زوجہ رسولﷺ، اُم المومنین سیدہ خدیجتہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا

April 01, 2023

مولانا محمد قاسم رفیع

اللہ تعالیٰ نے نوع انسانیت میں سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا، پھر ان کی تنہائی اور وحشت دور کرنے کے لئے حضرت حوا سلام اللہ علیہا کو پیدا فرمایا، مرد و عورت کے اس اولین جوڑے کو اللہ تعالیٰ نے دنیا میں اتارا، اور ان دونوں سے نسلِ انسانیت کا ارتقا ءشروع ہوا۔ مرد و عورت کا یہ رشتہ روزِ اول سے چلا آرہا ہے، باہمی محبت و مودّت، ہمدردی و خیرخواہی اور سفرِ حیات کے نشیب و فراز میں ایک دوسرے کے ساتھ تعان کے لئے یہ بے حد ضروری بھی تھا۔

حضرت آدم علیہ السلام سے نسل انسانی کے ساتھ ساتھ نبوت کا سلسلہ بھی جاری ہوا، جس کے آخری تاج دار خاتم النبیین آنحضرت ﷺ ٹھہرے، اور حضرت آدم و حوا سلام اللہ علیہم اسے ازدواج کا جو تعلق قائم ہوا اس کی سنہری کڑی حضور اکرم ﷺ اور امّ المومنین سیّدہ طیبہ طاہرہ حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا جیسا خوبصورت اور لاثانی جوڑا ہے۔

مثل مشہور ہے کہ ہر کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے۔ قطع نظر اس کی درستی کے ، البتہ یہ ضرور ہے کہ ’’ عورت ‘‘ ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کے روپ میںمرد کا جو سہارا بنتی ہے ، اس کے گھر کے بوجھ کو اپنے کاندھوں پر اٹھالیتی ہے، اسے بہت سی فکروں سے آزاد اور کئی جھمیلوں سے مطمئن کردیتی ہے، یہ عناصر ضرور مرد کی کامیابی کے سفر کو آسان اور سہل کر دیتے ہیں۔

جب آنحضرت ﷺ پر منصبِ نبوت کی اہم ذمہ داری عائد ہوئی اور آپ پہلی وحی کے نزول کے بعد گھر تشریف لائے تو یہ آپ کی زوجہ مطہرہ سیدہ خدیجہ ؓہی تھیں، جن کے تسلی آمیز کلمات نے آپ کی ڈھارس بندھائی اور ان کے حوصلہ افزا کلمات نے آپ کو امید دلائی تھی، پھر اپنے چچازاد بھائی حضرت ورقہ بن نوفل ؓ کے پاس لے جاکر ان سے بھی آپ ﷺ کے قلبی اطمینان میں اضافہ کرایا۔

چنانچہ صحیح بخاری کی روایت ہے کہ جب غارِ حرا میں حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ظاہرہونے پر حضور اقدس ﷺ گھبرا کر گھر تشریف لائے تھے تو اس گھبراہٹ کے وقت بھی حضرت خدیجہ ؓنے حضور اکرمﷺ کو خوب تسلی دیتے ہوئے کہا:’’آپ پریشان نہ ہوں۔ اللہ کی قسم! ہرگز ایسا نہیں ہوسکتا کہ اللہ آپ کو بے سہارا کردے۔ آپ تو رشتے داروں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آتے ہیں۔ آپ سچ بولتے ہیں۔ عاجز محتاج کی مدد کرتے ہیں۔ غریبوں کا خرچ برداشت کرتے ہیں۔ مہمان نوازی کرتے ہیں اور حق والے مصیبت زدوں کے کام آتے ہیں۔‘‘

