سمندر کو کوزے میں بند کردیا

April 05, 2023

ڈاکٹر محمد عبدالرحمٰن صدیقی، جاپان

علامہ اقبالؒ مرحوم کا سارا کلام قرآن، حدیث، سیرت رسولؐ سے بڑی حد تک متاثر ہے۔ ان کا مشہور کلام بانگ درا، پیام مشرق، ضرب کلیم، بال جبرائیل، ارمغان حجاز اور جاوید نامہ وغیرہ پر مشتمل اور اصلاح امت کے جذبات سے لبریز ہے۔ وہ اپنی کتاب ’’جاوید نامہ‘‘ میںبظاہر اپنے بیٹے سے خطاب کر رہے ہیں مگر دراصل اس نصیحت نامہ کا مقصد قوم کے نوجوانوں کو بیدارکرنا اور اسلام کی شان و شوکت بحال کرنے کا جذبہ پیدا کرنا ہے۔ ’’جاوید نامہ‘‘ نہایت پراثر، دردانگیز، محبت اسلام کا مرقع ہے۔

جو میںسمجھا ہوں جاوید نامہ سے!

علامہ اقبالؒ (1938 سے 1877) کا روحانی سفرنامہ بنام جاوید نامہ 1932 میںشائع ہوا ،جس کا نام انہوںنے جاوید نامہ بروزن شاہ نامہ رکھا۔ اگرچہ دونوںمیںکوئی تعلق یا مماثلت نہیںہے۔ جاوید نامہ علامہ کی شاعری کا شاہکار ہے۔ علامہ خود صوفی مزاج تھے ان کی اپنی خاص فکر و نظریہ ہے اور مشہور بزرگ جلال الدین رومیؒ سے متاثر ہیں۔ علامہ ایک جگہ افسوس کرتے ہیں کہ لوگوں نے منشوی رومی کلام رومی کا ترجمہ تو کیا مگر رومی کو صحیح طرح نہیں پہچانا۔

مختصر یہ کہ اقبال کے نظریہ اسلامی کو سمجھنے کے لئے جاوید نامہ کو سمجھنا ضروری ہے۔ اس کے کئی ترجمے اردو، انگریزی وغیرہ میںشائع ہو چکے ہیں مگر علامہ کی روح کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے جاپانی زبان میں دائتوبنکا یونیورسٹی کے پروفیسر ہیروجی کتائو کا ،نے جاپان میںشائع کیا ہے۔ اس تعارف کے بعد علامہ کے جاوید نامہ کو سمجھنا آسان ہو جائیگا۔ یہ اپنی اپنی علمی استعداد اقبال سے تعلق،جاوید نامہ سمجھنے کے شوق و ذوق پر بھی منحصر ہے عرض کیا ہے :

خدایا وست راست میںاعمالنامہ دے

دعا ہے الہیٰ قوم کو فہم جاوید نامہ دے

علوم باطن، روح کی پاکیزگی کی خاطر درس لینے، سیکھنے اور علم میںاضافہ کے لئے علامہ نوجوانوں کو نصیحت کرتے ہیںکہ ’’آج نوجوانوں کے پیالےخالی ہیں۔ وہ پیاسے ہیں۔ ان میں(یعنی قوم میں) ظاہری دکھاوے کی چمک تو بہت ہے لیکن ان کی روحیں تاریک ہیں۔ ان نوجوانوں کی اپنی شخصیت بھی نہیں‘‘۔ میرا خیال ہے یہاں علامہ قوم کو متحرک کرنا چاہتے ہیں ، تاکہ انکی روح میںبالیدگی اور روشنی آئے۔ علم صرف کتاب سے نہ حاصل کیا جائے بلکہ اہل اللہ، صوفیا اور علما امت کی صحبت اختیار کی جائے اور ان سے وہ راز حقیقت معلوم کیا جائے جو کتابوں کی حدود سے ماورا ہے۔ یہ سب کچھ آج ہم پر منطبق ہوتا ہے۔ جاوید نامہ ادبی موتیوں سے مزین ہے۔

