’’میر تقی میر‘‘ لہجے کے رنگ

September 17, 2023

اردو شاعری کا سب سے بڑا استثنیٰ ہے۔استثنیٰ تو ہر بڑا تخلیق کار ہوتا ہے، لیکن میر کا معاملہ یہ ہے کہ یہاں استثنیٰ کی معنویت حیات و کائنات کے تمام رنگوں پر محیط نظر آتی ہے۔ حیات کے جس پہلو اور کائنات کے جس رُخ پر نگاہ کیجیے وہاں میر کے احساس کی رَو آپ کو ہم کلام محسوس ہوگی۔ سبب اس کا یہ ہے کہ میر کا دائرئہ سخن دراصل وہ مقام ہے جہاں پر آکر انسان کے داخل کی دنیا اور خارج کی کائنات کے سرے آپس میں مل جاتے ہیں۔

ہمارے یہاں ناقدین اسے میر کے سخن کا معجزہ کہہ کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔ لیکن یہ بھی تو دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کی جائے کہ میر کے یہاں اس معجزے کی نمود کس طرح ہوتی ہے اور انسانی احساس پر اس کے اثرات کی نوعیت کیا ہے۔ عسکری صاحب نے میر کے بارے میں کیسی غور طلب بات کہی ہے۔ ’’میر کو پڑھنا، زندگی بھر کا جھگڑا مول لینا ہے۔‘‘ یہ سچ ہے۔ اس لیے کہ اگر ایک بار آپ میر صاحب کے ساتھ چل پڑے تو سمجھ لیجیے کہ اب ہفت اقلیم کی سیاحت کے بعد ہی کچھ فرصت ہوگی، وہ بھی اگر ہوئی تو۔

جب ہم کسی بڑے فن کار کو استثنیٰ کی حیثیت میں پاتے ہیں تو دراصل اُس کے فن میں اس کائنات کی حیرتوں اور زندگی کے تجربوں کی رنگا رنگ دنیا کے رُو بہ رُو ہوتے ہیں۔ یہاں ہمیں اپنی زندگی اور اپنی اطراف کی دنیا کے پہلے سے طے شدہ معنی کے عقب میں نئے اور الگ معنی کا ایسا روشن منظرنامہ دکھائی دیتا ہے جس سے ہماری توجہ کسی طرح ہٹنے ہی نہیں پاتی۔

ایک طرح سے یہ سیرِ طلسمات ہے، ایک ایسے طلسم کی سیر جو کہیں ٹوٹتا ہی نہیں، بلکہ جوں جوں ہم اس راہ پر آگے بڑھتے جاتے ہیں سامنے آنے والے منظر کچھ اور کشادہ، روشن اور جاذب ہوتے چلے جاتے ہیں۔ لطف کی بات یہ ہے کہ اس جہانِ معنیٰ میں داخل ہونے کے لیے ایک نہیں کئی ایک طرح کے دَر اور اُن کی کلید ہمیں فراہم ہوتی ہے اور ہم اپنی سہولت، ذوق اور ذہنی سطح کے مطابق ان میں سے کسی بھی دَر اور کلید کا انتخاب کر سکتے ہیں۔مثال کے طور پر کہا جاسکتا ہے:

میر کی شاعری جہانِ حیرت ہے۔

کم سے کم اپنی حد تک تو یہ بات ہم پورے وثوق سے کہہ سکتے ہیں۔ واقعہ حالاں کہ یہ ہے کہ گزرتا ہوا وقت آدمی کی حیرتیں بڑی حد تک سمیٹتا چلا جاتا ہے اور بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ حیرت سے دوچار ہونے کی صلاحیت ماند پڑتی جاتی ہے۔ چناں چہ کتنی ہی بڑی باتوں اور بڑے تجربوں کو وہ زندگی کے روزمرہ کے طور پر قبول کرنے لگتا ہے، لیکن میر— یا خدا یہ کیسی وادیِ طلسمات ہے کہ آدمی ایک بار اس میں اُترے تو بس پھر اسی کا ہو رہتا ہے۔ اس طلسم کدے میں ایسی جاذبیت ہے کہ آدمی قدم بہ قدم آگے بڑھتا اور ان میں گم ہوتا چلا جاتا ہے اور اسے رکنے یا پلٹنے کا خیال تک نہیں آتا۔ ایک بار میر صاحب سے رسم و راہ ہو جائے تو ان کے دائرئہ اثر سے آدمی نکل نہیں پاتا۔

