گولڈن جوبلی منائیں یا برسی

April 25, 2023

آج 1973 کا آئین جس شکل میں ہمارے سامنے ہے یہ اس سے بہت مختلف ہے جو آج سے پچاس سال پہلے اس ملک کی سیاسی قیادت نے تمام تر نظریاتی اختلافات کے باوجود اتفاق رائے سے منظور کیا تھا۔ اب نہیں کہا جا سکتا کہ ہمیں اس کی گولڈن جوبلی منانی چاہئے کہ برسی، کیونکہ اصل آئین کو فوت ہوئے تو برسوں بیتے گئے۔

سچ تو یہ ہے کہ ابھی اس کی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ ملک میں ایمرجنسی لگا دی گئی تھی رہی سہی کسر آمروں اور اعلیٰ عدلیہ نے پوری کردی ’’نظریہ ضرورت‘‘ کی آڑ میں۔ جن کو آئین کے آرٹیکل 6کے تحت سزا دینی چاہئے تھی ان کو آئین میں ترامیم کا اختیار دے دیا اور وہ حکمران اس دنیا سے رخصت ہوئے تو مکمل سرکاری اور فوجی اعزاز کے ساتھ تدفین ہوئی اور جو آئین کا خالق تھا وہ عدالتی قتل کے ذریعہ پھانسی لگا مزید ستم یہ کہ اہل خانہ اور عوام کو آخری دیدار بھی نصیب نہیں ہوا، کیونکہ آمر خوف زدہ تھا۔

میرے ضمیر نے قابیل کو نہیں بخشا

میں کیسے صلح کروں قتل کرنے والوں سے

بہرحال یہ آئین جس شکل میں بھی آج موجود ہے اگر اس کا صرف آرٹیکل 9 اور 10پڑھ لیں اور حکمرانوں سے لے کر عدلیہ کے پاس اس کا جواب ہو تو میں مطمئن ہو جاؤں گا کہ ہاں اس ملک میں 1973کا آئین موجود ہے۔ یعنی 9 کہتا ہے۔

9:- .Security of person. Riasat jan aur mall ki zamin hai

ـ"No person shall be deprived of life or liberty save in accordance with law".

یعنی ریاست کی ذمہ داری تھی لوگوں کے جان و مال کی حفاظت کی۔ جواب آپ کو پتا ہے کیونکہ ریاست اس میں مکمل طور پر ناکام رہی۔ اب آجائیں آرٹیکل 10پر

10:- . Safeguards as to arrest and detention

(1) No person who is arrested shall be detained in custody without being informed, as soon as he maybe, of the ground for such arrest. (2) Every person who is arrested shall be produced before a magistrate with 24-hours of such arrest.

اس ملک میں ہزاروں لوگ ماورائے عدالت مار دیئے گئے۔ سندھ سے بلوچستان تک، ہزاروں غائب ہیں آج تک آئین بے بسی کی تصویر نظر آتا ہے کیونکہ ریاست کے اندر ریاست کے تصور نے اس پر عمل درآمد نہیں ہونے دیا گیا اور عدلیہ خاموش رہی۔ اس آئین کو پچاس سال ہوگئے ہیں یہاں تک تو بات ٹھیک بھی ہے اور قابل اعتماد بھی کیونکہ جو حشر ہم نے قیام پاکستان کے فوراً بعد آئین کے ساتھ کھلواڑ شروع کیا پہلی آئین ساز اسمبلی کو توڑ کر گورنر جنرل غلام محمد کے ہاتھوں 1954میں کم از کم نام کی حد تک ہی صحیح 1973کے آئین کو توڑنے کی ہمت کوئی حکمران نہ کرسکا۔ لہٰذا سب نے فیصلہ کیا کہ اس کا حلیہ بگاڑتے چلے جاؤں اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔

