تھیلی سیمیا کی مریض بچی کی نظم

June 02, 2023

دکھ ایک عالمگیر جذبے کا نام ہے۔لیکن یہ طے ہے کہ بڑے بڑے دکھ بڑے بڑے لوگوں کے حصے میں آتے ہیں۔ چھوٹے موٹے لوگ بڑے بڑے دکھ برداشت نہیں کر سکتے۔بچے کوکھلونا ٹوٹنے کا دکھ ہو یا عمران خان کو شیریں مزاری کے پی ٹی آئی چھوڑنے کا دکھ۔کسی لڑکے کو اپنی پتنگ کٹنے کا دکھ ہویا نواز شریف کو جلاوطنی کا دکھ۔یہ سارے دکھ بظاہر ایک جیسے نظر آتے ہیں مگرایک خاص لمحے میں ان کی شدت خاص سطح کی ہوتی ہے مگردکھ کی گہرائی کتنی ہے اس بات کا اندازہ ہم صرف دکھ کی طوالت سے لگاتے ہیں۔ماں کو جوان بیٹے کی موت کا غم ساری زندگی رہتا ہے۔اسی طرح اس وقت میں جس دکھ کا نوحہ خواں ہوں۔میرا اپنا دکھ نہیں۔مجھے یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ خاص طور پر اس دکھ نے مجھے اتنی شدت سے کیوں متاثر کیا ہے۔سچ یہی ہے کہ آدمی دوسروں کے دکھوں سے زیادہ متاثر نہیں ہوا کرتا۔اکثر کسی موت کے دکھ پر روتی ہوئی عورتیں دیکھ کر کہا جاتا ہے

دوسروں کے ماتم پر

اپنا اپنا رونا ہے

یہ دکھ ایک بچے کا دکھ ہے۔میں سندس فائونڈیشن کی ایک ویڈیو دیکھ رہا تھا۔یہ چھوٹی سی ویڈیو تھی۔اس میں بس یہی چند جملے تھے۔ ”دوبچیاں۔دو معصوم زندگیاں۔روشنی کی دو کرنیں۔دو کلیاں جو کھلنے سے پہلے مرجھانے والی تھیں۔دو گرتے ہوئے آنسوجو موتی بن گئے۔ دو بچیاں جنہیں آپ نے سندس فائونڈیشن کی وساطت سے خون کا عطیہ دے کر زندگی بخشی۔آئیے کچھ لمحے ان کے ساتھ گزارتے ہیں۔ میرا نام حورہ ہے اور یہ میری بہن ماہیرا ہے۔ہم دونوں تھیلی سیمیاکی مریض ہیں۔میں نویں جماعت میں پڑھتی ہوں اور یہ آٹھویں جماعت میں پڑھتی ہے۔ہماری لائف عام بچوں جیسی نہیں ہے۔ہمیں ہر پندرہ دن بعد خون لگتا ہے۔ہمارے ریڈ سیل خود نہیں بنتے، ہمیں لگوانے پڑتے ہیں۔ہمیں مسلسل اپنے ٹیسٹ کرانے پڑتے ہیں۔ ہماری ایک اسپیشل خوراک ہوتی ہے۔جب میرا اور میری بہن کا ہمارے بابا کو پتہ چلا کہ ہم دونوں تھیلی سیمیا کے مریض ہیں تو ہمارے بابا ہمیں چھوڑ کر چلے گئے۔تب سے ہماری ماما ہمیں پال رہی ہیں۔‘‘

مجھے یہ ویڈیو دیکھ کربہت شدت سے دکھ کا احساس ہوا۔ شاید اس کی وجہ کچھ اورہو جو میرے لاشعور میں کہیں موجود ہومگر شایدبظاہرمیرے دکھ کا سبب اس بچی کا آخری جملہ تھا جس نے مجھے اندر سے کاٹ کے رکھ دیا۔جس نے مجھے یہ ویڈیو بھیجی تھی تو میں نے اسے میسج کیا کہ کیا اس بچی کی کوئی اور ویڈیو بھی ہے آپ کے پاس۔تو اس نے جواب میں مجھے اس بچی کی لکھی ہوئی ایک نظم بھیج دی۔نثری نظم۔وہ بھی سن لیجئے۔ نظم کا عنوان ہے۔”میری زندگی دوسروں کی رگوں میں دوڑتی ہے“