پھر حضرت خدیجہؓکی خواہش پر حضرت ورقہ بن نوفلؓ، جو آسمانی مذاہب کے بڑے عالم اور توحید پرست تھے، نے سارا ماجرا سنا تو کہا:’’اے بھتیجے! خوش ہوجائو، یہ وہی فرشتہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر نازل کیا تھا۔ کاش! میں اس وقت تک زندہ رہ سکوں،جب آپ کی قوم آپ کو مکہ مکرمہ سے نکالے گی۔‘‘ آپ ﷺنے تعجب سے دریافت فرمایا : ’’ کیا ایسا ہوگا؟‘‘ تو حضرت ورقہؓ نے جواب میں کہا: ’’جی ہاں! جب کبھی آپ جیسا دین لے کر کوئی نبی آیا تو ضرور اس سے دشمنی کی گئی۔ اگر مجھے آپ کا وہ زمانہ ملا تو میںآپ کی بھرپور مدد کروں گا۔‘‘

حضرت ورقہ بن نوفلؓ اس کے بعد زیادہ عرصہ حیات نہیں رہ سکے اور آنحضرت ﷺکے اعلانِ نبوت سے قبل فوت ہوگئے، لیکن ان کے انہی مندرجہ بالا ایمان افروز کلمات ، جو آنحضرت ﷺ کی تصدیق پر مشتمل ہیں ، کی بنا ءپر صحیح یہی ہے کہ حضرت ورقہؓ مسلمان فوت ہوئے۔

حضرت ام المومنینؓ کے مندرجہ بالا واقعے سے ان کی سمجھداری، فہم و فراست، ایمان کی مضبوطی، یقین کی پختگی، ثابت قدمی اور بیدار قلبی کا ثبوت ملتا ہے ، اور کیوں نہ ہو! آپؓ کا حسب و نسب انہی اوصاف کا تقاضا کرتا ہے۔

ام المومنین، سیدۃ المسلمین حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا عام الفیل سے تقریباً پندرہ سال پہلے اور ہجرت نبوی سے اڑسٹھ سال قبل پیدا ہوئیں، سن عیسوی کے اعتبار سے یہ چھٹی صدی کا نصف یعنی تقریباً ۵۵۵ یا ۵۵۶ عیسوی بنتا ہے۔ آپؓ کا سلسلۂ نسب والد گرامی کی جانب سے یہ ہے:خدیجہ بنت خویلد بن اسد بن عبدالعزیٰ بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوی بن غالب بن فھر.....جبکہ والدہ محترمہ کی جانب سے سلسلہ نسب یوںہے: خدیجہ بنت فاطمہ بنت زائرہ بن الاصم بن رواحہ الھرم بن حجر بن عبدبن محیص بن عامر بن لوی بن غالب بن فھر....اس طرح آپؓ کا سلسلہ نسب آنحضرت ﷺ کے اجداد سے جاملتا ہے، اور آپؓ کا قبیلہ قریش ٹھہرتا ہے۔

تمام ازواج مطہراتؓ میں آپ کو آپﷺ سے نسب کے اعتبار سے سب سے زیادہ قرب حاصل ہے ، اورنکاح کے بعد آپ گھرانہ نبوت کی سب سے پہلی فرد ہیں۔ خانوادۂ رسالت کے بارے میں رسالت مآب ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:’’اللہ تبارک وتعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کیا تو مجھے ان میں سے بہترین گروہ میںپیدا فرمایا، پھر اس مخلوق کے مزید دو گروہ بنائے تو مجھے ان میں سے بہترین گروہ میں پیدا فرمایا، پھر ان لوگوں کے قبیلے بنائے تو مجھے ان میں سے بہترین قبیلے میں پیدا فرمایا ، پھر انہیں گھروںمیں تقسیم کیا تو مجھے ان لوگوں میں سے کیا جو گھر اور ذات کے اعتبار سے ان سب سے بہتر ہیں۔‘‘ (ترمذی)

ایک اور حدیث میں ارشاد گرامی ہے:’’اللہ تعالیٰ نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں کنانہ کو فضیلت دی اور کنانہ میں سے قریش کو فضیلت دی اور قریش میں سے بنو ہاشم کو فضیلت دی اور بنو ہاشم میں سے مجھے فضیلت دی۔‘‘ (صحیح مسلم)