فرماتے ہیں’’جب باد سحر چلتی ہے تو چراغ گل ہوجاتے ہیں لیکن گل لالہ کھل جاتے ہیں‘‘ نہایت خوبصورتی سے یہاںقوموں کے عروج و زوال کو سمجھایا گیا ہے۔ اس کی وضاحت کے لئے یہاں اتنا سمجھ لیا جائے کہ اگر کسی جگہ کسی اقدام سے ناکامی نظر آرہی ہو تو دل برداشتہ نہیںہونا چاہئے۔ ایک ناکامی دوسری کامیابیوں کا دروازہ کھول سکتی ہے۔ اور قوم کو ناامید ہوکر تھک کر ہارنے کی ضرورت نہیں۔

انسان کسی چیز کو برا اور نقصان دہ سمجھتا ہے، مگر ہو سکتا ہے اس شر میںخیر پوشیدہ ہو۔ مومن اس خیر کو تلاش کرتا ہے اور اسے حاصل کرنے کی تگ دو میں لگ جاتا ہے، کیونکہ ’’صبح کی باد صبح گاہی سے چراغ گل ہو جاتے ہیں مگر گل لالہ کھل جاتے ہیں‘‘ یعنی ناکامیاں کامیابی کا راستہ دکھاتی ہیں۔ قوم اپنی غلطیوں سے سبق حاصل کرکے بلندی پر جاتی ہے۔ کلام کی فصاحت سے علامہ نے اپنے بیٹے (بلکہ قوم) کو کھلی کھلی سادی اور آسان باتیں بتائی ہیں،صرف اشاروں سے کام لیا گیا ہے اور ہر ہر جملے میںایک سمندر پوشیدہ ہے۔ کیا ہی خوبصورت انداز تربیت ہے۔

ایک شفیق باپ اپنے بیٹے کو سامنے رکھ کر اپنی قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہتا ہے ’’اے جاوید بیٹے تو کم کھا، کم سو، کم بول‘‘۔ یہ تین نصحیتیں بابا بھلے شاہ نے اپنے مریدین یا متعبین کو ایک گانے کی شکل میںعطا کیں۔ انہوں نے روکھی سوکھی غذا پر گزارہ کرنے کو کہااور صبر کے ساتھ سو جانے کو بھی کہا ہے۔ ظاہر ہے اقبال بھی رومیؒ صوفی صاحب سے متاثر تھے۔ ایک اور نصحیت میںباربار ’’اپنی خودی کی حفاظت‘‘ کرنے کو کہتے ہیں۔ ’’دین کا رازسچ بولنے میںہے‘‘ اس کا آسان مطلب ہےکہ انسان جھوٹ، غیبت،غلط بیانی اور دل آزاری سے اجتناب کرے۔ سچ بولے خواہ اس میںنقصان ہو رہا ہو۔ علامہ کی اس بات کو ہر سیاست دان، حکمران اور ذمہ داران گرہ میںباندھ لیںتو معاشرہ میں ایک انقلاب آجائے گا۔ علامہ خودفرماتے ہیں کہ انہوں نے ’’سمندر کو کوزے میںبند کر دیا ہے‘‘ یعنی بہت بڑی بڑی اہم باتیںچندجملوں میں ادا کی ہیں۔ جاوید نامہ کوزہ اور کلام اقبال سمندر ہے۔

