاعات کی تشریح جس سے خود پی ڈی ایم کے نامور ماہرین آئین کو قانون اپنی کھال بچانے کے لئے کھلا اختلاف کر رہے ہیں کو عدالتی فیصلوں کو ختم کرکے اپنے منوانے کا زور شور جاری ہے ۔لگتا ہے خوف فقط الیکشن ہارنے کا نہیں ملکی سلامتی اور ناگزیر درجے کے مطلوب استحکام کو دائو پر لگا کر خلق خدا کے غضب کے خوف سے بچنے کی تدبیریں فسطائیت اور آئین شکنی سے نکالی جا رہی ہیں ،صدر بنام وزیر اعظم کا جواب اسی کا غماز ہے سو بڑا چیلنج یہ بن گیا ہے کہ موجود ’’سیکورٹی رسک‘‘ بن گئی حکومت جو ہے تو ہمارے پاکستانیوں کی ہی ، کا خوف کیسے ختم یا کم کیا جائے ؟اب اسی کی کوئی راہ نکالی جائے یہ خود تو مکمل نااہل ہیں ہی کہ مطلوب توڑ نہیں نکال سکتے، نظام بد اسٹیٹس کی طاقت کے سیاسی حاملین کو خوف سے باہر نکالنے کی بھی کوئی صورت بنائی جائے کنجی کوئی بڑے مذاکرات ہی ہیں،اسےڈھونڈو جو بلی کے گلے میں گھنٹی باندھ دے۔

درد سر کے واسطے صندل لگانا ہے مفید

اس کا گھسنا اور لگانا، درد سر یہ بھی تو ہے