پاکستان کی پہلی آئین ساز اسمبلی 1946کے الیکشن کے نتیجہ میں وجود میں آئی تھی اور بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی پاکستان اور تصور پاکستان کے حوالے سے پہلی تاریخ ساز تقریر بھی 11اگست 1947کو اسی اسمبلی میں ہوئی تھی جس کا شاید ریکارڈ بھی اب دستیاب نہیں۔ اب یہ اہم سوال سندھ ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس (ر) نظر اکبر نے اٹھایا ہے کہ ’’غلام محمد کے فیصلے کے بعد اور 1954کی اسمبلی کی معطلی کے بعد الیکٹرول کالج کیا تھا جس سے 1956اسمبلی وجود میں آئی جس نے 1956کا آئین دیا۔

سرکاری ویب سائٹ کے مطابق وزیراعظم کو آئندہ الیکشن تک کام جاری رکھنے کا نہیں کہا گیا نا سرکاری طور پر ہٹایا گیا۔ پھر مولوی تمیزالدین خان کیس کے بعد 28مئی 1955کو آئین ساز اسمبلی وجود میں آئی وہ بھی گورنر جنرل کے آڈر نمبر 1955,12کے تحت۔ میرا سوال یہ ہے کہ ایک آڈر کے ذریعہ کیوں وجود میں آئی؟ میں آج تک حیران ہوں کہ آخر 1956، 1962 اور 1973کے آئین کی ابتدا قائداعظم محمد علی جناح کی 11اگست 1947کی آئین ساز اسمبلی کی تقریر سے کیوں نہیں ہوئی جس میں انہوں نے دراصل تصور پاکستان بیان کیا۔حد تویہ ہے کہ، اس تقریر کی کوئی آڈیو بھی نہیں ہے، حالانکہ آج کے زمانے میں تو کام ہی ’’آڈیو لیک‘‘ پر ہو رہا ہے۔

1962کا آئین فیلڈ مارشل اور صدر پاکستان ایوب خان کی من پسند ’’بنیادی جمہوریت‘‘ کے تصور سے قریب تر تھا مگر 1968میں انہوں نے اپنے ہی آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اقتدار اسپیکر قومی اسمبلی کے حوالے کرنے کے بجائے ایک اور جنرل یحییٰ خان کے حوالے کردیا، یوں جو ملک آئینی اور جمہوری جدوجہد سے وجود میں آیا تھا وہاں ایک بار پھر آئین اور جمہوریت کو بوٹوں تلے روند دیا گیا ،جس کی وجہ سے سب سے زیادہ احساس محرومی سابقہ مشرقی پاکستان میں بنگالیوں میں پایا گیا۔

وہ قوم جس نے تحریک پاکستان میں اہم کردار ادا کیا انہیں کے ساتھ سب سے زیادہ زیادتی ہوئی کبھی زبان کے تنازعے پر، کبھی اپنی منتخب اسمبلی توڑنے پر اور کبھی اکثریت میں ہونے کے باوجود اکثریت کو قبول نا کرنے پر۔ ان کو اس وقت بھی دکھ ہوا جب کراچی سے وفاقی دارالحکومت تبدیل کرنے کی بات ہوئی تو دوسرا متبادل ڈھاکہ کو تسلیم نہیں کیا گیا، حالانکہ وہ اس وقت تک دوسرا دارالحکومت تھا۔ 1973کے آئین اور اس کے 50سال پر لکھنے سے پہلے یہ سمجھنابہت ضروری ہے کہ آخر ہم نے 1947سے آئینی راستہ کیوں ترک کردیا اور جناح کے جمہوری اور ویلفیئر اسٹیٹ کے تصور کو سیکورٹی اسٹیٹ میں کیوں تبدیل کردیا؟ یہ لکھنا اس لئے بھی ضروری ہے کیونکہ آج کل بہت سے دفاعی تجزیہ کار اور سابقہ افسران جمہوریت پسند ہوگئے ہیں۔