سیدہ خدیجۃ الکبریٰؓ اس افضل ترین گھرانے کی افضل البشر ذات گرامی آنحضرت ﷺ کی پہلی زوجہ مطہرۂ ہونے کے ناتے مقام و مرتبےمیں اعلیٰ و بالا نظر آتی ہیں۔ جب کہ آپ کا اپنا گھرانا بھی بزرگی میںممتاز تھا، آپ کے خاندان میں ایسے بزرگ موجود تھے جو شرک و بت پرستی سے بے زار تھے اور تورات و انجیل کے عالم تھے، جس کی بناء پر وہ نبی آخر الزماں آنحضرت ﷺ کی بعثت کے منتظر تھے، اور جانتے تھے کہ ان کا زمانہ قریب ہے اور وہ اولادِ سیدنا اسماعیل علیہ السلام سے ہوں گے۔

حضرت خدیجہؓ کے والد گرامی کا ایک قابل فخر کارنامہ یہ بیان کیا جاتا ہے کہ جب یمن کے آخری بادشاہ تبع نے حجر اسود کو خانہ کعبہ سے اکھاڑ کر یمن لے جانے کا ارادہ کیا تو جناب خویلد نے اسے منع کیا اور بالآخر وہ اسے اس ارادے سے باز رکھنے میںکامیاب ٹھہرے، اس طرح حجر اسود کی حفاظت میں انہوں نے کلیدی کردار ادا کیا۔ نیز حضرت خدیجہؓ کے چچازاد جناب ورقہ بن نوفلؓکے بارے میں گزرا کہ وہ انجیل کے بڑے عالم تھے، شرک سے بے زار اور مؤحّد تھے، آنحضرت ﷺکے پاس تشریف لانے والے فرشتے حضرت جبرائیل علیہ السلام کی معرفت رکھتے تھے ، اور آپ ﷺکی نبوت و رسالت کی گواہی دینے والے تھے۔ اپنے آباء واجداد کی انہی صفات و خوبیوں کی بناء پر سیدہ خدیجہؓ بھی انہی کے رنگ میں رنگی ہوئی تھیں، آپ انتہائی شرم و حیا والی خاتون تھیں، بت پرستی سےکوسوں دور تھیں، اور اپنے چچازاد حضرت ورقہؓ کے ساتھ نبی آخرالزماں ﷺکی بعثت کی منتظر تھیں۔

اسی کا نتیجہ تھا کہ آپ، آنحضرتﷺ سے نکاح سے قبل ہی آپ کے اوصاف کی بناء پر آپ سے متاثر تھیں۔ چونکہ آپؓ اپنے والد گرامی جناب خویلد کے انتقال اور پھر اپنے دو شوہروں کی وفات کے بعد تجارت کی نگرانی خود کرتی تھیں، مگر بازار جانے کی بجائے اپنا تجارتی مال بھروسے مند لوگوں کے سپرد کردیتی تھیں اور وہ نفع لاکر آپؓ کے حوالے کردیتے تھے، اس طرح آپؓ گھر ہی میں رہ کر تجارت میں حصہ لیتی تھیں۔

جب آپ کو معلوم ہوا کہ بنو ہاشم کے سردار حضرت عبدالمطلب کے پوتے اور جناب ابو طالب کے بھتیجے ’’محمد بن عبداللہ‘‘ (ﷺ) سفرِ تجارت پر جانا چاہتے ہیں، اور حضور اقدس ﷺنے چچا جناب ابو طالب کے مشورے سے حضرت خدیجہ ؓ کا مالِ تجارت لے جانے کی پیش کش کی تو حضرت خدیجہؓ نے بہ خوشی اپنا سامانِ تجارت آپ کے حوالے کیا ، اور اپنے خصوصی غلام میسرہ کو آپ کا خیال رکھنےکی تاکید فرمائی ، اور آپ کے ساتھ دوسروں کی بہ نسبت دگنا معاوضہ دینے کا معاہدہ کیا۔