یوں تو حیرت کا تجربہ کسی نہ کسی درجے میں ہر بڑے شاعر کے یہاں ہوتا ہے، اور اس کے متعدد اسباب ہوسکتے ہیں۔ اس حوالے سے اردو ہی نہیں عالمی شعری منظرنامے سے زبان اور ثقافت کی تخصیص سے قطعِ نظر کتنی ہی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں، اور ہمارے یہاں میر کا معاملہ سب سے بڑھ کر ہے۔ ظاہر ہے، اس کی ایک نہیں، کئی وجوہ ہیں۔ مضمون یا موضوع کی کائنات گیر وسعت، فکر کی گہرائی، طرزِ ادا، بیان کا لطف، مصرعے کی چُستی، ترکیب، بندش، لہجہ اور خدا جانے کیا کیا کچھ۔ ،اب ان میں سے کسی بھی نکتے کو پیشِ نظر رکھ لیجیے اور اٹھائیے ،دیوان میر ۔ ورق الٹتے جائیے،بس ایک اچٹتی ہوئی نظر بھی آپ کو یہ بتانے سمجھانے کے لیے کافی ہے:

سرسری تم جہان سے گزرے

ورنہ ہر جا جہانِ دیگر تھا

یوں ہی ورق گردانی میں بھی کوئی نہ کوئی ایسا شعر مل جاتا ہے، جس کی تفصیل و شرح کے لیے ایک الگ دفتر درکار ہے۔ اچھا چلیے، موضوع کی باریکی، فکر کی گہرائی اور صنائع بدائع تو کالج اور یونی ورسٹی کے اساتذہ کے دیکھنے بیان کرنے کی چیز ہیں، انھیں ایک طرف رکھ کر ہم تو یہاں صرف لہجہ دیکھے لیتے ہیں۔

یہ ٹھیک ہے کہ شاعر کے لہجے کی تشکیل الگ سے کہیں نہیں ہوتی، بلکہ اس کے موضوع اور فکری رویے کا بھی اس میں اہم کردار ہوتا ہے، اور پھر صنائع بدائع تو بالخصوص لہجہ بنانے میں پوری طرح شریک ہوتے ہیں، لیکن ہم ان سب چیزوں سے صرفِ نظر کر لیں اور شعر بھی وہ منتخب کریں جس میں بظاہر کوئی ایسی باریکی نہ ہو اور جو دقتِ نظر کا متقاضی بھی نہ ہو اور پھر شعر کو سمجھنے کے لیے زاویے بھی وہ سامنے رکھیں جو روزمرہ زندگی کی سادگی میں لہجے کو دیکھنے کے لیے ہوسکتے ہیں، تو بھی یہ امر حیرت کا باعث ہوتا ہے کہ بادی النظر میں ایسی سادہ، سامنے کی بات کو بھی میر نے کس طرح کہا ہے کہ رنگ سے جھلملاتے چلے جاتے ہیں اور بات قوسِ قزح کی طرح کھلتی ہے۔ اب دیکھیے، میر صاحب فرماتے ہیں:

نازکی اُس کے لب کی کیا کہیے

پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے

اب آپ شعر پڑھیے۔ نازُکی— نازُکی — ناز کی اُس کے لب کی— کیا کہیے— (ہاں) کیا کہیے— کیا کہیے (صاحب) یعنی آپ مصرع کو جس طرح، جتنی بار اور چاہے جس لفظ پر زور دے کر پڑھیے، اس کے معنی کی ایک نئی پرت آپ کے سامنے آجائے گی۔ ایک نیا رنگ سا نکھرتا اور ابھرتا محسوس ہوگا۔ اب ذرا ٹھہر ٹھہر کر پڑھیے تو معلوم ہوگا کہ لہجے کی حلاوت دل کی شریانوں میں اترے جاتی ہے،کہیں آپ کو آواز کا زیرو بم اپنے مدھم سروں میں یوں جذب کرے گا کہ دنیا کے سارے ہنگاموں، ہڑبونگ اور شور شرابے سے آپ کا دھیان ہٹ جائے گا۔ ایک موسیقی لہو کی تال سے ہم آہنگ ہو کر آپ کے احساس کا ردھم بنا دے گی۔

اب ذرا یہ دیکھیے کہ اس لہجے کا آپ کی کیفیت پر کیا اثر ہے۔ محسوس کرتے ہیں کہ آپ کی خاموشی جیسے لبِ گویا ہوگئی ہے، آپ کے خیال کی تجسیم ہوگئی ہے، اور یوں انسانی وجود کی نزاکت اور لطافت کا وہ رُخ سامنے آیا ہے کہ جس کی طرف کبھی اس سے پہلے آپ کا دھیان ہی نہیں گیا تھا، اگرچہ بات بالکل سامنے کی تھی۔

جذبہ جیسے ایک آواز میں ڈھل گیا اور آواز کو ایک دل کش پیکر میسر آگیا۔ ایک بات جو پہلے کہیں دل میں یا احساس کی پرت میں تھی اور جسے خیال کا سانچا درکار تھا، میر صاحب کے اس شعر میں آکر وہ ابلاغ کے بلند ترین امکان کے ساتھ روشن ہوگیا،اس کی نوعیت یہ ہے کہ یہ وجود اور ورائے وجود حقیقت کے دونوں ہی پہلوئوں کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔

یہ تو چند ایک چیزیں ہیں جن کی طرف بہ عجلت کچھ اشارے سے کر دیے گئے ہیں۔ شعر بھی تقدیر کی طرح ہر شخص سے اپنا معاملہ الگ انداز سے کرتا ہے۔ بست و کشاد کی کیفیتیں سب پر الگ رنگ میں گزرتی ہیں۔ اس لیے کہ ادب و شعر کی قدر ہی نہیں کیفیت کا معاملہ بھی بہت داخلی نوعیت کا ہوتا ہے۔ ایذرا پائونڈ کہتا ہے کہ ادب کے باب میں کوئی بھی عمومی بیان کاغذ کے اس پرزے کی طرح ہوتا ہے جو چیک کی صورت بینک میں پیش کیا جاتا ہے، اس کی قیمت اُس اثر پر منحصر ہے جو وہ اپنے قاری کے اندر پیدا کرتا ہے۔ اثر کی یہ نوعیت ہر قاری کے ساتھ تو بدلتی ہی ہے، لیکن خود ایک قاری بھی مختلف اوقات اور مختلف کیفیات میں اسے الگ انداز سے دیکھتا اور محسوس کرتا ہے۔

مذکورئہ بالا شعر کی بابت کہا جاسکتا ہے کہ اس کے اثر یا اس کی پیدا کردہ کیفیت کی وسعت میں اس کا دوسرا مصرع بھی اپنا بھرپور کردار ادا کرتا ہے۔ اس کے لیے ان نکات کو ذہن میں تازہ کیجیے جو استعارے کے باب میں ہمارے یہاں اساتذہ نے بیان کیے ہیں۔ مثال کے طور پر استعارے کی مدد سے شاعر مضمون بھی بناتا ہے،اور استعارے کو بجائے خود حقیقت مان کر اس سے کچھ اور نئے استعارے بھی پیدا کیے جاتے ہیں۔ مثلاً اس شعر میں امپلائیڈ معنی سے ہم یہ بات جان لیتے ہیں کہ محبوب کا وجود گلاب ہے تو پھر اس کے لب کو پنکھڑی کہا جائے گا۔ اس میں زبان و بیاں کے اصولوں کا کردار کس طرح کارفرما ہے، ہم اس کا اندازہ کر سکتے ہیں۔