کاش ہم آئین اور جمہورت کے 75سال منا رہے ہوتے۔ جس ملک کا وجود ہی 1946کے آئین کے تحت ہوا ہو وہاں 1973کے آئین بنانے تک دو آئین اور دو مارشل لاء آچکے تھے اور اکثریت نے 24سال بعد ہی الگ ہونے کا فیصلہ کرلیا تھا، کیونکہ ہمیں نا دو تہائی اکثریت والا جگتو فرنٹ برداشت تھا نا 1970والا شیخ مجیب الرحمٰن۔ اسی لئے میں 1973 کے آئین کی پچاس سالہ برسی منا رہا ہوں کہ اس آئین سے چند سال پہلے ہی 1970کے الیکشن کوئی آئین نہ ہونے کی وجہ سے لیگل فریم ورک آرڈر کے تحت ہوئے۔ یہ آئین ساز اسمبلی کے الیکشن تھے۔دراصل 1970کی منتخب اسمبلی کو پہلے آئین بنانا تھا۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ 1970کے الیکشن فری اینڈ فیئر تھے یعنی شفاف تھے۔

حیران کن بات یہ ہے کہ دونوں بڑی جماعتوں عوامی لیگ اور پیپلز پارٹی نے بس برائے نام ہی مغربی اور مشرقی پاکستان میں امیدوار کھڑے کئے تھے۔ جس طرح عوامی لیگ کے برائے نام امیدوار مغربی پاکستان میں نظر آئے، اسی طرح پی پی پی پی کے مشرقی پاکستان میں نظر آئے۔ اس کے باوجود عام انتخابات ہوئے اور صدر پاکستان نے قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی کرکے اور پھر 26مارچ 1971کو فوجی آپریشن مشرقی پاکستان میں شروع کرکے تقسیم کی بنیاد رکھ دی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بھٹو نے اجلاس کی مخالفت کرکے تاریخی سیاسی غلطی کی مگر اجلاس تو پھر بھی ہوسکتا تھا کیونکہ پی پی پی کے علاوہ باقی تمام جماعتیں بشمول عوامی لیگ، نیشنل عوامی پارٹی، جماعت اسلامی سب اجلاس کے حق میں تھے،مگر پنڈی اور ڈھاکہ کے فاصلوں نے اس تقسیم کی بنیاد تو بہت پہلے ہی رکھ دی تھی۔

16دسمبر 1971کو جس کی خبر بھی ہمیں بی بی سی اردو سروس سے ملی،وہ ہوا جس کی پیش گوئی تو مولانا عبدالکلام آزاد نے قیام پاکستان سے پہلے ہی کردی تھی، اب باقی ماندہ پاکستان کی ابتدا کسی آئین کی غیر موجودگی میں پہلے سویلین مارشل لاء سے ہوئی اور ذوالفقار علی بھٹو ملک کے واحد سویلین مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بنے، مگر انہوں نے وعدہ کیا کہ پہلے چھ ماہ میں ملک کو عبوری اور سال بھر میں مکمل آئین مل جائے گا۔انہوں نے نا صرف یہ کارنامہ کر ڈالا بلکہ اسے متفقیہ بنا کر ایک تاریخ رقم کردی۔

یہ آج کے سیاست دانوں کے لئے ایک سبق ہے کہ بھٹو سے شدید نفرت کرنے والے، اسے غدار کہنے والے، اس کے ساتھ ایک ٹیبل پر آئے۔ یہ عمل 1977میں بھی دہرایا گیا، جب الیکشن میں دھاندلی کا الزام لگا کر اپوزیشن پاکستان قومی اتحاد نے تحریک چلائی، جس میں بے شمار لوگ مارے گئے ،مگر پھر تاخیر سے ہی سہی مذاکرات ہوئے اور کامیاب بھی ہوئے۔ لیکن سیاست دانوں کی کامیابی کب ’’ہضم‘‘ ہوتی ہے، پہلے اس کی ناکامی کی کوشش کی گئی اور پھر اس آڑ میں مارشل لاء لگا دیا گیا۔

