میثاق جمہوریت و انسانی حقوق

June 04, 2023

دی میڈی ایٹرز نے سیاسی جماعتوں میں بات چیت کی راہ ہموار تو کی اور مذاکرات شروع بھی ہوئے، لیکن 9 مئی کے متشدد اور نراجیت پسند واقعات نے ملکی صورت حال کو انتہائی مکدر کردیا ہے۔ ایک ہائبرڈ رجیم کی جگہ دوسرے ہائبرڈ رجیم کی تیاریاں زوروں پر ہیں اور شہری حقوق مخدوش تر اور سویلین دائرہ محدود تر ہوتا جارہا ہے۔ معاشی اور ریاستی بحران لاینحل ہوگیا ہے۔عوام کی بیزاری اور غضبناک نوجوانوں کے جم غفیر کا لاوا کھول رہا ہے اور کوئی پُرسان حال نہیں۔ان حالات میں میڈی ایٹرز اور 100سے زائد سول سوسائٹی کی تنظیموں، قوم پرست اور ترقی پسند جماعتوں اور دانشوروں نے شہری برائے جمہوریت و انسانی حقوق کے نام سے وسیع تر عوامی جمہوری محاذ تشکیل دیا ہے جس نے درج ذیل میثاق جمہوریت و انسانی حقوق جاری کیا ہے:

1۔ آزاد اور منصفانہ حق رائے دہی کے ذریعے وفاقی اکائیوں کے عوام کی خودمختاری کو برقرار رکھنا، مساوی اختیارات کے ساتھ دو ایوانوں والی مقننہ کی بالادستی، صوبوں کے مساوی حقوق کو یقینی بنانے والی کوآپریٹو فیڈریشن، ریاست کے تینوں ستونوں کے درمیان اختیارات کی علیحدگی کو مزید واضح کرتے ہوئے ان حدود کا آئینی ترمیم کے ذریعے از سر نو تعین، مستقل جمہوریت اور عالمی سطح پر تسلیم شدہ بنیادی انسانی، شہری، سیاسی، سماجی اور اقتصادی حقوق اور محنت کشوں کی فلاح و بہبود یقینی بنائی جائے۔2۔ روشن خیال ترقی پسند سماجی و اقتصادی اور غیر فرقہ وارانہ جمہوری ایجنڈے کو فروغ دینا جو لوگوں کے معاشی، انسانی، سیاسی، سماجی اور ماحولیاتی حقوق کا تحفظ یقینی بنائے۔ مذہبی/نسلی اقلیتوں اور خواتین کے بنیادی حقوق کا تحفظ کیا جائے۔ 3۔ تمام متعصبانہ، فرقہ وارانہ، پدرشاہانہ، فاشسٹ، دہشت گرد، مذہبی/نسلی انتہا پسندی، عسکریت پسندی اور آمرانہ رجحانات کو مسترد کیا جائے جو لوگوں کی ہم آہنگی اور ان کے جائز مفادات کو مجروح کرتے ہیں۔

4۔ ترقی پسند اور عوام کی قوت متحرکہ کی اساس پر مبنی سماجی، اقتصادی اور ماحول دوست پائیدار ترقی کے متبادل راستے کو اختیار کیا جائے، جو وفاق کی تمام اکائیوں میں یکساں طور پر پھیلی ہوئی ہو اورمظلوم لوگوں کو فائدہ پہنچائے۔ 5۔ موجودہ 'قومی سلامتی کی ریاست کی تشکیل نو اور سول ملٹری آمرانہ اسٹیبلشمنٹ کی بالادستی کی نوآبادیاتی میراث کو پلٹ کر ایک پرامن، فلاحی ریاست کی طرف بڑھا جائے۔ افواج پاکستان کے عسکری کردار کیلئے ضروری ہے کہ افواج سویلین کاموں، زمینوں، کاروباروں اور کارپوریشنز سے دور رہیں۔ نیز خفیہ ایجنسیوں کا دائرہ کار طے کیا جائے اور انہیں پارلیمانی نگرانی میں لایا جائے۔

6۔ یکساں طور پر شراکت دار وفاق میں تاریخی کثیر ثقافتی جڑوں اور قومیتوں پر مبنی ریاستی اداروں اور معاشرے کی جمہوری تعمیر نو، جو جنس، نسل اور مذہبی بنیادوں پر کسی امتیاز کے بغیر تمام لوگوں کے بنیادی، انسانی، شہری، معاشی اور سماجی حقوق اور آزادیوں کو برقرار رکھے- 18ویں ترمیم کی روح کے مطابق، وفاقی سطح پر جاری تمام وزارتوں اور ڈویژنوں کو بند کرکے اور تمام ملک گیر کارپوریشنوں کو مؤثر طریقے سے مشترکہ مفادات کونسل کے اختیار میں رکھ کر اور محصولات کی تنظیم نو اور سول اور نیم فوجی دستوں کو وفاقیت کی روح کے مطابق صوبوں کے تحت کیا جائے۔ایک جامع آئینی ترمیم کے ذریعے صوبوں سے ضلع اور نچلی سطح تک وسائل اور مالیات سمیت اختیارات کو منتقل کیا جائے۔