آگے بڑھتے ہوئے وہ (جاوید) یعنی قوم کو چیلنج یا للکارتے ہیں ’’جاوید بیٹا! اگر خدا تجھے صاحب نظر کرے توزمانے کو غور سے دیکھنا۔ لوگوںکی عقلیں بے باک اور دل پتھر کی طرحسخت ہوں گے اور آنکھیں شرم و حیا سے عاری‘‘۔ (یہاں وہ حدیث شریف یاد آتی ہے جس میں حیا نہیں اس میںایمان نہیں)۔ گویا اسلام میںایمان و حیا لازم و ملزوم ہیں، جبکہ عام طور پر لوگ ظالم، بے وفا، لاابالی، لاپروا ہوتےہیں، لہذا ایسی صحبت سے دور رہنا چاہئے،پھر علامہ ایک نہایت اہم رخ پر متوجہ ہوتے ہیں اور ایک سوال کرتے ہیں ’’دین کیا ہے؟‘‘ پھر خود ہی جواب دیتے ہیں کہ ’’یہ ہے اللہ کی جستجو اور اسکی طلب‘‘ یہاںیہ ذہن میںرہے کہ، جو اللہ کی جانب ایک قدم بڑھاتا ہے ،اللہ اس کی طرف دوڑ کر کرم کرتا ہے اور قربت عطا کرتا ہے۔ علامہ کا شاید یہی مطلب ہوگا۔ سبحان اللہ۔

اس مقام پر اقبال قرآن کریم کی اس تعلیم پر توجہ دلاتے ہیں جن میںحلال اورطیب غذا کے استعمال کا حکم ہے۔ نہایت خوبصورت اور دل نشین انداز میں دوٹوک طرح یہ بتاتے ہیں کہ ’’گدھ اور کوے مردار کھاتے ہیں، جبکہ شاہین (اقبال کا علامتی محبوب پرندہ) مردار نہیںکھاتا‘‘۔ ’’تو گدھ نہ بن شاہین بن‘‘ سچ ہے انسان جیسی غذا کھاتا ہے ویسا ہی اخلاقی انسان بن جاتا ہے۔ اسی جانور کی خصلیتیں بھی اس انسان میں آتی ہیں۔ میرا خیال ہے اقبالؒ صرف حلال نہیں بلکہ طیب غذا کی تاکید کرنا چاہتے ہیں۔ اقبالؒ اب ایک زبردست اصول دیتے ہیں۔ اپنے بیٹے (بلکہ اپنی قوم) سے کہتے ہیں ’’حق کو تلاش کر‘‘ یعنی اسلامی فلسفہ حیات و صحات کو تلاش کر۔

معاشی، معاشرتی مسائل کو حق کی بنیاد پر حل کر‘‘۔ بیٹا رہنما تلاش کرکے ہر جائز طریقہ سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ علامہ اس مقام پراپنے پیر رومیؒ (جلال الدینؒ) کا تعارف فرماتے ہیں۔ قوم سے کہتے ہیںکہ ان کی یا اسی طرح دوسرے روحانی بزرگوں سے فیض حاصل کیا جائے اور غلط کاروں کا شکار نہیںہونا ہے۔ ہرگز ! پیر رومیؒ میں رقصروح کا وصف تھا۔ اقبالؒ اس روحانی رقص کو استعارہ کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور تفصیل سے اس روحی رقص پر گفتگو کرتے ہیں، چونکہ یہ جسمانی رقص نہیں بلکہ ارض و سما کی گردش کا فلسفیانہ بیان ہے،یہاںغور وفکر کی ضرورت کا اشارہ ہے۔ اختتام میںعلامہ اپنی شفقت کا اظہاراس طرح کرتے ہیں کہ دل بھر آتا ہے۔ یہ ایک پدرانہ شفقت کا فطری انداز ہے۔

جاوید نامہ کا انداز بیان اتنا دلچسپ ہےکہ مصنف اسے پڑھنے والوں کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے، کبھی کبھی تو ایسا معلوم ہوتاہے کہ علامہ براہ راست ئاج قوم مسلم کے ہر فردکو للکار رہے ہیں۔ جاوید نامہ میںاہم اصول زندگی کا تذکرہ اور وضاحت ہے۔ علامہ اپنے وقت کے نوجوانوں کو راستہ دکھا رہے ہیں ،جبکہ اگر یہ کہا جائے کہ علامہ کا تجزیہ اور انکا دیا ہوا حل آج بھی پورے عالم اسلام پر منطبق ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ علامہ فرماتے ہیں’’جمال حق کا مشاہدہ بدن کی قید سے آزاد ہے‘‘۔ یعنی حق تعالیٰ کی معرفت حاصل کرنے کے لئے فکرو روح کو استعمال کرنا ہوگا۔

