طفلان انقلاب کے مغالطے اور مبالغے

May 29, 2023

طفلان انقلاب کا اصرار ہے کہ جو سلوک تحریک انصاف کے وابستگان سے روا رکھا جا رہا ہے، پاکستان کی تاریخ میں اس کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔ ملیکہ بخاری کا یہ جملہ ابھی تک کانوں میں گونج رہا ہے کہ اگر آپ زندگی میں کبھی جیل نہ گئے ہوں اور مئی کے مہینے میں جب سخت گرمی ہوتی ہے، اڈیالہ جیل کی ’’سی کلاس‘‘ میں رہنا پڑے تو بہت مشکل ہوتی ہے۔ بلاشبہ خون کے دھبے خون سے نہیں دھوئے جاتے۔ ماضی کے واقعات کو مثال بنا کر کسی بھی طرح کے سیاسی جبر کو جائز قرار نہیں دیا جاسکتا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ سیاسی کارکن اپنی بساط اور استعداد کے مطابق ظلم سہتے اور اپنے سیاسی نظریات کی قیمت چکاتے ہیں۔ چونکہ حاکم وقت کے جبر اور سیاسی کارکنان کے صبر کا پیمانہ یکساں نہیں ہوتا چنانچہ اگر کسی موڑ پر ان جیالوں اور متوالوں کی ہمت جواب دے جائے تو طنز و استہزا سے گریز کرنا چاہئے۔ سب سے پہلے تو میں سابق وزیراعظم عمران خان کے ان پیروکاروں کی عظمت کو سلام پیش کرتا ہوں جنہوں نے گردشِ زمانہ کے تازیا نے برداشت کئے۔ لیکن اس مبالغے اور مغالطے کو دور کرنا بہت ضروری ہے کہ ماضی میں کبھی سیاسی کارکنوں کو اس طرز کے ظلم و جبر اور ناانصافیوں کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ ’’رہروانِ تبدیلی‘ ‘کا المیہ یہ ہے اس کارواں کے بیشتر مسافر پہلی بار عازم سفر ہوئے۔ عمران خان کو مسیحا اور نجات دہندہ سمجھنے والوں نے زندگی میں پہلی بار کوچہ سیاست کا رُخ کیا۔ پہلی بار لمبی قطاروں میں کھڑے ہوکر حق رائے دہی استعمال کیا۔ پہلی مرتبہ سیاسی جلسوں اور جلوسوں میں جانا شروع کیا۔ چنانچہ انہوں نے جو کچھ دیکھا، محسوس کیا اور جس طرح کے حالات و واقعات کا سامنا کیا، انکے نزدیک یہ سب پہلی بار ہوا۔ انکے سیاسی شعور، تاریخ اور یادداشت کا نکتہ آغاز 10اپریل 2022ء ہے جب عمران خان کو تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں ایوانِ وزیراعظم سے نکال دیا گیا۔ ان نوآموز سیاسی کارکنوں پر یہ حقیقت اسکے بعد منکشف ہوئی کہ ہمارے ہاں اسٹیبلشمنٹ حکومتیں بناتی اور گراتی ہے۔ سیاسی معاملات میں اسکی مداخلت سب مسائل کی جڑ ہے۔ مثال کے طور پر پاکستان میں لاپتہ افراد کی دردناک کہانی بہت پرانی ہے۔ 1976ء میں جب ذوالفقار علی بھٹو تخت نشین تھے تو کراچی میں میر بلخ شیر مزاری کی رہائشگاہ کے باہر ایک 19سالہ نوجوان اسداللہ مینگل اپنے دوست احمد شاہ کرد کے ہمراہ لاپتہ ہوگیا۔ یہ وطن عزیز میں جبری گمشدگی کا پہلا واقعہ تھا۔ اسداللہ مینگل جو سردار عطا اللہ مینگل کے صاحبزادے اور اختر مینگل کے بھائی ہیں، انکا آج تک کوئی سراغ نہیں لگایا جا سکا۔ 12اکتوبر1999ء کو تو ملک کے وزیراعظم نوازشریف، وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف، وزیراعظم کے بیٹے حسین نواز، نامزد آرمی چیف جنرل ضیا الدین خواجہ، وزیراعظم کے ملٹری سیکریٹری بریگیڈیئر جاوید اقبال اور پی ٹی وی کے منیجنگ ڈائریکٹر پرویز رشید لاپتہ کردیئے گئے اور پھر کئی ہفتوں تک ان کی کوئی خبر نہ تھی کہ وہ کہاں ہیں،کس حال میں ہیں۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں لاپتہ افراد کا معاملہ بہت سنگین ہوگیا۔ جب عمران خان اپوزیشن میں تھے تو وہ کہا کرتے تھے، اگر میں وزیراعظم بن گیا اور میرے دور میں کوئی شخص لاپتہ ہوا تو یا پھر وہ (یعنی لاپتہ کرنیوالے) یا پھر میں نہیں۔ لیکن انکے دور اقتدار میں بھی لوگ غائب کئے جاتے رہے۔ جب کوئی شخص اُٹھایا جاتا تھا تو طفلان انقلاب کہتے،جن پر الزام لگاتے ہو انکے پاس اتنا وقت کہاں کہ تم جیسوں کو اُٹھائیں۔ جب اصرار بڑھتا تو نہایت ڈھٹائی سے جواب دیا جاتا، کچھ تو کیا ہوگا کہ اُٹھائے گئے۔ اب جب انہیں مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے تو گھبرا کے کہتے ہیں، ایسا ظلم تو کبھی نہیں ہوا۔عبدالغفار خان جو باچا خان کے نام سے جانے جاتے ہیں، انکا نام تو سنا ہوگا۔ اپریل 1919ء میں انگریز سرکار نے ’’رولٹ ایکٹ‘‘ کے تحت پہلی بار گرفتار کیا اور پھر پاکستان بننے تک سات بار حراست میں لئے گئے۔ پاکستان بننے کے بعد 15جون 1948ء میں پہلی بار قید ہوئے اور پھر 12مرتبہ قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ مجموعی طور پر زندگی کے 39سال سلاخوں کے پیچھے گزار دیئے۔ خان عبدالصمد خان اچکزئی کا نام تو سنا ہوگا۔ نہیں تو محمود خان اچکزئی کو سوشل میڈیا پر برا بھلا ضرور کہا ہوگا۔ یہ محمود اچکزئی کے والد ہیں ۔ بتاتے ہیں شعور کی دہلیز پر قدم رکھنے کے بعد اپنے والد کیساتھ صرف 6ماہ گزارنے کا موقع ملا اور وہ بھی تب جب گھر پر نظر بند تھے۔ قیام پاکستان سے پہلے 5اور بعد میں 6مرتبہ گرفتار ہوئے ۔بدنام زمانہ قانون FCR کے تحت حراست میں لئے جانیوالے پہلے قیدی تھے۔ ایوب خان نے اقتدار پر قبضہ کیا تو 8دسمبر1958ء کو خان عبدالصمد اچکزئی گرفتار کرلئے گئے اور پھر 1969ء تک زیر حراست رہے ۔66سالہ زندگی میں 22سال ایک ماہ 21دن یعنی تقریباً33فیصد زندگی اسیری میں بسر کردی۔ حسین شہید سہروردی پاکستان کے سابق وزیردفاع اور وزیراعظم ہیں۔ پہلے فوجی حکمران اور بزعم خود فیلڈ مارشل ایوب خان کے دور میں سات ماہ تک قید تنہائی میں رہے۔ صحت بگڑ گئی تو رہا کرنا پڑا۔5 دسمبر 1963ء کو بیروت کے ایک ہوٹل میں پراسرار انداز میں مردہ پائے گئے۔ ضیاالحق کے دور میں سیاسی کارکنوں پر جو مظالم ڈھائے گئے ،اگر آپ سن لیں تو نہ صرف رونگٹے کھڑے ہوجائیں بلکہ خوابوں میں ڈرنے لگیں۔ نازونعم میں پلی بھٹو کی بیٹی کو پہلے تو چھ ماہ المرتضیٰ ہائوس میں نظر بند رکھا گیا پھر سکھر جیل میں قید کردیا گیا۔مارچ 1981ء میں اسیری کا آغاز ہوا تو سرد موسم میں سویٹر، جرابیں اور بستر دستیاب نہ تھا۔ پھر جون،جولائی کی گرمی، حبسکا موسم،بیرک تنور بن جایا کرتی تھی۔ 28سالہ ’پنکی‘ مختلف امراض میں مبتلا ہوگئی۔ بتایا گیا سرطان کاشکار ہیں۔ کانوں میں پیپ پڑ گئی مگر ہمت نہیں ہاری۔ آپ انکی کتاب ’’دختر مشرق‘‘ہی پڑھ لیں تو آنکھیں کھل جائیں۔ (جاری ہے)