بدقسمتی سے اعلیٰ عدالیہ جس کا کام آئین کی حفاظت تھا وہ مارشل لاء کی حصہ دار بن گئی،بیگم نصرت بھٹو کیس میں اسے جائز قرار دے دیا گیا اور یوں عاصمہ جیلانی کیس جس میں واضح طور پر سپریم کورٹ نے مارشل لاء کو غیر آئینی کہا تھا اس کی نفی کی۔ 1977میں آئین واقعی ایک ’’کاغذ کا ٹکڑا‘‘ ثابت ہوا اور یوں آئین کے چوکیدار اس کی حفاظت ناکرسکے، مگرآئین کےآرٹیکل6کے خوف سے ہی سہی جنرل کو یہ جرأت نہیں ہوئی کہ اسے ختم کردے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اس نےآئین کا حلیہ ہی بگاڑ ڈالا۔ 58-2 (B)جیسی ترامیم کرکے۔

1972کے عبوری آئین سے 1973کے مستقل آئین کی کہانی

میری ذاتی طور پر اس آئین بنانے والے بہت سے کرداروں سے، جو اب اس دنیا میں نہیں ہیں آئین کی تشکیل کے حوالے سے طویل نشستیں رہی ہیں، ان میں جناب عبدالحفیظ پیرزادہ مرحوم، میر غوث بخش بزنجو مرحوم، مولانا شاہ احمد نورانی مرحوم، پروفیسر غفور احمد مرحوم اور نواب زادہ نصراللہ خان مرحوم۔ واقعی کیا لوگ تھے نظریاتی طور پر دو مختلف سمت رکھنے والے اس نکتہ پر متفق تھے کہ اس ملک کو اگر آگے بڑھنا ہے تو آئین و قانون کی حکمرانی سے جمہوریت ہی وہ نظام ہے جو یہ راستہ دیتا ہے۔

اس نظام کی خوبصورتی یہ ہے کہ جمہوریت میں بھی اس پر تنقید ہوتی ہے اور آمریت میں بھی جمہوریت کو ہی برا سمجھا جاتا ہے، اس میں ہمیشہ بہتری کی گنجائش رہتی ہے۔ یہ بات سچ ہے کہ ہمارے سیاست دانوں خاص طور پر سویلین حکومتوں نے بہت مایوس کیا ،یہ اچھی گورننس کی مثالیں قائم ناکرسکے، لوگوں کو سیکورٹی سے زیادہ ان کو اپنی سیکورٹی اور پروٹوکول کی فکر رہتی ہے۔

یہ لوگوں کے غریب خانہ کی طرف کم توشہ خانہ کی طرف زیادہ دیکھتے ہیں۔ اب آپ خود تصور کریں کہ کیا یہ سارے حکمران، بیورو کریٹ، اور کچھ صحافیوں کو کیا واقعی ان تحفوں کی ضرورت تھی، کیا یہ مارکیٹ سے نہیں خرید سکتے تھے، گاڑیاں ہوں کہ گاڑیاں۔۔۔ کاش کوئی حکمران تو مثال بنتا۔ ہمیں تو یہ بھی نہیں پتا کہ یہاں سے کتنے اور کیا تحفہ دیئے گئے ہیں۔

خیر بات ہو رہی تھی 1972کے عبوری آئین کی ،اس اسمبلی کی جس نے دو آئین بنائے عبوری ،مستقل اور متفقہ۔ بزنجو صاحب نے ایک نشست میں راقم کو بتایا، ’’ابھی مذاکرات جاری تھے کہ اچانک نیشنل عوامی پارٹی نے اس کا بائیکاٹ کردیا۔ رات کو بھٹو صاحب کا مجھے ٹیلیفون آیا کہ میر صاحب ولی خان، مینگل اور ان کمیونسٹ رہنماؤں کو سمجھائیں، بائیکاٹ کا فائدہ دوسرے اٹھا لیں گے۔ مجھے لگا بھٹو کی بات میں وزن ہے، میں نے نیپ کے رہنماؤں سے بات کی، اس میں کمیونسٹ لوگ سخت موقف کے حامی تھے۔ بہرحال بعد میں صورتحال بہتر ہوگئی اور ہم مذاکرات میں دوبارہ شامل ہوگئے۔