ایک بار پھر، ایک اداس رات اترتی ہے

اوہ ماں

ایک ایک کر کے روشنیاں آتی ہیں

میرا چہرہ، پیلا

میرے ہاتھ، برف

ایک بار پھر، میرے لئے خون لینے کا وقت آگیا ہے

نرسیں میرے کمرے میں آتی ہیں

یہاں ایک بار پھر، میرا درد شروع ہوتا ہے

میرے اندر کی سسکیاں چیخوں میں بدل جاتی ہیں

کچھ کے لئے، ایک ماہ

دوسروں کے لئے، پندرہ دن

یہ میٹھا خون کبھی میرے پاس نہیں رہتا

اے ماں، میں تھیلی سیمیا کی مریض ہوں

میرا علاج دوسرے لوگوں میں چھپا ہوا ہے

سیپ میں موتی کی طرح

میرے لئے ہرجسم سیپ ہے

اور اس جسم سےملنے والا خون کا ہر قطرہ موتی

یہ دن گزر جائیں گے

یہ ہفتہ بھی گزر جائے گا،اگلے ہفتے ضرور پھر کسی سیپ سے مجھے خون کے موتی ملیں گے

پریشان نہ ہو ماں

میں ٹھیک ہو جاؤں گی

میں اکثر امید کو طلوع ہوتے ہوئے دیکھتی ہوں اسپتال کی کھڑکی سے

ابھی میرے چارسو پھول کھلے ہیں

تتلیاں پھڑپھڑا رہی ہیں

اور بچے اپنے مستقبل کی طرف بھاگ رہے ہیں

ماں انہیں دیکھ کرمت رو، تیری بیٹی بھی پارک میں بھاگے گی

میں جانتی ہوں ماں وہ دن ضرور آئے گا

ماں میں ٹھیک ہو جاؤں گی

میں ان دردوں سے آزاد ہو جاؤں گی

یہ درد ناک سوئیوں سے نکلتی مایوسی ختم ہوجائے گی

میرے ہاتھ کانپ رہے ہیں ماں

میرا جسم بری طرح تھک چکاہے

میری جلد مرجھا رہی ہے

ماں مجھے خون کی ضرورت ہے

ماں مجھے جلدی جلدی سندس فائونڈیشن لے جا

ان بچیوں کا دکھ اپنی جگہ، ان کی ماں کا دکھ اپنی جگہ۔ یقیناً ان کے باپ کا دکھ بھی اپنی جگہ ہو گا۔ غریب باپ کیلئے تھیلیسیمیا کے مریض بچوں کا علاج آسان تو نہیں۔یہ تو اللّٰہ تعالیٰ منو بھائی کوجنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائےاور یٰسین خان پر اپنی خصوصی رحمتیں برسائے کہ جنہوں نے تھیلیسمیا کے غریب بچوں کے مفت علاج کا سلسلہ شروع کررکھا ہے۔مگر میرا دکھ کسی سے کم نہیں۔میرا دکھ تباہ حال پاکستان کا دکھ ہے۔ مہنگائی کے عذاب میں مبتلا عوام کا دکھ ہے۔ سیاسی ابتری کا دکھ ہے۔سلاخوں میں چمکتے ہوئے چاند کا دکھ ہے۔ جلتے ہوئے پاکستان کا دکھ ہے۔امیری اور غریبی میں بڑھتی ہوئی خلیج کا دکھ ہے۔ دیوالیہ ہوتے ہوئے سرسبز و شاداب ملک کا دکھ ہے۔ الیکشن کا انتظار کرتےعوام کا دکھ ہے۔ آئین کی عملداری کا دکھ ہے۔لاقانونیت کا دکھ ہے۔ اسمبلیوں میں ہوتے پتلی تماشے کا دکھ ہے۔اُترے ہوئے چہروں والی عدالتوں کا دکھ ہے۔ سچ بولنے پر منہ میں پڑے ہوئے چھالوں کا دکھ ہے۔مجھے یہ سارے دکھ اس وقت اسی تھیلی سیمیا کی مریض بچی کے دکھ لگ رہے ہیں۔