پاکستان کی مفلوک الحال قوم کیا چاہتی ہے؟

June 09, 2023

بھٹو صاحب کے سیاسی زمانے سے لے کر اب یعنی 50برس تک جلسے جلوس، عوام کو خریدنے، امیدواروں سے پارٹی کے نام پر رقمیں بٹورنے، پھر کبھی کسی سے لڑ کر پوچھنے کی توقع یا ضرورت کسی دور ِحکومت میں محسوس نہیں کی گئی۔ ہر زمانے میں ناجائز کمائی کرنے والوں کے ذمے، جلسوں کے اہتمام اور جلوسوں کو پیسے لانے کا فریضہ سونپا جاتا۔ اس سے اگر پارٹی میں اختلاف ہوجاتا تو وہ فوراً پریس کانفرنس کرکے یا اپنے صحافی دوستوں کے ذریعہ یہ راز فاش کرتا کہ الیکشن سے پہلے اور الیکشن کے بعد، پارٹی سربراہ سے لے کر جلسوں کے سارے اخراجات میرے ذمے تھے۔ اپنے لئے مجھے خاص معتمد کا درجہ دیا گیا۔ میں نے جب جواباً وزارتوں میں حصہ مانگا تو مجھے مکھی کی طرح نکال دیا گیا۔ اس فیصلے میں وہ لوگ بھی شامل ہوتے تھے، جو اپنا سرمایہ لیڈر بنانے میں صرف کرتے تھے، اپنے جہاز بے دریغ ان کے استعمال میں چھوڑ دیتے۔

اسکندر مرزا کو ایوب خان نے نکالا اور پھر سارے برسوں میں فوج کے سائے میں کبھی الیکشن ہوتے، کبھی مارشل لا لگتا تو کبھی آئین کو چند کاغذوں کی ردی کہہ کر پامال کیا جاتا۔ اسی طرح کسی کا اٹھانا اور بٹھانا آج سے چار سال پہلے تک جاری رہا۔ زبردست طاقتوں نےملک کا صحافتی اور سیاسی ڈھانچہ تبدیل کرنےکیلئے ایک نئی شکل کو میڈیا پر لا کر یہ کہہ کر بٹھایا کہ تم تقریریں کرو، ملک کے نظم و نسق کو ہم کارندوں کے ذریعہ چلا لیں گے۔ وہ بیٹھ تو گیا، اسٹیج پہ آکے جیب میں تقریر ڈھونڈ رہا تھا تو سارے میڈیا پر ایک چہرے کی تیوری چڑھی تھی کہ اس کو لکھا ہوا پرچہ جیب میں نہیں مل رہا۔ بہرحال یہ زیرو بم ساڑھے تین سال تک ضیا الحق کی طرح مذہب کو آگے پیچھے ہر طرح استعمال کر کے گزارا، آخر کو ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی انتہا ہو گئی تو پھر آپ کو میڈیا پہ سننے کو مل رہا ہے ’’بہت جلد یہ مہنگائی، یہ سیاسی دھما چوکڑی ختم ہو جائے گی‘‘۔ ان ساڑھے تین برسوں میں نقاب پوشی کی آڑ میں، رقمیں اِدھر سے اُدھر ہوتی رہیں۔ چونکہ یہ کام گزشتہ حکومتوں میں بھی ہوتا آیا تھا، اس لئے بہتی گنگا میں سب کو حسب توفیق ہاتھ دھونے دیئے گئے۔ ایک دن ایک اور جملہ مطلع تقریر بن گیا ’’اب ہم صرف سرحدوں کی حفاظت کریں گے‘‘۔ عوام نے سنا تو اطمینان کا سانس لیتے ہوئے سوچا ’’کیا واقعی اچھے دن آنے والے ہیں۔ ہم دیکھیں گے کہ ملک میں دہشت گردی، چوری چکاری اور ڈیفالٹ ہونے کا خطرہ ٹل جائے گا۔‘‘ اب قوم دیکھ رہی تھی کہ مارکیٹ میں اور عالمی سطح پر ڈالر کی تاج پوشی ہو رہی تھی، روپے کی بدنصیبی یہ کہ ہتھیلی پہ رکھے نوٹوں کو گنا جا رہا تھا۔ وہ جو مجرم ٹھہرا کر ملک بدر تھے وہ تجارت کے بارٹر اسٹیج کی طرح وطن واپسی کیلئے پر تولنے لگے۔ جو دساور سے منگوائے گئے تھے، وہ واپسی کے ٹکٹ کٹا رہے تھے۔ ملک میں شدید تناؤ دیکھ کر، سیاسی اسٹالن نے، شاید ہٹلر کا نام بھی سنا تھا۔ ہر مورچے کیلئے سازو سامان حرب سے آراستہ، خانہ ساز بموں کے حملوں کا خواتین و حضرات پر مشتمل دستہ، سربراہ کی گرفتاری کا شائبہ بھی ہو تو ملکی تاریخ کے ستون اور قربانیوں کی یادگاروں کو توڑنے کا ایسا جامع منصوبہ بنایا کہ قائداعظم سے لیکر سرحدوں کی نشانیوں کو جلا کے خاکستر کرنے کا ٹاسک دیا۔ پاکستان کیا ساری دنیا کے سارے میڈیا پہ جلتی عمارتوں کے سامنے وہ نوجوان اور خواتین جوش میں مغلوب، ناقابل بیان زبان اور نعرے بلند کر رہے تھے۔ سربراہ للکار کر کہہ رہا تھا کہ ’’پھر کرو گے زیادتی میرے ساتھ‘‘۔