پروفیسر غفور صاحب نے اس ایک سال کو پاکستان کی سیاسی اور آئینی تاریخ کا بہترین سال قرار دیا۔ ’’شاید ہم کبھی بھی عبوری، مستقل اور متفقہ آئین کی طرف نا جاتے اگر دونوں طرف سے لچک کا مظاہرہ نا دکھایا جاتا۔ سچ تو یہ ہے کہ بھٹو ہم سے زیادہ آگے تک گیا ،لچک دکھانے میں۔ وہ ایک ذہین اور بڑے وژن کا آدمی تھا۔ اگر وہ تھوڑا سا اپنے طرز حکمرانی میں برداشت اور رواداری بھی لے آتا تو اس کے قد کا کوئی لیڈر نا پہلے گزرا نا بعد میں‘‘۔ یہ تاریخی بات انہوں نے میرے ساتھ ایک انٹرویو میں کہی تھی۔ غفور صاحب خود بہت بڑے وضع دار سیاست دان تھے۔ ایسے سادہ لوح انسان میں نے کم دیکھے۔

نواب زادہ نصراللہ خان صرف سیاست دان ہی نہیں شاعر بھی تھے وہ بھی آئین بنانے والوں میں شامل تھے۔ ایک بار جب وہ جنرل ضیاء کے خلاف تحریک بحالی جمہوریت کا حصہ تھے تو جناب مشتاق مرزا کے گھر اس سے طویل گفتگو رہی ان کا یک تاریخی جملہ آج بھی مجھے یاد ہے جو انہوں نے اس وقت کہا۔ ’’اس آئین کو وہ چاہے جس شکل میں باقی رہے توڑنا اب آسان نہیں ہوگا۔ اگر ہماری عدلیہ ذرا دم پکڑتی تو 1977کا مارشل لاء کبھی نا لگتا۔ ہماری سیاسی غلطیاں اپنی جگہ ،مگر فوج کا اس میں عمل دخل نہیں ہونا چاہئے۔ آمر کا دور طویل ہوتا ہے مگر وہ آمر ہی کہلاتا ہے، جمہوری نہیں‘‘۔

ذوالفقار علی بھٹو کا ’’سونا منڈا‘‘ عبدالحفیظ پیرزادہ مرحوم نا صرف ایک بڑے وکیل تھے بلکہ بھٹو صاحب کی اس ٹیم کا حصہ تھے جنہوں نے 1973کے آئین کا ڈرافٹ تیار کیا۔ ’’جب ہم نے آئین بنانے کی تیاری شروع کی تو بھٹو کے سوا ہم سے کم لوگوں کو یقین تھا کہ ہم ایک متفقہ آئین بنا پائیں گے۔ ہمارا خیال تھا کہ ہم اکثریت میں ہیں تو ہمیں اپنے نظریہ کو سامنے رکھ کر آئین بنانا چاہئے۔ جب بھٹو صاحب کے سامنے یہ بات رکھی گئی تو انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا، ایسے آئین کی مدت تھوڑی ہوگی اور آنے والی حکومت اپنی اکثریت پر اپنا آئین لے آئے گی۔ آئین اکثریت سے نہیں اتفاق رائے سے بنائے جاتے ہیں‘‘۔

پیرزادہ صاحب نے بتایا کہ، خود پی پی پی کے اندر کئی رہنما اس بات کے قائل بھی تھے کہ، آئین کو سیکولر ہونا چاہئے اور ہمیں بہت زیادہ اپنے نظریات کو سرنڈر نہیں کرنا چاہئے۔ خان عبدالولی خان، بزنجو، سردار عطاء اللہ مینگل اور نیشنل عوامی پارٹی بھی پی پی پی کے بائیں بازو کے عناصر کے ساتھ متفق تھی،بقول پیرزادہ جب عبوری آئین کی بحث چلی تو نا صرف جناح صاحب کی 11اگست کی تقریر کی بات ہوئی بلکہ آئین کو ڈیموکریٹک ریپبلک آف پاکستان کہنے پر بھی بحث ہوئی۔ بھٹو دونوں طرف کے موقف کو سمجھتے تھے ،بقول بزنجو صاحب ’’اس شخص سے بائیں بازو والا بات کرے یا دائیں بازو والا ،وہ تاریخ پر اس کی گہری گرفت سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا‘‘۔