اس سفرِ تجارت میں میسرہ نے جن عجائب کا مشاہدہ کیا کہ آپﷺ نے مال بیچنے کے لئے بتوں کی قسم کھانے سے انکار فرمادیا، آپ کے بیچےو خریدے گئے مال میں غیرمعمولی اضافہ و برکت نظر آئی ، بادل آپ پر سایہ کیے رہتے، عیسائی راہب نسطورا نے آپ کو دیکھ کر کہا کہ ان میں آخری نبی کی نشانیاں پائی جاتی ہیں، نیز آپ کی امانت و دیانت، سچائی و راست بازی، جھوٹ و دھوکے سے اجتناب، صاف گوئی و معاملہ فہمی وغیرہ کئی خوبیاں دیکھیں، تو میسرہ نے سیدہ خدیجہؓ کے گوش گزار تمام احوال کیے۔ یہ سن کر حضرت خدیجۃؓ آنحضرت ﷺ کی مزید گرویدہ ہوگئیں۔

زمانہ جاہلیت میں بھی آپؓ کے کردار کی بلندی اس قدر تھی کہ آپؓ ’’طاہرہ‘‘ کے خوش لقب سے پکاری جاتی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ کو دو مرتبہ بیوہ ہونے کے بعد بھی عرب کے رؤسا و سرداروں کی جانب سے نکاح کے پیام موصول ہوتے رہے، مگر آپؓ نے قبول نہیں فرمائے۔

پھر آپؓ کی قریبی سہیلی حضرت نفیسہ بنت منیہ نے آپﷺ کے ساتھ آپؓ کے نکاح کی تحریک کی، جانبین سے رضا مندی ہونے کے بعد حضور اکرمﷺ کے سرپرست و محبوب چچا جناب ابوطالب، حضرت حمزہؓ اور حضرت عباس ؓباقاعدہ پیامِ نکاح لے کر حضرت خدیجہؓ کے گھر تشریف لے گئے ، حضرت خدیجہؓ کی جانب سے ان کے چچازاد بھائی عمرو بن اسد آئے، مجلسِ نکاح منعقد ہوئی، جناب ابو طالب نے خطبہ نکاح پڑھا، جس میں انہوں نے کہا: ترجمہ: ’’تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جس نے ہمیں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی کھیتی اور معد کی اصل اور مضر کی جڑ میں سے پیدا کیا، اور ہمیں اپنے گھر کی حفاظت کرنے والے اور حرم کی دیکھ بھال کرنے والے بنایا، اور ہمارے لئے ہر قسم کی گندگی و برائی سے محفوظ گھر اور امن والا حرم بنایا ، اور ہمیں لوگوں پر حکومت عطا کی۔

پھر یاد رکھیے کہ میرا یہ بھتیجا محمد بن عبداللہ اس صفت کا حامل ہے کہ اس کے ساتھ کسی کو بھی وزن کیا جائے تو یہ بڑھ جائے گا۔ یہ اگرچہ مال میں قلیل ہے (لیکن کیا ہوا) مال تو ڈھلتی چھاؤں اور بدلنے والی چیز ہے۔ محمد وہ ہیں جن کی (ہم سے) رشتے داری کو آپ لوگ پہچانتے ہیں، انہوں نے خدیجہؓ بنت خویلد کو پیام نکاح دیا ہے اور اس کے بدلے مہر بھی دینا طے کیا ہے۔ وہ ادھار ہو یا نقد، میرے مال سے ہوگا۔ خدا کی قسم! اس کے بعد ان (حضرت محمد رسول اللہ ﷺ) کے بڑے چرچے اور ایک عظیم شان ہوگی۔‘‘

