1909ء کی آئینی اصلاحات

March 31, 2023

سر سیّد احمد خان بڑی استقامت اور مثبت دلائل سے ’’جداگانہ طرزِ انتخاب‘‘ کا مطالبہ دہراتے رہے۔ واقعات ثابت کر رہےتھے کہ مخلوط انتخابات میں مسلمانوں کا قومی وجود یکسر ختم ہو جائے گا۔ اُن کا انتقال 1898ء میں ہوا، لیکن اُن سے متاثر مسلم زعما اِسلامیانِ ہند کے اِس مطالبے کے حق میں سیاسی فضا ہموار کرتے رہے۔ سیّد امیر علی (1928ء-1849ء) جو دو معرکۃ الآرا کتابوں کے مصنّف تھے اور ہائی کورٹ کے جج بھی رہ چکے تھے، اُنہوں نے نیشنل محمڈن ایسوسی ایشن کی داغ بیل ڈالی جو سرسیّد کے مشن کو وقفے وقفے سے آگے بڑھاتی رہی جبکہ کانگریسی قیادت مسلمانوں کے اِس مطالبے کے خلاف زہر اگلتی اور اِسے متحدہ قومیت کے خلاف ایک سازش قرار دَیتی رہی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مسلم قیادت کے اندر اِجتماعی جدوجہد کے عزم کے ساتھ ساتھ جرأتِ اظہار بھی پیدا ہوتی گئی، چنانچہ 1906ء میں مسلمانوں کے ایک وفد نے سر آغاخان کی قیادت میں وائسرائے ہند لارڈ منٹو سے ملاقات کی اور حقائق اور دَلائل کی بنیاد پر اُن سے مطالبہ کیا کہ ہر سطح پر ’’جداگانہ انتخاب‘‘ کا اصول تسلیم کیا جائے۔ وائسرائے نے اِس پر ’ہمدردانہ غور‘ کا وعدہ کیا اور اِشارہ دِیا کہ مستقبل میں متعارف کی جانے والی آئینی اصلاحات میں اِس کے بارے میں مناسب اعلان کیا جائے گا۔سرسیّد احمد خان، جو ایک زمانے میں ہندو مسلم اتحاد کے حامی تھے اور اُنہیں ’’دو خوبصورت آنکھوں‘‘ سے تشبیہ دیتے رہے، جلد ہی اِس نتیجے پر پہنچ گئے کہ انڈین نیشنل کانگریس کا اصل نصب العین رام راج کا قیام اور مسلمانوں کو غلام بنائے رکھنا ہے۔ شعور کی اِس اعلیٰ سطح تک پہنچنے کے بعد وہ اَپنے مسلمان بھائیوں کو کانگریس کے مکروفریب سےالگ تھلگ رہنے کا مشورہ دَیتے رہے۔ پھر اُس کا ہولناک چہرہ 1905ء ہی میں بےنقاب ہو گیا۔ وائسرائے ہند لارڈ کرزن نے یہ محسوس کرتے ہوئے کہ بنگال کا صوبہ جس میں بہار اَور اَڑیسہ بھی شامل تھے، رقبے اور آبادی میں بہت بڑا ہے اور اُسے انتظامی طور پر چلانا بہت دشوار ہوتا جا رہا ہے۔ اِس لئے وہ دو صوبوں کے اندر تقسیم کر دیا گیا۔ اِس فیصلے کا مسلم اکابر کی طرف سے والہانہ خیرمقدم ہوا، کیونکہ اِس تقسیم سے مسلمانوں کی ترقی اور خوش حالی کے واضح امکانات پیدا ہو گئے تھے۔ کانگریسی قیادت اور ہندو عوام اِس پر بلبلا اٹھے اور اُنہوں نے تقسیم کے خاتمے کے لئے دہشت گردی کا راستہ اختیار کیا۔ چھ سال تک بم پھٹتے اور اِنسانوں کے پرخچے اڑتے رہے۔ ریل کی پٹریاں اکھاڑی جاتی رہیں۔ تشدد کے واقعات اِس انتہا کو پہنچ گئے کہ تاجِ برطانیہ کو 1911ء میں ’تقسیمِ بنگال‘ کی منسوخی کا اعلان کرنا پڑا جو مسلمانوں کے لئے ایک جانگداز صدمہ تھا اور یہ اُن کے اندر ہندوؤں کے خلاف مزید نفرت پھیلانے کا باعث بنا۔ اُنہوں نے دل کی گہرائیوں سے محسوس کیا کہ سرسیّد احمد خان جو اُنہیں کانگریس کی سیاست سے الگ تھلگ رہنے کا مشورہ دَے رہے تھے، وہ بڑا حقیقت پسندانہ اور مستقبل کی صورت گری کے لئے بےحد مفید تھا۔