7۔ عالمگیر خواندگی، سب کیلئے معیاری مفت تعلیم اور صحت کا انتظام، غربت، اجرتی غلامی اور کم اجرت والی مزدوری کا خاتمہ اور سب کیلئےبارآور روزگار کی ضمانت، ماحولیاتی اور انسانی طور پر پائیدار اور جامع اقتصادی ترقی اور جدیدیت و سائنسی و انفارمیشن انقلاب کا فروغ کرتے ہوئے،انسانی محرومی اور استحصال سے نجات حاصل کی جائے۔ امیر وغریب میں بڑھتے ہوئے فاصلے کو کم کرنے کیلئے زمینی و زرعی اصلاحات متعارف کی جائیں، شہری مافیاز کو جوابدہ بنایا جائے، زراعت سمیت تمام آمدنیوں پر ٹیکس لگائے جائیں، کاروباروں کو دی جانے والی تمام چھوٹ اور سبسڈیز واپس لیں، تاجروں پر ٹیکس لگا ئیں، انتہائی غربت میں زندگی گزارنے والوں کیلئے سبسڈی کا ہدف اور غربت کے خاتمے پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے، سماجی شعبوں اور انسانی وسائل کی ترقی کو ترجیح دی جائے۔ کم از کم گزارہ اجرت اور پنشن پچاس ہزار روپے مقرر کی جائے۔

8۔ تمام مظلوم قومیتوں اور دیگر نسلی گروہوں کی شکایات، محرومیوں، بیگانگی کو مؤثر اور جامع طریقے سے حل کیا جائے اور فوجی آپریشنز اور انسان کُشی اور 'لاپتہ افراد،کی حالت زار کو ختم کر کے انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے۔ جنوبی پنجاب کا صوبہ بنایا جائے۔

9۔ انصاف کو فوری اور سستا بنانے کیلئے عدالتی اصلاحات، بشمول پارلیمانی سماعتوں کے دوران میرٹ پر ججوں کی دو طرفہ اتفاق سے تقرری، آرٹیکل 184 (3) Moto Sue کے دائرہ اختیار کو فل کورٹ کے تابع کیا جائے، عدالتی فعالیت پر مناسب تحدید تاکہ ایگزیکٹو اور پارلیمنٹ کے دائرہ اختیار میں بے جا مداخلت نہ کی جائے ۔ 19ویں ترمیم کا خاتمہ۔ ایک وفاقی آئینی عدالت کا قیام، جس میں تمام وفاقی اکائیوں کی یکساں نمائندگی ہو اور وفاقی شرعی عدالت کی تحلیل۔

10۔ کثیر ثقافتی اور کثیر المذہبی ریاست میں اظہار رائے کی آزادی، ثقافتی اور مذہبی تنوع کو یقینی بنانا، تمام میڈیا پلیٹ فارمز پر ریاستی سنسرشپ کا خاتمہ، آئین و قانون کی عملداری اور تمام کالے اور امتیازی قوانین کو واپس لینا جو انسانی حقوق کے عالمی قوانین سے مطابقت نہیں رکھتے۔ آرمی ایکٹ کی شق 2 (1) (d) کا خاتمہ تاکہ کسی سویلین کے خلاف فوجی عدالت میں مقدمات کو روکا جاسکے۔11۔ تمام پدرشاہانہ، جاگیردارانہ اور دقیانوسی رسم و رواج، جنس کی بنیاد پر تفریق اور خواتین کے خلاف تعصبات اور امتیازات کا خاتمہ اور زندگی کے تمام شعبوں میں ان کی مساوی شرکت کو یقینی بنانا۔

12۔ پاکستان، ماحولیاتی و قدرتی تباہی، آبادی اور شہروں کے پھیلاؤسے قدرتی آفات کا شکار ہو چلا ہے۔ جس سے بچائواور پائیدار و ماحولیات دوست ترقی اور آبادی کی منصوبہ بندی کیلئے ہمہ طرفہ اقدامات درکار ہیں۔

13۔ آزاد خارجہ پالیسی اختیار کرتے ہوئے، تمام پراکسی جنگوں، نسل پرستی، دہشت گردی کا خاتمہ کریں اور تسلط پسندی اور عالمی غیر مساوی تبادلے، نئی سرد جنگ اور سامراجیت کو مسترد کرتے ہوئے جنوبی اور مغربی ایشیائی خطوں اور وسیع تر یوریشیا، خاص طور پرہمسائیوں کے سا تھ، امن، یکجہتی اور تعاون کو آگے بڑھائیں۔‘‘