جناب ابوطالب کے خطبۂ نکاح پڑھنے کے بعد حضرت خدیجہؓ کے چچازاد بھائی عمرو بن اسد نے حضور اکرمﷺ کی شان میںیہ جملہ کہا:’’یہ(محمد بن عبداللہ)عالی نسب اور معزز جواںمرد ہیں۔ ‘‘ اور حضرت خدیجہؓ کا نکاح آپ سے کردیا۔

اس نکاح کا مہر ساڑھے بارہ اوقیہ چاندی مساوی پانچ سو درہم طے ہوا، آج کل اس کا وزن ایک سو اکتیس تولہ تین ماشہ چاندی بنتا ہے۔ آپ ﷺنے اپنی تمام ازواج مطہراتؓ اور صاحبزادیوں کا مہر یہی رکھا(سوائے ام المومنین حضرت ام حبیبہؓ کے،آپؓ کا مہر شاہِ حبشہ نجاشی نے اپنے پاس سے کئی گنا زیادہ ادا کیا تھا)، اور آج کل عرفِعام میں مہرِ فاطمی اسی کو کہا جاتا ہے۔ نکاح کے وقت آپ ﷺکی عمر مبارک پچیس برس تھی، جبکہ حضرت خدیجہؓ زندگی کی چالیس بہاریں دیکھ چکی تھیں۔ نکاح کے بعد آپ ﷺ نے ولیمے کا اہتمام فرمایا اور اونٹ ذبح کر کے لوگوں کو دعوت کھلائی۔

حضرت خدیجہؓ نے آپ ﷺ کے نکاح میں آجانے کے بعد اپنا تمام تر مال و دولت آپ پر نچھاور کر دیا اور خود کو آپ کی خدمت کے لئےوقف کردیا۔ آپ نبوت ملنے سے قبل خلوت نشینی کو پسند فرمانے لگے تھے، چنانچہ آپ کئی کئی روز غارِ حرا میں مقیم رہتے تھے تو حضرت خدیجہؓ آپ ﷺکے کھانے پینے کے انتظامات میں مشغول رہتی تھیں، آپﷺ کے غارِ حرا تشریف لے جاتے وقت توشہ سفر باندھ کر ساتھ دیتیں اور بسا اوقات ضرورت پڑنے پر گھر سے کھانا تیار کرکے غار تک پہنچانے تشریف لے جاتی تھیں۔

آپ ﷺکو نبوت ملنے کے بعد حضرت خدیجہؓ نے ہر مشکل گھڑی میں آپ کا ساتھ نبھایا اور آپ کو کبھی تنہا و اکیلا نہیں چھوڑا۔ کفار مکہ نے جب آپﷺ کا مقاطعہ کیا ، اور آپ اپنے گھر والوں اور ایمان والوں کے ساتھ شعب ابی طالب میں تین سال محصور رہے، تب حضرت خدیجہؓ کی عمر ساٹھ برس سے زائد ہوچکی تھی، مگر وہ آپ ﷺکے ساتھ ثابت قدم رہیں اور اس سخت کڑے امتحان میں کھری اتریں۔

آپؓ کے بارے میں آتا ہے کہ’’حضور اکرمﷺ اپنی پریشانیاں حضرت خدیجہؓ کے سامنے ذکر کرتے ، اور وہ اسلام کے سلسلے میں آپ کی سچی و مخلص مشیرِ کار تھیں۔‘‘ (السیرۃ النبویۃ لابن ہشام ، ۱ ؍۴۱۶)

آنحضرت ﷺ کو نبوت ملنے کے بعد آپ کی سب سے پہلی تصدیق حضرت خدیجہؓ نے کی ، اور بالاتفاق آپؓ علیٰ الاطلاق مردوں و عورتوں میں سب سے پہلی مسلمان ٹھہریں۔ پھرجب آپ ﷺ گھر میں نماز ادا فرماتے تو حضرت خدیجہؓ آپ کے ساتھ سب سے پہلے نماز میں شریک ہوئیں، اس وقت نماز پنج گانہ فرض نہیں تھی، البتہ دن میں دو نمازیں آپ ﷺ ادا فرماتے تھے۔

