نیب نے جھوٹ کل بولا یا آج؟

April 18, 2024

احتساب کے نام پر مذاق جاری و ساری ہے۔ ایک کیس نیب کی طرف سے بنایا جاتا ہے، لاکھوں کروڑوں روپے قومی خزانے سے خرچ کیے جاتے ہیں، میڈیا کو مبینہ کرپشن کے بارے میں بتایا جاتا ہے، کسی مخصوص سیاستدان جس کو احتساب کے نام پر نشانہ بنانا ہوتا ہے اُس پر چوری، بدعنوانی کے الزامات لگائے جاتے ہیں، پگڑیاں اچھالی جاتی ہیں، ریفرنس بنا کر عدالتوں میں کیس بھیجے جاتے ہیں،ثبوتوں اور قانونی خلاف ورزیوں کے حوالے سے بلند بانگ دعوے کیے جاتے ہیں۔ پھر وقت گزرنے کے ساتھ، نیب کا رویہ بدل جاتا ہے، وہی کیس جس میں کرپشن کے حوالے سے پہلے بہت بات کی جاتی تھی، کیس بنائے جاتے تھے اُس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ثبوت نہیں، کیس غلط بنا تھا۔ یہ سب بار بار ہوتا ہے۔ یعنی کیس بنتے ہیں، ختم کر دیے جاتے ہیں لیکن نیب کے اندر کسی کا احتساب نہیں ہوتا۔ ایک بات طے ہے کہ یا تو کیس غلط بنایا جاتا ہے یا کیس کو غلط ختم کیا جاتا ہے لیکن کوئی حکومت،کوئی عدالت، کوئی پارلیمنٹ کبھی نیب سے یہ نہیں پوچھتی کہ قوم کے کروڑوں اربوں خرچ کر کے جھوٹا کیس بنایا یا جھوٹ بول کر کرپشن کا کیس ختم کروایا۔؟ آج کی خبر کے مطابق اسلام آباد کی احتساب عدالت میں دائر جعلی بینک اکائونٹس و توشہ خانہ گاڑیوں سے متعلق ریفرنس میں اہم پیش رفت ہوئی ہے۔نیب ،جس نے سابق وزیرِ اعظم میاں نواز شریف (آصف علی زرداری اور یوسف رضا گیلانی)کے خلاف توشہ خانہ کرپشن کا کیس بنایا تھا اور عدالت میں بھیجا تھا ، نے آج میاں صاحب کو ریفرنس سے بری کرنے کی استدعا کر دی۔نیب ،جس نے پہلے الزام لگایا تھا کہ نواز شریف نے توشہ خانہ سے مرسیڈیز گاڑی لی جبکہ قانون اس کی اجازت نہیں دیتا، نے اب اپنی رپورٹ میں کہا کہ سعودی عرب کی حکومت نے 1997ء میں گاڑی اس وقت کے وزیرِ اعظم نواز شریف کو تحفے میں دی تھی، جو انہوں نے توشہ خانہ میں جمع کرا دی تھی۔نیب رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2008ء میں اس وقت کے وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی نے نواز شریف کو گاڑی خریدنے کی آفر کی، نواز شریف نے گاڑی توشہ خانہ سے نہیں بلکہ وفاقی ٹرانسپورٹ پول سے خریدی۔نیب کی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ انہوں نے تحفہ ملی گاڑی کو توشہ خانہ میں جمع کرایا جبکہ خریداری کے وقت گاڑی توشہ خانہ کا حصہ نہیں تھی۔رپورٹ میں قومی احتساب بیورو نے یہ بھی کہا ہے کہ عدالت نواز شریف کو توشہ خانہ ریفرنس سے خارج یا بری قرار دے سکتی ہے۔ اب یہ مذاق نہیں تو کیا ہے۔ سمجھ نہیں آتا کہ جن عدالتوں کے سامنے یہ احتساب کا ڈرامہ رچایا جاتا ہے وہ ایسے مذاق کا نوٹس کیوں نہیں لیتیں۔ عدالت نیب سے یہ کیوں نہیں پوچھتی کہ جو وہ آج لکھ کر عدالت کو دے رہی وہ اُس کے بالکل برعکس کیوں ہے جس کی بنا پر پہلے کیس بنا کر ریفرنس دائر کیا گیا تھا۔ لیکن عدالتوں کے انصاف کے معیار پر تو خود ہی سوال اُٹھائے جاتے ہیں۔ توشہ خانہ کیس کے حوالے سے ہی دیکھ لیں کہ جو توشہ خانہ کیس نواز شریف، آصف علی زرداری اور یوسف گیلانی کے خلاف کوئی چار پانچ سال پہلے بنایا گیا وہ اب بھی اُسی احتساب عدالت کے سامنے چل رہا ہے جس نے عمران خان کے خلاف چند ماہ پہلے دائر ہونے والے توشہ خانہ کیس کا فیصلہ الیکشن سے چند دن پہلے سنا کر اُنہیں اور اُن کی اہلیہ کو 14,14 سال اور کوئی ڈیڑھ ارب روپے جرمانے کی سزا بھی سنا دی۔احتساب کے نام پر اس مذاق کو ختم ہونا چاہیے جس کے لیے ضروری ہے کہ نیب کا احتساب کیا جائے اور اُن نیب افسران کو سزائیں دی جائیں جو گزشتہ دو ڈھائی دہائیوں کے دوران جھوٹے سچے کیس بناتے اور اُنہیں ختم کرواتے رہے۔

(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)