جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے چیف جسٹس بننے پر عوام میں ایک نوع کی خوشی یا مایوسیوں کے سائے میں اُمید کی کرن محسوس کی جارہی ہے جس کا اظہار ہمارے مین اسٹریم قومی میڈیا میں ہی نہیں سوشل میڈیا کی وسعتوں میں بھی ملاحظہ کیاجاسکتا ہے اس کی ایک وجہ توملک کے مجموعی حالات ہیں دوسری ہماری جوڈیشری کے بہت سے منفی کردار بھی ہیں ،جسٹس منیر اور جسٹس ارشاد جیسے ستم گر تو رہے ایک طرف یہاں بابا رحمتا بن کر ثاقب نثار نے سپریم جوڈیشری کو جس طرح بے توقیر کیااُس کے مضمرات کو اس ملک کا کوئی بھی باشعور شخص کیسے بھول سکتا ہے؟ کچھ ایسا ہی حال کھوسہ، گلزار اور حال ہی میں ریٹائر ہونے والے بندیال صاحب کا رہاآخر الذکر تو شاید دیگر سب پر بازی لے گئے یوں روتے ہوئے نکلےکہ جیسے یہ چیف ججی اُن کی ذاتی جاگیرتھی جو چھن گئی۔ افسوس ایسے سسٹم پر جس میں اس صلاحیت کے لوگ ایسے عہدوں پر براجمان ہوجاتے ہیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی تعیناتی پر عوام کی آنکھوں میں جو ہلکی سی چمک آئی ہےاس سے امید کی وجوہ پر اظہارِ خیال کرنا مقصودہے۔جسٹس قاضی سے امیدیں پالنے کی ایک وجہ تو ظلم کی یہ سیاہ رات ہے جو برسوں سے سپریم جوڈیشری پر مسلط تھی ایک منفی کردار جاتا تھا تو ویسا ہی کوئی دوسرا آجاتا تھا۔ جسٹس قاضی فائز عیسی ان سے مختلف کیوں گردانے جارہے ہیں ؟اس میں اولین وجہ بطور جج ان کا بہترین کنڈکٹ ہے یہ وہ جج صاحب ہیں جنہوں نے عسکری آمریت کی تاریکی میں اس کا حصہ بننے کی بجائے بڑی جرأت کے ساتھ قوم کو ایک نئی اُمید دلائی۔ جنرل باجوہ اور جنرل فیض نے جمہوریت کی پیٹھ میں چھرا گھونپتے ہوئے متشدد مذہبیت کو استعمال کیا۔ راولپنڈی میں ظالمانہ دھرنا دلوایا تو یہ قاضی فائز عیسیٰ تھے جنہوں نے حق و صداقت کا علم جرأت کے ساتھ بلند کرتے ہوئے وہ فیصلہ تحریر فرمایا جو اس ملک کی عدالتی تاریخ میں کبھی نہ بھلایا جاسکے گا،مابعد سچائی کی اس آواز کو دبانے کیلئے اہلِ جبر نے کون کون سے ہتھکنڈے استعمال نہ کئے،سپریم جوڈیشری کا سینئر جج ہوتے ہوئے کون کون سی پیشیاں انہیں اور ان کی قابلِ احترام شریکِ حیات کو نہ بھگتنا پڑیں مگر ان کے پائے استقلال میں کوئی لغزش نہ آئی ،جعلی ریفرنس بنانے والوں کو منہ کی کھانا پڑی یوں بالآخر سچائی کی فتح ہوئی اور قاضی صاحب قاضی القضاہ کے منصب پر فائز ہوگئے۔ یہ بھی قاضی صاحب کا اعزاز ہے کہ آئین کی پچاسویں سالگرہ پروہ نہ صرف منتخب پارلیمان میں حاضر ہوئے بلکہ ایک ذمہ دار جج کی حیثیت سے لگی لپٹی رکھے بغیر کہا کہ میں آئندہ بھی آئین و پارلیمنٹ کے تقدس کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے مبنی بر عدل و انصاف فیصلے صادر کروں گا خواہ وہ انتظامیہ کو کڑوے ہی کیوں نہ لگیں۔وہ چیف بنائے گئے ہیں تو روزِ اول ہی انہوں نے صاف کہہ دیا کہ میں کوئی پروٹوکول نہیں لوں گا اور نہیں لیا،عدالتی اہلکاروں کو محض اتنی یاددہانی کروائی کہ دیکھئے جو لوگ مسائل لے کر عدالت میں آتے ہیں ان کے ساتھ آپ لوگوں کا رویہ وہی ہونا چاہے جو کسی بھی میزبان کا اپنے مہمانوں کے ساتھ ہوتا ہے ،ستاون ہزار لوگ رل رہے ہیں ہم نے ان کے دکھوں کا مداوا کرنا ہے، کوئی بڑ نہیں کوئی بڑا بول نہیں حتیٰ کہ کمرہ عدالت کے باہر تختی پر چیف جسٹس نہیں محض جسٹس لکھوانے پر اکتفا کیا۔ اس سے بھی بڑھ کر 184 III کے تحت سوموٹو کا اختیار جس کے استعمال کی آرزو میں افتخار چوہدری اور ثاقب نثار سے لے کر بندیال تک سب وارفتہ تھے اور بار سے لے کر میڈیا تک سب اس اختیار کو نکیل ڈلوانا چاہتے تھے جب پارلیمنٹ نے اس حوالے سے اقدام اٹھاتے ہوئے دو سینئر موسٹ ججزکے ساتھ کمیٹی بنادی تو ایک جج صاحب اتنا آگے چلے گئے کہ منتخب پارلیمنٹ کو اپنے عدالتی ہتھوڑے کے نیچے رکھ لیا ۔ پارلیمنٹ کے منظور کردہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر حکم امتناعی جاری کردیا پوری قوم سے آوازیں اٹھیں کہ سپریم جوڈیشری جس آئین کی پیداوار یا تخلیق ہے پارلیمنٹ اس آئین کی خالق یا ماں ہے اس کی تحقیر نہ کی جائے کم از کم فل کورٹ ہی تشکیل دے دی جائے مگر وہ حضرت ٹس سے مس نہ ہوئے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو قدرت نے یہ اعزاز بخشا کہ ہے انہوں نے روز اول ہی نہ صرف فل کورٹ تشکیل دیا بلکہ قومی میڈیا کےذریعے اسے قوم کے سامنے پیش کردیا۔ اس انقلابی فیصلے کی جتنی بھی تحسین کی جائے کم ہے قانون کا مقصد ہے کہ انصاف ہونا ہی نہیں چاہئے ہوتا ہوا نظر بھی آنا چاہئے آج یہ اتنا نظر آیا ہے کہ اس کی برکت سے کئی نااہلوں کی اصلیت بھی قوم پر واضح ہوگئی ہے۔ قوم کے سامنے فل کورٹ میں جو بحث ہوئی اتنی دلچسپ ہے کہ اس پر الگ سے ایک کالم بنتا ہے کیونکہ اس میں عوامی اقتدار اعلیٰ اور پارلیمان کی بالادستی کا بنیادی و جوہری اصول واضح ہوگیا ہے نیز جسٹس قاضی نے اپنی حلف برادری کی تقریب میں جو انقلابی اقدام اٹھایا ہے وہ ان کی غیر روایتی سوچ اور جرأت کا غماز ہے، یہ روایت آگے بڑھنی چاہئے۔