قومی ڈائیلاگ ناگزیر

April 02, 2023

وہی قومیں دنیا میں ترقی کرتی ہیں جو عدالتوں اور قانون کا احترام کرتی ہیں۔لگتا ہے ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت ملک کو بند گلی کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔پی ڈی ایم کی حکومت اپنی مرضی کی قانون سازی کر کے نواز شریف کی واپسی کی راہ ہموار کر رہی ہے۔ اس سے نظریۂ ضرورت کا تاثر ایک مرتبہ پھر سے زندہ ہو گیا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ملک میں آئین و قانون کی بالادستی کا کوئی تصور موجود نہ ہو۔وطن عزیز پاکستان میں جاری سیاسی چپقلش کے باعث 22کروڑ عوام میں اضطراب اور مایوسی کی کیفیت تشویشناک حد تک بڑھ چکی ہے۔خدارا! پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم دونوں ہی ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں افہام و تفہیم کا راستہ اختیار کریں۔ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات سے فرار کی خاطر قومی اداروں کو بے توقیر کرنا افسوسناک اور لمحۂ فکریہ ہے۔الیکشن کمیشن کی جانب سے پنجاب میںانتخابات ملتوی کرنے اور آٹھ اکتوبر کی نئی تاریخ کا اعلان، غیر آئینی و غیر قانونی اقدام ہے۔سوال یہ ہے کہ اگر قیامت خیز زلزلے کے باوجود ترکیہ میں انتخابات ہو سکتے ہیں تو پاکستان میں کیوں نہیں؟

موجودہ انتشار، افراتفری اور بحران سے نجات حاصل کر نے کیلئے ضروری ہے کہ تمام سیاستدان ہوش کے ناخن لیں۔ ملک میںنفرت کی سیاست کا خاتمہ ہونا چاہئے۔موجودہ حالات پر قابو نہ پایا گیا تو یہ امر ،خاکم بدہن، قومی سلامتی کیلئے خطرناک ہوسکتا ہے۔ عالمی برادری اور دوست ممالک سب تشویش میں مبتلا ہیں۔پاکستان میں قومی و صوبائی انتخابات ایک ہی دن کروانے کا اعلان ہوناچاہئے۔ آئین شکنی اور انتخابات ملتوی کرنے کی بجائے اب انتخابات کا جلد انعقاد ہونا چاہئے۔پی ڈی ایم اور تحریک انصاف دونوں کی طرف سے آئین و قانون کا مذاق اڑایا جا رہا ہے،مقننہ اور عدلیہ کے اختیارات کی دھجیاںاُڑائی جا رہی ہیں۔ عدلیہ آئین کی محافظ ہے اس کے خلاف سازشوں کا سلسلہ قابل مذمت ہے۔عدالتوں پرمرضی کے فیصلوں کے لئے دباؤ ڈالنا خطرناک ثابت ہو گا۔نظریۂ ضرورت کو اب ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دفن کرنا ہو گا۔عدالتوں کو بھی سب کو یکساں انصاف فراہم کرنا چاہئے کسی ایک سیاسی جماعت کی حمایت کا تاثر ملک میں انصاف کی موت کے مترادف ہے۔ اعلیٰ عدلیہ کو اس تاثر کو فوری ختم کرنا چاہئے۔سیاسی چپقلش سے عوام کو ریلیف نہیں ملے گا۔وقت کا ناگزیر تقاضا ہے کہ ایسی پالیسیاں مرتب کی جائیں جن سے ملک میں معاشی و سیاسی استحکام آسکے۔ ملک میں سیاسی استحکام ناگزیر ہے بصورت دیگر حالات کسی کے قابو میں نہیں رہیں گے۔ پاکستان کی معیشت کومضبوط اور عوام کو درپیش مسائل فوری حل کرنے کے لئے تمام اسٹیک ہولڈرز کو اپنا مثبت کردار ادا کرنا ہو گا۔ قومی ترقی کے لئے آزاد عدلیہ کا قیام بہت ضروری ہے۔ پاکستان میں عدلیہ کی بحالی کی جدوجہد میں تمام سیاسی جماعتوں نے اپنا بھرپور کردار ادا کیا تھا۔ ملک میں آئین و قانون کی بالادستی کے لئے عدلیہ کو میرٹ پر فیصلے کرنا چاہئیں۔ارباب اقتدار اپنے سیاسی مقاصد کے لئے اداروں کو متنازعہ بنانا چاہتے ہیں۔ اس وقت ملکی معاشی حالات ایسے نہیں جو کسی ایک جماعت کے قابو میں آسکیں۔آئی ایم ایف ہمیں ناکوں چنے چبوا رہا ہے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ آئی ایم ایف سے قرضہ حاصل کر کے بھی عوام کی فلاح و بہبود کے لئے کچھ نہیں ہو پا رہا۔ہمارے ارباب اختیار کے عاقبت نا اندیش فیصلوں کا خمیاز ہ ایک عرصہ سے ملک و قوم بھگت رہی ہے۔پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم کی سیاسی محاز آرائی اور اقتدار کی ہوس نے عوام کوناامیدی کے اندھیروں میں دھکیل دیا ہے اب تو نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ مفت آٹے کے حصول کی خاطر لگنے والی قطاروں میں موت تقسیم ہو رہی ہے۔ پنجاب اور خیبر پختونخوا کے کئی شہروں میں کئی قیمتی جانیں آٹا لینے میںضائع ہو چکی ہیں۔موجودہ حکومت نے حقیقت میں قوم کو بھکاری بنا دیا ہے۔آئین کے مطابق الیکشن کمیشن کو بغیر کسی دباؤ کے آزادانہ فیصلے کرنے چاہئے لیکن لگتا یہ ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان حکومت کے دباؤ میں آکر فیصلے کر رہا ہے۔پنجاب میں الیکشن ملتوی کرنا اسی سلسلے کی کڑی ہے۔اس فیصلے سے ملک میں انارکی پھیلے گی اور حالات کنٹرول سے باہر ہو جائیں گے۔ الیکشن کمیشن سپریم کورٹ کے فیصلے کے برعکس انتخابات کروانے سے راہ فرار اختیار کر کے کھلی آئین شکنی کر رہا ہے۔ عدلیہ، میڈیا اورسیاسی جماعتوں کی تقسیم کی وجہ سے حالات دن بدن سنگین ہوتے جا رہے ہیں۔ملک کی اعلیٰ عدلیہ میں تقسیم کا تاثر لمحہ فکریہ ہے کسی بھی ملک کے قومی ادارے ملکی سلامتی کے ضامن ہوتے ہیں۔ سب اداروں کوملک میں انتشار کی فضا کے خاتمے کے لئے کردار ادا کرنا چاہئے ۔موجودہ حکمران اپنے سیاسی مقاصد کے لئے اداروں کو متنازعہ بنانا چاہتے ہیں۔ فرسودہ نظام کو ختم اور اشرافیہ کو قانون کا پابند بنانے سے ملکی صورتحال بہتر ہو گی۔ کوئی بھی معاشرہ اس وقت تک ترقی نہیں کرسکتا جب تک عوام کو سستااور فوری انصاف میسر نہیں آجاتا۔ تمام سیاسی جماعتوں کو آئندہ عام انتخابات شفاف بنانے کے لئےقومی ڈائیلاگ کا راستہ اختیار کرنا ہوگا۔