اجتماعی شادیوں کا تصور اور ہمارا معاشرہ

June 04, 2023

ناصرف پاکستان بلکہ یورپ میں بھی بیٹیوں کی شادی کے بے شمار مسائل اور مشکلات ہیں۔ اجتماعی شادیوں کا تصور پاکستان میں ستر کی دہائی میں کراچی کی میمن فیملی کے ہارون میمن نے شروع کیا تھا جو آہستہ آہستہ ترقی کرتے ہوئے پنجاب میں داخل ہوا ۔ہارون میمن کی وفات کے بعد انکے بیٹےبلال میمن اس کو جاری رکھے ہوئے ہیں ،اسی کی دہائی کے قریب اجتماعی شادیوں کا تصور پنجاب اور پاکستان کے دیگر صوبوں میں پھیلنا شروع ہوا ۔شادی کرنا سنت رسول ﷺہے ۔تاہم مہنگائی اور عوام کے ذرائع آمدن میں کمی کی وجہ سے اب بچوں کی شادی کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ پاکستان میں بہت سے فلاحی ادارے سالانہ بنیادوں پراجتماعی شادیوں کا اہتمام کرتے ہیں، اس سلسلہ میں وہ مخیر حضرات سےپورا سال فنڈ ریزنگ کرتے ہیں۔ پاکستان میں بے شمار خاندان بیٹیوں کی شادی کی وجہ سے پریشان رہتے ہیں ،ایسے حالات میں فلاحی ادارے ان خاندانوں کیلئے کسی مسیحا سے کم نہیں ہیں ۔حکومتی سطح پر ادارے بھی بہت سی فلاحی سر گرمیوں میں مصروف نظر آتے ہیں اور غیر سرکاری ادارے بھی فلاحی کاموں میں شفافیت کے ساتھ نیکی کے کاموں کو جاری رکھے ہوئے ہیں مجھے ایسے ہی ایک ادارے کی اجتماعی شادیوں میں جانے کا اتفاق ہوا جو میوات بھارت کےعلاقے گڑگائوں کی ایک برادری نےکروائی تھیں۔ برصغیر کی تقسیم کے وقت ان لوگوں میں سےکچھ پاکستان آ گئے اور کچھ وہیں رہ گئے۔ میوات کی ایک مضبوط تاریخ ہے پاکستان میں اجمل شہید کے بعد ’’صدائے میو پاکستان ‘‘کے نام سے یہ تنظیم نو سال سے اجتماعی شادیوں کا اہتمام کر رہی ہے، ان کی ٹیمیں سارا سال نہ صرف پنجاب بلکہ سندھ بلوچستان سےبھی فنڈریزنگ کر کے غریب یتیم بچیوں کی شادیوں کے اہتمام میں مصروف رہتی ہیں اور یہ میواتی نہ صرف اپنی برادری بلکہ پاکستان کی دیگر برادریوں کی یتیم اور غریب بچیوں کی شادیوں کا اہتمام کرتے ہیں اور جو نام ان کے سامنے آتے ہیں ان کے خاندان کی تحقیق کے بعد لسٹ کو فائنل کرتے ہیں، فنڈز اکٹھا کرنے اور اس کو خرچ کرنے میں شفافیت کا عمل بھی موجود ہے ۔ اجتماعی شادیوں میں پاکستان ’’صدائے میو فورم ‘‘کے سرپرست اعلیٰ حاجی نور محمد میو صدر چوہدری نعیم حنیف ایڈووکیٹ،سینئر نائب صدر حاجی عمر فاروق ،حاجی اسلم عمان والے ،جمیل احمد میو ہائی ٹیک والے چوہدری اقبال سحر خاں موجود تھے ۔حاجی نعیم اور سیاسی لوگوں میں محترمہ ناصرہ میو کا مرکزی کردار ہوتا ہےپاکستان صدائے میو فورم کے تحت ہونے والی اجتماعی شادیوں میں بلاتفریق مختلف برادریوں کی 337 غریب اور یتیم بچیوں کی شادیاں کی گئیں۔ پاکستان صدائے میؤ فورم کی طرف سے مارچ 2015ء میں قصور سے اجتماعی شادیوں کا آغاز کیا گیا۔ 9 سال میں لاہور قصور میں 9 جبکہ وڈالہ سندھواں ضلع سیالکوٹ میں 8اجتماعی شادیاں کی گئیں جن پر کم و بیش 3کروڑ 37لاکھ روپے خرچ کئے گئے۔ اجتماعی شادیوں کیلئے کسی مخصوص فرد یا حکومت سے کسی قسم کی امداد نہیں لی جاتی بلکہ تمام اخراجات صدائے میؤ فورم کی ٹیم مخیر حضرات کے تعاون سے کرتی ہے۔اجتماعی شادیوں میں اب تک 15برادریوں کی بچیوں کے گھر بسائے گئے ہیں لیکن دولہا دلہن کا تعلق کہاں سے اور وہ کس کے بچے ہیں اس بات کا علم پاکستان صدائے میو فورم کی ٹیم کے علاؤہ کسی کو نہیں ہوتا اورکسی سطح پر تشہیر بھی نہیں کی جاتی ۔شادی کی تقریبات میں لیڈیز اور جینٹس کا الگ الگ انتظام کیا جاتاہے ۔

جہیز میں واشنگ مشین ڈبل بیڈمع گدا ،سلائی مشین، پنکھے، پیٹی ڈنرسیٹ سمیت کھانے پکانے کے تمام برتن، دولہا دلہن کے سوٹ ،سرد گرم بستر اور ضرورت کی دیگر چیزیں شامل ہوتی ہیں یعنی بنیادی اشیائے ضروریات کا ساراسامان اس میں شامل ہوتا ہے ۔اجتماعی شادیوں کے سبب بہت سے خاندانوں کے مسائل میں کمی آئی ہے ایک اور بین الاقوامی تنظیم المصطفےویلفیئر ٹرسٹ بھی دنیا بھر میں بہت سے فلاحی منصوبوں پر کام کر رہا ہے عبدالرزاق ساجد دن رات مصروف ہیں۔ ہاں بات ہو رہی تھی اجتماعی شادیوں کی تو اس کےرجحان میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے یورپی ممالک اور غیر مسلم بھی پاکستان میں اس عمل کوحیرانی سے دیکھتے ہیں ۔ اجتماعی شادیوں کیلئے حکومتی فلاحی اداروں کو بھی کوئی ایسا لائحہ عمل تیار کرنا چاہیے جس سے غریب اور بے سہارا خاندانوں کے مسائل میں کمی آ سکے۔