عبدالحفیظ پیرزادہ کے بقول نیپ اور کمیونسٹوں کے سخت گیر موقف اور بائیکاٹ کی وجہ سے بھٹو صاحب دائیں بازو کے نرغے میں آ گئے مگر پھر بھی ان کا بڑا کارنامہ یہ ہے کہ وہ اس ملک کے واحد حکمران بنے جنہوں نے دونوں دائیں اور بائیں بازو کے اتفاق سے صرف ایک سال میں پہلے عبوری اور چند ماہ بعد پاکستان کو ایک متفقہ آئین دے دیا جو آج تک اسلامی جمہوری آئین 1973کہلاتا ہے۔

آئین کی خلاف ورزیاں

بدقسمتی سے اس آئین کی پہلی خلاف ورزی بھی خود بھٹو صاحب نے کی ،جب 24گھنٹے کے اندر اندر ملک میں ایمرجنسی لگا کر بنیادی حقوق سلب کردیئے گئے، پھر اسی دور میں سات دوسری ترامیم بھی ہوئیں۔ یہ بھٹو صاحب کی غلطی تھی، کیونکہ اس میں سے ایک ترمیم جس کا تعلق عدلیہ سے تھا وہ خود ان کے خلاف مقدمہ میں حائل ہوئی جب وہ کیس کے لئے باہر سے وکیل لانا چاہتے تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ اگر وہ لے بھی آتے تو فیصلہ نہیں بدلتا کیونکہ ’’فیصلہ سیاسی تھا عدالتی نہیں، جہاں قتل کا مقدمہ براہ راست ہائی کورٹ میں چلا گیا۔

بلوچستان میں گورنر راج اور فوجی آپریشن، نیپ پر پابندی جیسے اقدامات نے بھٹو صاحب کو تنہا کردیا، جبکہ دوسری نیپ اور جمعیت علمائے اسلام دو سخت مخالف نظریات کی جماعتوں نے بلوچستان اور اس وقت کے صوبہ سرحد میں حکومتیں قائم کی تھیں۔ ان اقدامات سے آئین کو شدید دھچکہ لگا اور پی پی پی کی ایک مستحکم حکومت غیر استحکام کا شکار ہوگئی، مگر بھٹو کیونکہ خود خداداد صلاحیت کے حامل سیاست دان تھے اور ان کی جڑیں عوام میں بہت گہری تھیں تو وہ ان کا مقابلہ کرتے رہے اور ساتھ میں اسی حزب اختلاف سے بات چیت بھی کرتے رہے جس کی وجہ سے انہوں نے نا صرف چار سال بعد خود ہی ایک سال قبل انتخابات کا اعلان کردیا بلکہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام شروع کیا، زرعی اصلاحیات کیں اور ملک میں پہلی اسلامی سربراہی کانفرنس امریکہ کی مخالفت کے باوجود منعقد کی ،مگر پریس پر پابندی اور بنیادی حقوق کی معطلی نے ان کے اپنے دور میں ہی آئین کو متنازع بنا دیا۔