اب جب سودو زیاں کے سودے ہو چکے ہیں، نئے خیمے، نئے قالین، پرانے اُدھڑے چہروں پر سونے کا پانی پھروا کر سامنے لانے کے منصوبوں کو دیکھنے کیلئے پوری قوم ایسے منتظر ہے جیسے روزہ کھلنے سے پہلے کی گھڑیاں گنی جاتی ہیں۔ مگر کیا پھر نیا جال لائے پرانے شکاری۔ یہ سب تاش کے پتوں کو پھینٹ رہے ہیں کہ سب کے پاس بادشاہ تو ہیں، حکم کی دُکی کس کے پاس ہے جو سب کو پچھاڑ دیتی ہے۔ کہیں سے یہ صدا نہیں اٹھ رہی کہ ملک میں جاگیرداری اور اسمگلروں کے نمائندوں کو اب مزید معاشرت اور معیشت کو پھر اسمبلیوں میں نہیں بیٹھنے دیں گے۔ اخلاقی اور معاشی ڈوبتی نیا کو بچانےکیلئے، یہ ظاہری پراپرٹی ڈیلروں اور منشیات فروشوں کو راتوں کو ڈاکے اور صبح کو پولیس کی وردی میں قبول نہیں کریں گے۔ ایسا برا وقت ہے کہ قوم کے نوجوان اپنا مستقبل ملک میں نہیں دیکھ رہے۔ ایسا برا وقت تو تب بھی نہیں تھا جب قیام پاکستان کے بعد افسر فائلوں میں کیکر کے کانٹے لگا کر رکھ رہے تھے۔ جبکہ لیاقت علی خان نے قائداعظم سے کہا کہ جو لوگ الیکشن لڑنا چاہتے ہیں وہ پارٹی قائد کی امداد مانگ رہے ہیں۔ کہو کہ اپنے بل بوتے پر منتخب ہو کر آئیں۔ صرف بھٹو صاحب کے زمانے میں بغیر سرمایہ لگائے ڈاکٹر مبشر، مختار رانا اور شیخ رشید (موجودہ نہیں) اپنے علاقوں میں کامیاب ہوئے تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ سارے نظریاتی لوگوں سے زیادہ اہمیت کوثر نیازی جیسوں کو دی جانے لگی تو کچھ کو خود بھٹو صاحب نے نکال دیا اور بعض خود ہی خورشید حسن میر کی طرح پارٹی چھوڑ گئے تھے۔

گئے زمانوں کو یاد کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ پورے سسٹم کو بدلے بغیر، یہ ملک چل نہیں سکتا۔ مصنوعی بجٹ اور بھکاری سیاست کو خیرباد کہہ کر، یہ صوفوں پر بیٹھ کر ترین صاحب! سیاست نہیں چلے گی۔ جلسے کر کے، قوم پر کوئی دباؤ زرداری صاحب نہیں چلے گا۔ آپ کا کہا، سب سیاست دانوں کے بے شمار گھروں کا حساب اب یہ لٹی ہوئی درختوں کے نیچے بیٹھے ہوئی بے گھر قوم، آپ کا حساب کرنے کو نکل کھڑی ہوئی تو توقع ہے کہ آپ بھی اپنی سیاست کے مہروں کو تبدیل کریں گے۔ یہ قوم، شوکیس سے باہر، دو وقت کی عزت کی روٹی اس وقت کھا سکے گی جب سیاست دان روز ملاقات اور مفاہمت کے نام پر پندرہ ڈشیں کھانا چھوڑ کر جماعت اسلامی کی طرح زمین پہ بیٹھ کر، عوام کے ساتھ مل کر بیٹھیں گے۔ یہ سفید کلف لگے سوٹ بہت ہو گئے، یہ تسبیحوں کی تضحیک بہت ہو چکی، اب مزید مشائخ کانفرنسیں مذہب کے نام پر نہیں ہوں گی۔ خدا کیلئے قوم کو بے وقوف بنانا بند کر دیں۔