تاقیامت

September 24, 2023

وہ بستہ اٹھائے اسکول سے باہر نکلتی ہے اورمجھے دیکھ کر میری طرف لپکتی ہے ۔ میں اس سے بستہ لے لیتا ہوں ۔ وہ کچھ سوچ کر مسکراتی ہے ۔ میں گھبرا کر کہتا ہوں : مشیہ کل آپ نے کہا تھا تین دن اب کچھ نہیں لوں گی ۔ وہ منہ بسور کر کہتی ہے : بابا ڈالر شاپ ۔ پھر پانچ دن کچھ نہیں لوں گی ۔ اگلے دن پھر یہی کہانی دہرائی جاتی ہے ۔

جب اسے ماں سے ڈانٹ پڑتی ہے تو نم آنکھوں کے ساتھ وہ مجھ سے لپٹ جاتی ہے ۔ بیوی سے میں کہتا ہوں : بچے ایسا ہی کرتے ہیں ۔ جب میں چھوٹا تھا تو میرے والد روز ایک گاڑی لے کر دیتے تھے ۔ وفاقی کالونی لاہور کا مدینہ جنرل اسٹور ۔ایک دفعہ چچی گھر آئیں ۔ صحن میں ایک چھوٹا سا گٹر تھا ، جو بند ہو گیا ۔ صفائی ہوئی تو اندر سے بہت سی گاڑیاں نکلیں ۔ حیرت سے کہنے لگیں :اتنی گاڑیاں اس کے پاس ہیں ۔ پھر بھی روز ایک نئی گاڑی ۔

میری جیب نوٹوں سے بھری ہوتی تھی ۔ میں انہیں قالین پر رکھ کر کرنسی نوٹوں کی ایک لائن بنایا کرتا۔ بڑے بہن بھائی گھات میں رہتے ۔ لاڈلا میں بہت تھا۔ ایک دن کہیں سے ایک ڈائیلاگ سنا : ہڈی پسلی ایک کر دوں گا۔گھر آیا تو بھول گیا ۔والد سے کہا: ہڈی ہڈی ایک کر دوں گا ۔ وہ بہت خوش ہوئے۔ میں ان کی گردن پہ سوار ہوجاتا اور یہ دھمکی دہراتا رہتا ۔

مشیہ کے جب دانت نکلنے لگے تو پہلے صرف اطراف کے نوکدار دانت نکلے ۔ ایسا لگتا ، جیسے چھوٹا سا ویمپائر بیٹھا ہوا ہے ۔ مجھے اپنی بیٹی کے منہ سے ایک بہت پیاری خوشبو آتی تھی ۔ ماں کی ڈانٹ سے اسے کبھی فرق نہیں پڑا ۔ میری محبت میں ذرا سی کمی محسوس ہوتی تو رو پڑتی ۔ جب تک وہ راضی نہ ہو جاتی ، میں بے چین رہتا ۔ مجھے وہ دن یاد آتے ہیں ، جب اس نے چلنا سیکھا۔ گرتی پڑتی میرے پاس آتی اور میرا لیپ ٹاپ بند کر دیتی ۔ میری انگلی پکڑ کر کھینچتی ۔ میں اسے اٹھا کر فانوس کے قریب کر دیتا ۔ وہ لائٹس کے ساتھ کھیلتی رہتی ۔

جب احمد پیدا ہوا تو وہ بہت رنجیدہ ہوئی۔ ماں سے بات کرنا چھوڑدی ۔ان دنوں کی تصاویر آج بھی میرے پاس ہیں ۔ کئی ماہ تک میں نے اس کی موجودگی میں احمد کو کبھی نہیں اٹھایا ۔ رفتہ رفتہ اس کا دل پگھلنے لگا ۔ میں چھپ کر چھت والے کمرے میں بیٹھ کر کام کرتا۔ اب میں احمد سے چھپ کر کام کرتا ہوں ۔ مجھے دیکھ لے تو مجھے چمٹ جاتا ہے ۔ احمد کو اٹھاتا ہوں تو چھ سالہ مشیہ بے چین ہوجاتی ہے ۔ میں دونوں کو اٹھا کے سینے سے چمٹا لیتا ہوں ۔رسالت مآبؐ نے غالباً حضرت امام حسین ؓ یا حضرت امام حسنؓ کا ماتھا چوما ۔ ایک شخص کہنے لگا : ہم تو بچوں کا بوسہ نہیں لیتے ۔ فرمایا: اللہ نے اگر تیرے دل سے رحمت نکال لی تو میں کیا کر سکتا ہوں ۔ بچوں سے کون دشمنی پال سکتا ہے ۔ چنگیز خان جیسے سفاک شخص کے بارے میں کہا جاتاہے کہ دشمن نے اس کی بیوی اغوا کر کے اس سے بچہ پیدا کیا تو اس نے اسے اپنا لیا تھا۔