آپ ﷺ کی تمام ازواج مطہرات ؓ میں سے صرف حضرت خدیجہؓ سے اولاد ہوئی، جن میں دو بیٹے حضرت قاسم اور حضرت عبداللہ ہیں ، جو بچپن میںفوت ہوگئے ، اور چار صاحبزادیاں حضرت زینبؓ، حضرت رقیہؓ، حضرت ام کلثومؓ اور حضرت فاطمہ ہیںؓ ۔ جن میں سے سیدہ فاطمہؓ سےحضور ﷺ کی نسل آگے چلی۔

آپ ﷺکو اپنی تمام ازواج مطہراتؓ میں سب سے زیادہ محبت حضرت خدیجہؓ سے رہی۔ آپ ﷺنے ان کے ہوتے ہوئے دوسرا نکاح نہیں کیا، اور آپ ﷺحضرت خدیجہؓ کے وصال کے بعد بھی انہیں یاد فرماتے رہتے۔ جب بھی گھر میں گوشت تقسیم کرتے تو حضرت خدیجہؓ کی سہیلیوں کو بھی ضرور بھجواتے تھے۔ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ مجھے ام المؤمنین سیدہ خدیجہؓ سے زیادہ کبھی کسی عورت پر رشک نہیں آیا ، کیونکہ آپﷺ ان کا کثرت سے ذکر فرماتے تھے۔

ایک بار آپ نے ان کی شان میں ارشاد فرمایا:ـ’’وہ میرے اوپر اس وقت ایمان لائیں، جب لوگوں نے میرا انکار کیا، انہوں نے میری اس وقت تصدیق کی جب لوگوں نے مجھے جھٹلایا ، اور انہوں نے اپنے مال سے میرے ساتھ اس وقت ہمدردی کی جب لوگوں نے مجھے محروم رکھا۔ اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے مجھے ان سے اولاد عطا فرمائی۔‘‘ (مسند احمد)

ایک اور حدیث میں ارشاد گرامی ہے:’’جنت کی عورتوں میں سب سے افضل خدیجہؓ بنت خویلد، فاطمہؓ بنت محمد(ﷺ)، مریمؓ بنت عمران اور آسیہؓ بنت مزاحم (فرعون کی زوجہ) ہیں۔‘‘ (صحیح ابن حبان)

ایک بار جب آپؓ ، حضور اکرم ﷺ کے لئے کھانا لے کر غارِ حرا جارہی تھیں تو حضرت جبرائیل ؑنے آپﷺ سے کہا کہ جب حضرت خدیجہؓ آپ کے پاس تشریف لائیں تو انہیں اللہ تعالیٰ کا اور میرا سلام کہیے گا ، اور انہیںجنت میں ایسے مکان کی بشارت دیجیے جو موتیوں کا بنا ہوگا ، جس میں نہ شور و شغب ہوگا اور نہ ذرا بھر کوئی تکلیف ہوگی۔ (بخاری شریف)

حضرت جابرؓ فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ سے ایک مرتبہ حضرت خدیجہؓ کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے ارشاد فرمایا:’’میں نے انہیں جنت کی نہروں میں سے ایک نہر پر دیکھا ہے، وہ موتیوں کے ایک ایسے مکان میں تھیں، جس میں نہ کوئی شور و شغب تھا اور نہ ہی کوئی محنت و مشقت۔‘‘ (الاستیعاب، المستدرک)

سیدہ خدیجہؓ کے ان فضائل کے علاوہ اس سے بڑھ کر فضیلت کیا ہوگی کہ سورۃ الضحیٰ میں اللہ تعالیٰ نے آپ پر اپنے جو انعامات و احسانات شمار کروائے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت خدیجہؓ کے مال کے ذریعے آپ کو آسودگی عطا فرمائی اور اسے اپنا انعام و احسان باور کرایا ہے۔ خود حضور اکرم ﷺ کا ارشاد گرامی بھی اوپر منقول ہوا: ’’انہوں نے اپنے مال سے میرے ساتھ اس وقت ہمدردی کی، جب لوگوںنے مجھے محروم رکھا۔ ‘‘