میر کا ایک اور شعر ہے:

سراپا پہ جس جا نظر کیجیے

وہیں عمر ساری بسر کیجیے

اس شعر کی لطافت اور معنویت کا انحصار بھی اس کے پڑھے جانے پر ہے۔ مصرعِ اولیٰ و ثانی دونوں کو آپ جس طرح پڑھتے ہیں، ان میں جس لفظ پر زور دیتے ہیں، وہ آپ کے سامنے ایک منظر سا روشن کر دیتا ہے۔ یعنی سراپا، جا، نظر، وہیں، عمر، بسر ہر لفظ اپنی جگہ معنویت کا ایک دائرہ ہے۔حواس اور تخیل کو مہمیز کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے،جس طرح کسی لفظ کو ادا کیا جائے گا، اسی طرح کی کیفیت پیدا ہوگی۔

ذہن کے پردوں پر رنگ و نور کا تناسب اسی کے تحت اپنا اثر دکھاتا ہے، احساس کی لہروں کے مدوجزر کا تعین بھی اس سے ہوتا ہے اور کیفیت کی تشکیل بھی اسی کے تحت ہوتی ہے، معنویت کا دائرہ بھی اسی سے وسعت پاتا ہے۔ مراد یہ ہے کہ آپ اس شعر سے جو لطف و معنی کشید کرتے ہیں، وہ باہر کہیں سے فراہم نہیں ہوتے، بلکہ آپ کی قرأت ہی ان کا تعین کرتی ہے، اور قرأت کا یہ قرینہ ہر قاری کو اس کی استعداد اور کیفیت کے مطابق میر کا لہجہ عطا کرتا ہے۔

سطورِ بالا میں دیے گئے دونوں اشعار رومانی رنگ کے حامل ہیں۔ خیال کیا جاسکتا ہے کہ اس نوع کے اشعار کا مضمون پہلے ہی مرحلے میں اپنا ایک رنگ پیدا کر لیتا ہے، اس کے بعد کی چیزیں خود اسی کے اثر میں نمایاں ہوتی ہیں۔ اب ذرا یہ اشعار ملاحظہ کیجیے، ان میں تو کوئی بھی رومانی کیفیت کا حامل نہیں ہے:

وجہِ بیگانگی نہیں معلوم

جہاں کے تم ہو واں کے ہم بھی ہیں

……٭٭……٭٭……٭٭……

موسم آیا تو نخلِ دار پہ میر

سرِ منصور ہی کا بار آیا

……٭٭……٭٭……٭٭……

جہاں اب خارزاریں ہوگئی ہیں

وہاں آگے بہاریں ہوگئی ہیں

……٭٭……٭٭……٭٭……

سب یہ جس بار نے گرانی کی

اسے یہ ناتواں اٹھا لایا

……٭٭……٭٭……٭٭……

نامرادانہ زیست کرتا تھا

میر کا طور یاد ہے ہم کو

ان میں ایک بھی ایسا شعر نہیں ہے، جس کا مضمون اوّلیں مرحلے میں اپنا رنگ یا اثر ابھار دے۔ یہ سب کے سب رفتہ رفتہ کھلنے والے اشعار ہیں۔ ان میں لہجے کا آہنگ بھی ایک جیسا نہیں ہے،کہیں نرمی اور دھیمے پن سے ایک بات کہی گئی ہے، کہیں سادگی سے ایک استفسار ہے، جس میں بین السطور حقیقت کا ادراک بھی بیان ہو رہا ہے، کہیں عشقِ حقیقی اور مادی سماج کے ناگزیر ٹکرائو کی طرف اشارہ ہے، کہیں جذبے کی صلابت کا اثبات ہے اور کہیں ذاتی کیفیت کو ایک طرزِ حیات کے طور پر بیان کیا گیا ہے— ایسے مختلف النوع مضامین اور ان کے لیے لہجے کی ایسی رنگا رنگ صورتیں۔

