جبری شادیاں اور جبری لیڈر شپ

June 03, 2023

9 مئی کے سانحے کے بعد ریاستی اداروں کے ردّ ِ عمل میں پی ٹی آئی کی لیڈر شپ جس بزدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے عمران خان کا ساتھ چھوڑ کر بھاگ رہی ہے۔ اس کی مثال ہماری سیاسی تاریخ میں کہیں نہیں ملتی ۔بالکل اسی طرح جس طرح عمران خان کی بحیثیت وزیرِ اعظم اور بحیثیت اپوزیشن لیڈر ناکام ترین کارکردگی کی نظیرملنا مشکل ہے۔ 2011میں اسٹیبلشمنٹ کے کندھوں پر سوار ہو کر عوام پر مسلّط ہونے والے سابق کرکٹر نے گزشتہ 12سال میں نفرت ، انتشار ، محاذ آرائی اور تشدّد کے سوا اس بد قسمت قوم کو کچھ نہیں دیا۔ ہم سادہ الفاظ میں کہہ سکتے ہیں کہ اس دور میں نہ انہیں خود حکومت کرنی آئی اور نہ انہوں نے کسی کو حکومت کرنے دی۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج پاکستان میں ہر ادارہ تقسیم ہو چکا ہے اور معیشت وینٹی لیٹر پر پہنچ چکی ہے۔ جس کے ذمہ دار عمران خان اور انہیں لانے والے ہیں۔ عمران جنہیں چور اور ڈاکو کہتے ان کی حکومتیں تو کئی بار آئی اور گئیں ۔ کیا کبھی پاکستان ڈیفالٹ کے خطرے سے دوچار ہوا؟ اب نئی بات کیا ہوئی کہ پاکستان نہ صرف ڈیفالٹ کے خطرے سے دوچار ہے بلکہ چین اور سعودی عرب جیسے دوست ممالک بھی ہم سے دور ہوگئے اور پاکستان کے اندر ایک دوسرے کے خلاف اختلاف ِ رائے کو بھی ذاتی دشمنیوں میں تبدیل کردیا گیا۔ یہ سب کچھ عمران خان جیسے سیاسی شعور سے عاری متکبّر اور منتقم مزاج شخص کو زبردستی عوام پر مسلّط کرنے کا نتیجہ ہے۔ پی ٹی آئی سے کنارہ کشی کرنے والے پی ٹی آئی کے ٹائیگرز کے بارے میں عمران خان نے اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا ہے کہ یہ سب ’’ جبری طلاق‘‘ کی طرح ہے۔ لوگوں پر دبائو ڈال کر انہیں پارٹی چھوڑنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ اگر عمران خان کی بات درست مان لی جائے تو کیا یہ بھی حقیقت نہیں کہ جب انہیں دبائو اور لالچ کے ذریعے پی ٹی آئی میں بھیجا گیا تو وہ ’’ جبری شادیاں‘‘ تھیں ۔ عمران خان کی لیڈر شپ بھی ایک ’’ جبری لیڈر شپ‘‘ تھی کیونکہ 1996سے لے کر 2011کے پندرہ برسوں میں اپنی تمام تر قلابازیوں کے باوجود عوام نے ا نہیں مکمل طور پر رد کر دیا تھا اور ان کی پارٹی کی حیثیت ’’ تانگہ پارٹی ‘‘سے زیادہ نہ تھی۔ یہ اسٹیبلشمنٹ کی ’’ گیدڑ سنگھی ‘‘ ہی تھی جس نے بارہ کھلاڑیوں کی ٹیم کے مطلق العنان کپتان کو 23کروڑ عوام کا مطلق العنان حکمران بنا دیا۔ چونکہ عمران خان نہ تو سیاسی بصیرت رکھتے تھے نہ ہی ان کی کوئی سیاسی تربیت ہوئی تھی چنانچہ پی ٹی آئی بھی ایک سیاسی پار ٹی کی بجائے ادھر اُدھر سے آنے والے مفاد پرستوں کا ٹولہ بن کر رہ گئی ۔ جو مشکل کی گھڑی میں یوں تتر بتر ہو رہی ہے جیسے خزاں میں سوکھے پتّے۔ ریاستی جبر اور دبائو پہلے بھی سیاسی پارٹیوں کے کارکنوں نے برداشت کیا اور جبر بھی وہ جس کے ذکر سے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں لوگوں کو سرِ عام کوڑے مار ے گئے، پھانسیاں دی گئیں ، برسوں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں، عوام کے مقبول ترین اور حقیقی سیاسی لیڈر کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔ کسی کو جلا وطن اور کسی کو سرِ عام شہید کیا گیا۔ تاہم ان کے کسی لیڈر یا کارکن نے اس سرعت سےپارٹی سے لا تعلّقی کا اعلان نہیں کیا جس برق رفتاری سے پی ٹی آئی کی لیڈر شپ نے کیا ہے ۔ یعنی ایک ہفتے کے اندر اندر آدھی لیڈر شپ پارٹی چھوڑ گئی۔

