مفاہمت کے درجات کیا ہیں

June 02, 2023

پاکستان نے 75سالہ زندگی میں خوش دلی اور بددلی کے ساتھ کئی مرتبہ مفاہمت، قومی اور بین الاقوامی سطح پرکی ہے۔ ابتدا ہی سے روس کے دعوت نامے کو صرف نظر کرتے ہوئے وزیراعظم امریکہ گئے اور پھر امریکہ کی جھولی میں 72سال تک کبھی برضا و رغبت ، کبھی ظاہری اور وقتی مفاہمت کرنا ایک ایسی مجبوری ٹھہراکہ پھر معاہدہ تاشقند، مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور بنگلہ دیش بن جانا، بھٹو صاحب کی پھانسی، کارگل سے فوجوں کی واپسی، ایٹم بم بنانے کے عمل پر ڈاکٹر قدیر خان سے زبردستی ایک معذرت نماصفحہ پڑھوایا گیا۔ ضیا الحق کے زمانے میں اپنے ہی معافی نامے دیئے جاتے تھے، جیسے آج کل جغادری سیاسی رہنما معافی کے علاوہ، سیاست کو بھی خیرباد کہہ رہے ہیں۔یہ سارے زہرماری کے طریقے، اپنی اس انتہا پر پہنچ گئے ہیں کہ آگے سمندر ہے۔

ابھی پھر اپنے ماضی کی تلخیوں اور مفاہمت کو تسلیم کر کے اسباب پر قومی بین الاقوامی مجبوریوں کو سامنے رکھے کہ اس مفاہمت کی کڑوی گولی کو نگلنا، کیوں ہماری سیاسی ضرورت اور لاچاری کے باعث سارے واقعات میں تذلیل کے پہلوئوں کو قالین کے نیچے چھپائے ہوئے، حکومتوں کو اپنی حکومت قائم رکھنے کیلئے ڈوبتے کو تنکے کا سہارا جان کر مفاہمت کی ڈولتی کشتی میں اس لئے بیٹھ گئے کہ سامنے منجدھار میں پھنسنے کا خدشہ تھا۔

پاکستان نے تاشقند معاہدہ، انڈیا کی قید سے فوجیوں کو واپس لانے کیلئے کیا ۔ بنگلہ دیش کو نہ صرف تسلیم کیا بلکہ آج تک بنگالیوں کے ساتھ کی ہوئی زیادتیوں پر معافی بھی نہیں مانگی۔ کارگل کے حملے میں بھی اپنی سبکی چھپائی گئی۔ اسی طرح ڈاکٹر قدیروفات تک نہ وہ آزاد تھے نہ قید۔انڈیا سے مفاہمت کیلئے واجپائی کے بس کے سفر کے ذریعے، پہلا قدم اٹھایا گیا مگر ہم نے سنگ وخشت بازی سے برباد کر دیا۔ پاکستان کے ابتدائی ایام سے لے کر آج تک عدلیہ کا رویہ مفاہمانہ نہیں مخاصمانہ رہا۔ آپ مولوی تمیز الدین کیس، قرارداد مقاصد، جسٹس رشید رپورٹ، حمود الرحمان کمیشن رپورٹ جسے چھپایاگیا، جسٹس انوار الحق ہوں کہ کبھی بے نظیر اور کبھی نواز شریف حکومتوں میں آکے بیٹھے بھی نہ تھے اور نکالے بھی گئے، اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے کے مصداق۔بے نظیر کی شہادت پر دستانے پہنے ہوئے ہاتھ سامنے آئے اور اب عدلیہ کہہ رہی ہے،’’ناں کھیڈاں گےناں کھیڈن دیاں گے‘‘ ۔

ٹھہر جایئے فی الوقت حادثاتی طور پر آنے والے یا بنائی جانے والی حکومت، مفاہمت نہ کرنے کا جواز یہ دے رہی ہے کہ ایک دہشت گرد رہنما شخص سے مفاہمت کی بات نہیں ہو سکتی۔ دوسری طرف وہ شخص کہہ رہا ہے کہ میں پندرہ پارٹیوں میں سے کس سے مفاہمت کی بات کروں، عدلیہ بھی کہہ رہی ہے ’’میں نہ مانوں‘‘ بہادر شاہ ظفر نے بھی یہی کہا تھا۔ پھر انگریز نے ان کے سامنے طشت میں رکھے شہزادوں کے سر پیش کئے تھے۔ تاریخ میں ہم یہ کہتے ہوئے پائے گئے ہیں کہ بادشاہت کی کشتی ڈول رہی تھی۔ انگریز طاقتور ہو رہا تھا۔ جلیانوالہ باغ کے بارے میں یہی تاویل لاتے ہوئے یہ سب کچھ تاریخ کی کتابوں میں رہ گیا ہے۔ انڈیا کی طرح کبھی وہ علامہ اقبال کی نظم کو قومی نغمہ کہتے ہیں اور کبھی کہتے ہیں کہ علامہ اقبال کو نصاب ہی سے نکال دو۔ یہی روسی اور جرمن قوم کی افراتفری کے دوران ہوا، بہت معتبر ادیبوں کو دیس نکالا دیا گیا۔ ادیب وہ بھی پاکستان کے، شرمساری کے ساتھ کہہ رہی ہوں کہ بھٹو صاحب کی پھانسی کے پانچویں دن ضیاالحق کی بلائی ادبی کانفرنس میں سوائے معدودے چند کے سب چلے گئے تھے۔ ہمارے ادیب تو سربراہان حکومت کو اپنی کتاب پیش کرنے کیلئے اور تصویر کھنچوانے کیلئے جان پر کھیل جاتے تھے۔