ان اشعار کو دن رات کے مختلف اوقات میں ذرا قلب و ذہن کی مختلف کیفیات کے ساتھ پڑھ کر دیکھیے تو اندازہ ہوگا کہ میر کا لہجہ کہیں دوستانہ ہے، کہیں تنبیہی ہے، کہیں فہمائشی ہے، کہیں استفہامی ہے، کہیں اداسی کا ہے، کہیں تأسف کا ہے اور کہیں اعترافِ حقیقت کا۔

لہجے کی یہ رنگا رنگی شعر کو کچھ سے کچھ بنا دیتی ہے۔پڈھنے والے محسوس کریں گےکہ ان کے اثرات آپ کے دل و دماغ پر، مزاج پر، طبیعت اور رویے پر الگ الگ طرح کے ہیں، ان کی کیفیت اور اثر کا گراف بھی آپ کو الگ الگ سطح پر ملے گا۔ اصل میں طلسماتِ میر کا ایک در اُن کے لہجے کے اسمِ اعظم سے بھی کھلتا ہے، اور جب ہم اس میں داخل ہوتے ہیں تو ہمارے اندر اور باہر کی کائناتیں اپنے رازوں سے پردے اٹھانے لگتی ہے۔ میر کے انفرادی نشانات میں ایک یہ اعجاز بھی ہے۔

معزز قارئین! آپ سے کچھ کہنا ہے

ہماری بھرپور کوشش ہے کہ میگزین کا ہر صفحہ تازہ ترین موضوعات پر مبنی ہو، ساتھ اُن میں آپ کی دل چسپی کے وہ تمام موضوعات اور جو کچھ آپ پڑھنا چاہتے ہیں، شامل اشاعت ہوں، خواہ وہ عالمی منظر نامہ ہو یا سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، رپورٹ ہو یا فیچر، قرطاس ادب ہو یا ماحولیات، فن و فن کار ہو یا بچوں کا جنگ، نصف سے زیادہ ہو یا جرم و سزا۔ لیکن ان صفحات کو اپنا سمجھتے ہوئے آپ بھی کچھ لکہیں اور اپنے مشوروں سے نوازیں بھی۔ خوب سے خوب تر کی طرف ہمارا سفر جاری ہے۔

ہمیں خوشی ہے کہ آج جب پڑھنے کا رجحان کم ہوگیا ہے، آپ ہمارے صفحات پڑھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنی رائے کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اب ان صفحات کو مزید بہتر بنانے کے لیے اپنی رائے بھی دیں اور تجاویز بھی، تاکہ ان صفحات کو ہم آپ کی سوچ کے مطابق مرتب کرسکیں۔

ہمارے لیے آپ کی تعریف اور تنقید دونوں انعام کا درجہ رکھتے ہیں۔ تنقید کیجیے، تجاویز دیجیے۔ اور لکہیں بھی۔ نصف سے زیادہ، بچوں کا جنگ، ماحولیات وغیرہ یہ سب آپ ہی کے صفحات ہیں۔ ہم آپ کی تحریروں اور مشوروں کے منتظر رہیں گے۔ قارئین کے پرزور اصرار پر نیا سلسلہ میری پسندیدہ کتاب شروع کیا ہےآپ بھی اس میں شریک ہوسکتے ہیں ، ہمارا پتا ہے:

رضیہ فرید۔ میگزین ایڈیٹر

روزنامہ جنگ، اخبار منزل،آئی آئی چندیگر روڈ، کراچی