’’اگر حیات جاوید کا طالب ہے تو خودی اختیار کر،سب رازکھل جائیں گے‘‘۔ یہاںاقبالؒ اس حدیث کا سبق دے رہے ہیں جس میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ، جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کو پہچان لیا۔ اپنے بیٹے کو پیار سے پدرانہ شفقت سے مخاطب کرکے کہتے ہیں ’’ خدا سے تخت طلب کر۔۔ بوریا نہ مانگ‘‘ ۔ یہاں وہ رب العالمین کی وسعت دین، سخاوت اور رحمت بے پایاں کا درس دیتے ہیں۔ ’’لاالہ (الا اللہ) کی روح میںڈوب کر ذکر کرنے کی تاکید‘‘ کرتے ہیں۔

’’اس ذکر سےکامیابی کے دروازے کھل جائین گے،کیوں کہ ہر کامیابی و ناکامی اعمال کا نتیجہ ہے۔ جنت دوزخ سب اعمال پر منحصر ہیں۔ آگے علامہ فرماتے ہیں ’’عشق کی اصل ذکر (یعنی اللہ کی یاد) ہے۔ اور عقل کی اصل فکر ہے۔ علامہ اللہ کی یاد والی فکر و عقل کی پرواز پر زور دیتے ہیں مگر اللہ کی دی ہوئی عقل و فکر کو اس کے ذکرسے ربط میں قابو میںرکھنا ہوگا،ورنہ عقل گمراہ بھی کر سکتی ہے۔

ذکر اللہ سے قربت دیتاہے۔ بےلگام فکر انسان کو من مانی کرنے اور گمراہی پر اکساتی ہے، اسی لئے فکر کو ذکرکے کنٹرول میںرکھنا ہوگا۔ آگے اقبال ؒ فرماتے ہیں ’’غربت اور نفاق کی زندگی بسر کرنا مومن کی شان کے خلاف ہے۔‘‘ کہتے ہیں کہ ’’اے جاوید بیٹے تو سب کے ساتھ چل اور سب سے بے نیاز بھی رہ‘‘۔ اسکا مطلب یہ ہوا کہ ترک دنیا نہ کیا جائے مگر مادی وسائل پرنظر رکھنے کے بجائے مسبب الاسباب سے تعلق پیدا کیا جائے۔ دنیا اور دنیا والوں پر بھروسہ نہ کیا جائے۔ دنیا میں رہو دنیا کے حوالے نہ ہو جائو۔

ایک اور بات یہ ہے کہ، اگر کسی نے ’’اپنی روح کے رقص کو سمجھ لیا اور گرد ش لیل و نہار اور واقعات کے وقوع کے اسباب کو سمجھ لیا تو علامہ ایسے لوگوں کے لئے قبر سے بھی دعا خیر کریں گے،جو یقیناً بارگاہ رب العزت میںمقبول ہوں گی۔ کہ ’’دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے‘‘۔ غور کا مقام ہے کہ علامہ کو جاوید (قوم) کی اتنی فکر ہے کہ مرنے کے بعد بھی قوم کو یاد رکھنا چاہ رہے ہیں۔ آیئے ہم بھی امت کے لئے دعا ئےمغفرت کریں۔ اور اپنی ذاتی وقومی اصلاح کی فکر کریں۔ یہ اصلی خراج عقیدت ہوگا علامہ اقبال مرحوم کو۔

اس مختصر مضمون میںجاویدنامہ کی جستہ جستہ نصیحتوں کو اشاروں سے واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مجھے احساس ہے کہ اختصار کرنے سے اصل مفہوم ادا نہیں ہوا پھر بھی امید کرتا ہوں کہ قارئین کرام کسی حدتک جاوید نامہ کی روحسے واقف ہوگئے ہونگے۔ یہی میرامقصدہے۔