میری بھی پیپلز پارٹی کے دیگر سیاسی کارکنوں کی طرح ضیاء آمریت میں ریاست کے جبر کی وجہ سے بازو اور ٹانگیں توڑ دی گئیں لیکن ہم میں سے کسی نے بھی معافیاں مانگ کر ’’ خلاصی‘‘ حاصل نہیں کی۔ آزمائش کی اس گھڑی نے ثابت کر دیا ہےکہ نہ تو عمران خان ایک سیاسی بصیرت رکھنے والے سیاستدان ہیں اور نہ ہی ان کی پارٹی کوئی سیاسی پارٹی ہے بلکہ شخصیت پرستی اور پیری مریدی پر مشتمل وہ (Cult)فرقہ بن کر سامنے آئی ہے جسے نہ تو عمران خان کے دن رات بدلتے موقف ، جھوٹ اور دشنام طرازی پر کوئی شرمندگی ہوتی ہے نہ بدترین کار کردگی پر کوئی اعتراض ہوتا ہے۔ عدالتوں میں ثابت کئے بغیر دوسروں کو چور اور ڈاکو کہنے والے اس شخص کو جب اس کی چور ی پر ثبوتوں کے ساتھ پکڑا جا تا ہے تو وہ ریاستی رٹ کو ہی چیلنج کر دیتا ہے اور دشمن ملک کی طرح اپنے دفاعی اداروں پر حملہ کر دیتا ہے۔ انہی اداروں پر جنہوں نے اسے فرش سے اٹھا کر عرش پر پہنچادیا تھا اور جنکی تعریفیں کرتا وہ تھکتا نہیں تھا۔

کرپشن کے خلاف برسرِ اقتدار آنیوالے کے دور میں جب کرپشن 24درجے بڑھ جاتی ہے اور سیاسی مخالفین کو زندہ دیواروں میں چنوایا جانے لگتا ہے تو وہ ڈی جی آئی ایس آئی جنرل ندیم انجم سے کہتا ہے پاکستان کا اصل مسئلہ معیشت نہیں بلکہ اپوزیشن ہے، ایسے فاشسٹ شخص کو جو خود کو قانون سے بالاتر سمجھتا ہے جب عدم اعتماد کے آئینی طریقے سے اقتدار سے ہٹایا جاتا ہے تو وہ آئین شکنی کرتے ہوئے تمام اسمبلیوں کو ہی برخاست کر دیتا ہے اور نوجوان نسل کو گمراہ کرتے ہوئے ملک میں خانہ جنگی کی کیفیت پیدا کر دیتا ہے۔ ان حالات میں بھی اگر ریاست خاموش رہتی ہے تو پھر اس ملک کا اللہ ہی حافظ ہے۔ عمران خان کی آج تک کی سیاست محض جھوٹ خود غرضی اور احسان فراموشی پر مبنی ہے۔ وہ مشاورت پسند نہیں کرتے اور اپنی غیر دانشمند انہ پالیسیوں پر اصرار کرتےہیں۔ انہیں اپنی ذات کے علاوہ کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ احسان فراموشی ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے اس لئے اب کوئی بھی ان پراعتبار کرنے کیلئے تیار نہیں کیونکہ موجودہ آرمی چیف ذاتی طور پر ان کی اور ان کے خاندان کی کرپشن سے آگاہ ہیں۔ سیاسی پارٹیاں ختم نہیں ہوتیں لیکن جھوٹ اور منافقت پر مبنی گروہ بھی زیادہ دیر تک زندہ نہیں رہتے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)