جنرل ضیاء الحق جن کو سات جرنیلوں پر ترجیح دے کر آرمی چیف بنایا تھا انہوں نے سب سے پہلے اپنے محسن کی پیٹھ میں چھرا گھونپا۔ پاکستان قومی اتحاد کی اچانک تشکیل، 1977کے انتخابات کا اعلان ہوتے ہی جس کا پس منظر بھی وہی سازش ہے جس کا مرکزی کردار جنرل ضیاء ہی تھے۔ ایک طرف وہ بھٹو صاحب سے کہتے، پی این اے سے مذاکرات میں حیدرآباد اسپیشل کورٹ یا ٹریبونل توڑنے پر راضی نہیں ہونا تو دوسری طرف پی این اے کو پیغام جاتا کہ بھٹو سے مطالبات میں اسے توڑنے کا مطالبہ بھی کیا جائے۔ نواب زادہ اس سازش کا حصہ نہیں تھے، اسی لئے جب ایک بار ضیاء نے دوران مذاکرات بلوچستان پر بریفنگ دینے کی بات کی تو انہوں نے بھٹو صاحب سے کہا ’’ہم وزیراعظم سے سننا چاہتے ہیں ان کا یہاں کیا کام؟ (آرمی چیف کا)‘‘

مذاکرات کامیاب ہونے لگے تو جنرل ضیاء نے امن و امان کا بہانہ بنا کر آئین پاکستان پر شب خون مارا، آئین اس وقت بھی عدلیہ کے دروازے پر دستک دے رہا تھا، مگر جنہیں آئین کا تحفظ کرنا تھا انہوں نے ہی اسے پامال ہونے دیا اور خود ہی پی سی او یعنی (عبوری آئینی آرڈر) کے تحت حلف لے لیا، اب ایسی عدلیہ کیسے جنرل ضیاء کے اقدام کو غیر آئینی قرار دے سکتی تھی۔

تصور کریں جس شخص نے اسلامی جمہوریت کو معطل کیا وہی اس میں من پسند ترامیم لے کر آیا ۔ایک ناجائز ریفرنڈم کرایا، جس کی آئین میں کوئی گنجائش نہیں تھی پھر اپنے اقتدار کو طول دیا اور بعد میں غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات کروائے۔ یہ پورا عمل غیر آئینی تھا مگر ’’نٓظریہ ضرورت‘‘ والی عدلیہ خاموش رہی۔ آئین کو ’’ردی کی ٹوکری‘‘ میں پھینک دیا گیا۔ جو گناہ کرے وہی معتبر۔ یہ عجیب طرز نصاب ہے۔

مگر پھر اس آمر کے اپنے ہی لائے ہوئے وزیراعظم محمد خان جونیجو نے پارلیمنٹ سے پہلی تقریر کرتے ہوئے کہا ’’مارشل لاء اور جمہوریت ایک دوسرے کی نفی ہیں، ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے‘‘۔ یہ جملہ صدر جنرل ضیاء تک نا پہنچے، اس کے لئے اسے سینسر کیا گیا ۔جونیجو کو اس کا علم ہوا تو اس نے سیکرٹری اطلاعات جنرل مجیب کو برطرف کردیا۔

خلاف آئین 58-2 (B)کی زد میں چار حکومتیں آئیں، محمد خان جونیجو، دو بار بینظیر بھٹو، اور ایک بار نواز شریف کی حکومت فارغ ہوئی۔ خلاف آئین، میں اس لئے کہہ رہا ہوں ،کیونکہ 1973کے اصل آئین میں اس کی گنجائش نہیں تھی ،البتہ ضیائی آئین میں درج تھا۔

1997میں جب میاں محمد نواز شریف کو دو تہائی اکثریت ملی تو انہوں نے ضیائی آئین میں سے 58-2(B)ختم کردیا جس کی سزا بہرحال انہیں 12 اکتوبر 1999کو ملی جب ایک اور فوجی آمریت ،جنرل پرویز مشرف کی شکل میں سامنے آئی۔ اس بار غیر اعلانیہ مارشل لاء لگا اور ایک سال بعد ہی ظفر علی شاہ بمقابلہ ریاست کے مقدمہ میں نا صرف اقدام کو جائز قرار دیا گیا بلکہ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار ججوں نے مشرف نے جو نہیں بھی مانگا تھا وہ بھی دیا اور وہ تھا 1973کے آئین میں ترامیم کا اختیار۔