فی الوقت ادیبوں پر نہیں صحافیوں پر اُدھارکھایا ہوا ہے۔ ویسے تو ہر زمانے میںکسی نہ کسی سازش کا نام دے کر برنا صاحب، عثمانی صاحب اور چھاپرا کے بعد اِس زمانے میں حامد میر، رضا رومی اور اصغر ندیم سید گولیاں کھا کے بے مزہ نہ ہوئے مگر اغوا کر کے غائب کر دینا، واضح فسطائیت ہے۔ دنیا نہ تو انڈیا نہ پاکستان کے واقعات پر غور کر رہی۔ ان بڑے ملکوں کو اپنی پڑی ہوئی۔ ہم معاشی سطح پر نزع کے عالم میں ہیں۔ کبھی ہم چین کو دوست کہتےہیں سی پیک کیلئے، روس کو دوست کہتے ہیں تیل لینےکیلئے اور امریکہ کے ساتھ دوستی کے نام، امریکیوں نے اخلاقی، معاشی اور سیاسی طور پر بالکل کھوکھلا کر دیا ہے۔ یوکرین کے سربراہ سا کوئی ہمارے ملک میں ہوتا اس جیسے کی بغض معاویہ میں ساری یورپین، امریکی اور برطانوی طاقتوں کے مسلسل پمپ کرنے کے باعث، یوکرین کی معاشی اور سیاسی حیثیت زیر بحث آتی ہے۔ اس وقت ہماری چاپلوسی کہیں کام نہیں آ رہی۔ سیاسی اور معاشی ناخوشگواری کے ماحول میں ہمیں بجٹ بھی پیش کرنا ہے اور الیکشن بھی کرانے ہیں ۔ کل عباس تابش کی بلائی ادبی کانفرنس میں ماہرین معیشت اور صحافیوں کی بحث کی تان اس بات پر ٹوٹتی رہی کہ قومی الیکشن کروائے جائیں جبکہ موجودہ حکومت شاید یہ چاہتی ہے کہ ان دوماہ میں جوہوسکے بٹور لے۔

سیاسی شعبدہ باز کچھ چہرے میڈیا پر دکھاکے ہمیں ڈرا بھی رہے ہیں اور بزبان تنبیہ کہہ بھی رہے ہیں کہ الیکشن کا کیا فائدہ، پھر وہی لوگ آجائیں گے۔ یہ نہیں سوچتے کہ جمہوریت کے چار سال عمران کی حکومت کے پورے ہونے دیتے تو یہ سارے معاشی سیاسی اور معاشرتی عذاب، اسی کے سر جاتے مگر وردی نے لولی پاپ دیا وہ ایسا وقتی ہی تھا کہ جادوگر بھی الہ دین کا چراغ لے کر غائب ہوگیا۔ اب ہم اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں۔ ہمت اتنی نہیں کہ لگژری درآمدات کو سرے سے بند کر دیتے۔ 79بندوں کی کابینہ نہ بناتے، بند ہوتی فیکٹریوں کو کھلوانے کا سامان کرتے۔ساری توجہ اپنے اور خاندان بھر کے مقدمات ختم کرانے کی تگ و دو میں ہے۔ انڈیا کے ساتھ تجارت کا زہر پی لیتے کہ اس طرح عام آدمی کے گھر کا چولہا تو جلتا رہتا۔ مفت آٹے نے نیک نامی کی جگہ بدنامی ہی دی، پہلے بھی مفت لیپ ٹاپ نے کوئی ہنر عام نہیں کیا، لڑکے لڑکیوں کو رات بھر بے ہودہ گوئی جاری رکھنے میں مدد دی۔ میں نے جب سینئر صحافیوں سے پوچھا کہ خواتین کے ساتھ جیل میں زیادتیوں کو آپ کیسے برداشت کر رہے ہیں، فوراً جواب آیا بنگال میں آپ تو دیکھ کر آئی تھیں۔