کانگریس جس نے خانہ جنگی کی سی کیفیت پیدا کر دی تھی، اُس کا مقابلہ کرنے کے لئے بنگال کے رہنماؤں میں مسلمانوں کی سیاسی تنظیم قائم کرنے کا احساس مزید شدت اختیار کرتا گیا جو سرسیّد احمد خان بہت پہلے ابھار چکے تھے۔ نواب آف ڈھاکہ جناب سلیم اللہ خان بہادر نے دسمبر 1906ء میں پورے ہندوستان سے دو ہزار سے زائد مندوبین ڈھاکہ میں مدعو کئے۔ 30دسمبر 1906ء کو محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کے زیرِاہتمام ایک بڑا جلسۂ عام منعقد ہوا جس میں خطبۂ صدارت نواب وقار الملک نے دیا۔ محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کی بنیاد سرسیّد احمد خان نے رکھی تھی اور بنگال میں اُس کے سیکرٹری جنرل نواب سلیم اللہ تھے۔ نواب وقارالملک نے اپنے خطبۂ صدارت میں اِس امر پر بطورِ خاص زور دِیا کہ ہمیں آج اُس وقت کے لئے تیار ہونا ہو گا جب انگریز ہندوستان سے رخصت ہو رہے ہوں گے اور مسلمان ہندوؤں کی سفاک اکثریت کے رحم و کرم پر رہ جائیں گے۔ طویل غور و خوض کے بعد ’’آل انڈیا مسلم لیگ‘‘ کا قیام عمل میں آیا جس کے پہلے صدر سر آغاخان منتخب ہوئے۔ انتہائی مشکل صورتِ حال میں کل ہند سطح پر ایک مسلم سیاسی جماعت کے وجود میں آنے سے مسلمانوں میں کچھ حوصلہ پیدا ہوا اَور یوں سیاسی اور آئینی جدوجہد میں ایک گونہ توانائی آتی گئی۔اُسی زمانے میں ایک عظیم واقعے نے ہندوستانیوں میں یہ اعتماد پیدا کیا کہ وہ خِطے کی ایک عظیم طاقت بن سکتے ہیں۔ ہوا یہ کہ جاپان۔روس جنگ (5-1904ء) میں جاپان فتح یاب ہو گیا جس سے ہندوستانی ایک نئے جذبے سے سرشار ہو کر حکومت میں بڑے حصّے کا مطالبہ کرنے لگے۔ اُنہی دنوں برطانوی حکومت کے اندر یہ تبدیلی رونما ہوئی کہ وہاں لبرل اقتدار میں آ گئے۔ ہندوستان کے سیاسی ماحول میں تیزرفتار تغیّر کے باعث وائسرائے لارڈ منٹو نے 1907ء میں لیجسلیٹو کونسل میں یہ اعلان کیا کہ ہندوستانیوں کو اِنتظامی امور پر اظہارِ خیال کے زیادہ مواقع دیے جائیں گے۔ اِس سے قبل وزیرِ ہند لارڈ مارلے برطانوی پارلیمنٹ میں ایک بِل متعارف کرا چکے تھے جو 1909ء میں منظور ہوا۔ اُسے منٹو۔مارلے اصلاحات کے نام سے شہرت ملی۔ اُن اصلاحات کے نمایاں خدوخال یہ تھے:(1) گورنرجنرل اور صوبائی گورنروں کی لیجسلیٹو کونسلوں کے ارکان کی تعداد میں اضافہ ہوا اَور ہندوستانی بھی اُن میں انتخابات لڑنے کے اہل قرار دِیے گئے۔ (2) کونسلوں کے فرائضِ منصبی بھی بڑھا دیے گئے۔ امپریل لیجسلیٹو کونسل کے ارکان ٹیکسیشن میں متبادل تجاویز پیش کر سکتے اور عوام کے عمومی معاملات بھی زیرِبحث لا سکتے تھے۔ اِس کے علاوہ اَرکان سوالات اور اِضافی سوالات بھی پوچھ سکتے تھے۔ (3) اِس ایکٹ کے تحت جو قوانین بنائے گئے، اُن کی رو سے صوبائی لیجسلیٹو کونسل میں ’سرکاری اکثریت‘ کا طریقِ کار ختم کر دیا گیا، اگرچہ وہ مرکزی کونسل میں برقرار رَہی۔ (4) صوبائی کونسلوں کے ارکان کا انتخاب یونیورسٹی کے سینیٹروں، زمین داروں، ڈسٹرکٹ بورڈوں، میونسپل کمیٹیوں اور چیمبرز آف کامرس کے ذریعے قرار دِیا گیا۔ (5) لیجسلیٹو کونسلوں میں مسلمانوں کے لئے نشستیں مختص کر دی گئیں جن کا انتخاب مسلم ووٹر ہی کر سکتے تھے۔ اِس طرح ’جداگانہ انتخاب‘ کا اصول تسلیم کر لیا گیا۔ مسلمانوں کے نقطۂ نظر سے یہ بہت اہم پیش رفت تھی۔ (جاری ہے)