حضرت خدیجہؓ آپ کی رفاقت میں پچیس برس رہیں، پندرہ سال نبوت ملنے سے پہلے اور دس سال نبوت ملنے کے بعد۔ نبوت کے دسویں سال اور ہجرت سے تین سال قبل ماہِ رمضان کی دس تاریخ کو۶۵ برس کی عمر میں آپؓ نے مکہ مکرمہ میں وصال پایا، اس وقت تک نمازِ جنازہ کے احکامات نازل نہیں ہوئے تھے، اس لئے آپ کو کفن دے کر مقام حجون میں دفن کیا گیا، آپ ﷺ خود ان کی قبر میں اترے اور اپنی رفیقہ و حبیبہ کو سپردِ خاک کیا۔ آج وہاں ’’جنت المعلٰی‘‘ کے نام سے قبرستان ہے۔

حضرت خدیجہؓ کے وصال کے بعد آپ ﷺ اکثر انہیں یاد کرتے تھے۔حضرت خدیجہؓ کی نسبت سے کوئی بات نکل آتی تو آپ فوراً اس طرف متوجہ ہوتے تھے۔ ایک بار سیدہ پاکؓ کی ہمشیرہ حضرت ہالہؓ بنت خویلد آئیں تو ان کی آمد سے نبی کریمﷺ خوش ہوئے، ان کی آواز اپنی بہن حضرت خدیجہؓ کے مشابہ تھی۔

حضرت خدیجہؓ کے فضائل میں ایک فضیلت جو ان کی کمال عقل اور وفورِ بلاغت کا ثبوت بھی ہے، اسے آخر میںدرج کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ ایک بار حضرت جبرائیل امین علیہ السلام غارِ حرا میںبارگاہ ِرسالت میں حاضر ہوئے تو درخواست گزار ہوئے کہ حضرت خدیجہؓ کو اللہ تعالیٰ اور میرا سلام کہیے۔ چنانچہ آپ ﷺ نے حضرت خدیجہؓ کو خالق کائنات اور فرشتوں کے امام ، دونوںکا سلام پہنچایا ، تو حضرت خدیجہؓ نے جواب میں کہا:ترجمہ: ’’اللہ تعالیٰ تو خود ہی سلامتی والے ہیں، سلامتی انہی کی جانب سے ملتی ہے۔ اے نبی! آپ پر سلام، جبرائیل پر سلام،اور ہر اس شخص پر سلام جو اس واقعے کو سنے، مگر شیطان مردود پر سلام نہیں۔‘‘ (بحوالہ: ’’ عہدِ نبوت کے ماہ و سال‘‘ ،ص:۳۴)

سیدہ پاکؓ کے اس تذکرے کو لکھنے والے اور پڑھنے سننے والے ہم سب کس قدر خوش نصیب ہیں کہ ہماری اماں جان نے ، پوری امت مسلمہ کی عظیم المرتبت ماں نے اپنی اولاد کو اپنا سلام بھیجا ہے، تو کیا اولاد پر حق نہیں کہ ان کے درجات کی بلندی کے واسطے مشغولِ دعا ہو، تاکہ انہیں بھی خبر ہو، کیونکہ وہ ماں ہیں، اور حقیقی ماںباپ سے بڑھ کر روحانی ماںباپ (آپ ﷺ اور آپ کی زوجہ مطہرہ سیدہ خدیجۃ الکبریٰ ؓ) کا ہم پر حق ہے، کیونکہ حقیقی ماںباپ تو ہمارے دنیا میں آنے کا ظاہری سبب بنے ہیں، جبکہ روحانی والدین کی بدولت ہمیںدولت ایمان نصیب ہوئی ہے، اور اولاد ماںکو یاد کرے تو ماں اولاد سے کتنی خوش ہوتی ہے!!!