اس بات کو دھیان میں رکھیں کہ آرٹیکل 6صرف آئین کو توڑنے یا معطل کرنے والوں پر لاگو نہیں ہوتا بلکہ اس عمل میں اعانت کرنے والوں پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ 1973کے آئین کی تشکیل کے دوران جب آرٹیکل 6کو آئین کا حصہ بنانے کی بات آئی تو اپوزیشن کے ایک رکن نے تجویز دی کہ اعانت کرنے والوں میں صرف ایک شخص کو ذمہ دار قرار دینے کے بجائے دوسروں کو بھی براہ راست ملوث قرار دیا جائے۔ اب اگر 18ویں ترمیم کے وقت اس کا بھی اضافہ کردیا جاتا کہ آئین کو معطل یا توڑنے کے عمل کو درست قرار دینے والے ججز بھی اس زمرے میں آئیں گے تو شاید ہم اس پیوند لگے آئین کو کچھ تحفظ دے پائیں۔

آئین خود کو اپنے آپ کو اتنا تحفظ دیتا ہے کہ اس میں ترمیم کے لئے دو تہائی اکثریت چاہئے ہوتی ہے مگر بات اگر اسے توڑنے یا معطل کرنے کی آ جائے تو صرف ’’بوٹوں کی چاپ‘‘ سنائی دینا کافی ہوتا ہے۔ اسی پارلیمنٹ کو جسے معطل کیا جا رہا ہوتا ہے۔ وہ کابینہ جو گھر جا رہی ہوتی ہے، اس کے اراکین کو اگر جیل میں نہیں بھی ڈالا جا رہا ہوتا تو وہ خود حاضر ہوجاتے ہیں ’’دربار‘‘ میں۔

بس اس قدر تھا کہ دربار سے بلاوا تھا

گداگرانِ سخن کے ہجوم سامنے ہیں

اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ اس آئین کی گولڈن جوبلی منائیں یا سالگرہ یا پچاس سال میں اس کی جو پیوندکاری ہوئی ہے، سب نے مل کر اسے روندا ہے اس کے افسوس کے ساتھ برسی منائی جائے۔ یہ ملک، یہ زمین 75 سالوں میں 30سے 40سال تو بے آئین ہی رہی ،پچھلے پچاس سال میں سے 20سال بھی آئین معطل ہی رہا تو یہ ’’یہ کبھی خوشی کبھی غم‘‘ والی بات ہے۔ بہرحال 1973کے آئین کو ہی بہتر بنائیں، نیا آئین وہ بھی وفاقی کی اب گنجائش ہی نہیں رہی۔

نوٹ:آخر میں سینیٹ کے پچاس سال پر جنگ اخبار کے اسپیشل ایڈیشن میں میرا ایک مضمون ’’ہال آف فیم یا ہال اوف شیم‘‘ میں ایک واقعہ عوامی نیشنل پارٹی کے سابق سینیٹر اجمل خٹک مرحوم کے حوالے سے بیان کیا تھا کہ انہوں نے کاروکاری کے خلاف ایک قرارداد کی مذمت نہیں کی جس کا تعلق ایک پختون خاندان سے تھا۔ اے این پی کے ساتھی زاہد خان نے اس پر ایک آڈیو میسج کے ذریعہ وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے ’’اس وقت اجمل خٹک پارٹی کے صدر نہیں، پارلیمانی لیڈر تھے اور انہوں نے جب یہ موقف اختیار کیا تو خان عبدالولی خان نے لندن سے فون کیا اور پارٹی نے یہ بیان جاری کیا کہ یہ ان کا ذاتی موقف ہے، پارٹی کا نہیں اور ہم نے اس واقعہ کی مذمت کی‘‘۔

آئین کے پچاس سال پر آپ کی رائے کا انتظار رہے گا جس کی اصل عمر تو محض 18گھنٹے ہے مگر اس کی اکڑ اب تک باقی ہے۔