اب بتایا جا رہا ہے کہ ننھا عمار پیدائشی ذہنی معذور تھا ۔کیا ہمیں معذور بچوں کی پہچان نہیں؟ یہ بھی کہ اس کا باپ دو دفعہ اسے اسپتال میں ملا ۔ اور یہ کہ لوگ لاشوں پر سیاست کر رہے ہیں ۔ یقیناً وہ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ عمار کو سانس لینے میں دقت ہو رہی تھی اور اس کا جسم بے حس و حرکت ہو چکا تھا ۔ اسے وینٹی لیٹر کی ضرورت تھی۔ اس کا خاندان شوقیہ اسے گھر لے آیا تا کہ اپنے جگر گوشے کو تڑپتا دیکھ سکے۔

عمار کا بڑا بھائی ایک یوٹیوبر کے سامنے کہنے لگا: عمار دیکھو بابا آگئے، بابا آ گئے۔ اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ چچا نے بتایا : بابا کا نام لیں تو روتا ہے۔ خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں ،یہ منظر دیکھ کر دو دن سے میں تڑپ رہا ہوں۔ اپنے جگر گوشوں کو دیکھتا ہوں تو دل پہ چوٹ لگتی ہے۔ یہ وہی ریاست ہے، جہاں لاشوں کے مینار تعمیر کرنے والے اور سروں سے فٹ بال کھیلنے والے طالبان کو معاف ہی نہیں کیا جاتا، انہیں سر آنکھوں پہ بٹھایا جاتا ہے مگر ایک نہتے باپ کو بخشا نہیں جا سکتا۔

عمار کا بھائی کہنے لگا: عمار بابا آجائیں گے۔ پھر ہم باہر جائیں گے۔ وہ اپنے چھوٹے بھائی کو سپنے دکھاتا رہا ، جو بمشکل سانس لے رہا تھا۔

عباد فاروق کو عمار کے جنازے میں لایا گیا تو ایک شخص اس کو پکڑ کے کھڑا رہا ۔کیا کوئی شخص اپنے لختِ جگر کی لاش چھوڑ کر سینکڑوں لوگوں کے درمیان سے فرار ہو سکتا ہے؟ نمازِ جنازہ ادا ہوتے ہی اسے وہ یوں اچک کر لے گئے، جیسے ایٹم بم پھاڑ دینے کا مرتکب ہوا ہو۔

عمار کا بھائی کہنے لگا :ہم اس ملک سے چلے جائیں گے ۔وڈیوز وائرل ہونے کے باوجود کسی دل میں رحم نہ پھوٹا۔ مجھے شک ہے کہ یہ سب لوگ بے اولاد ہیں۔ اولاد والا اتنا بے رحم کیسے ہو سکتا ہے۔

اللہ کے قانون کبھی نہیں بدلتے ۔ یزید کی پیروی کا انجام بھی وہی ہے۔ دنیا میں کوئی اس کا نام لیوا نہیں ۔ شہید تو حضرت امام حسینؓ کی اولاد بھی کر دی گئی تھی۔ ہر شخص کو ایک دن مرجانا ہے ۔ ہر شخص کی اولاد کو بھی ایک دن مر جانا ہے ۔ عمار کا بے رحمانہ قتل کرنے والوں نے مگر اپنے چہرے پہ جو کالک ملی ہے، وہ تاقیامت دھل نہ سکے گی۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)