ٹیکس قوانین میں ترامیم؟

April 19, 2024

وفاقی کابینہ نے عدالتی مقدمات کی وجہ سے پھنسے کھربوں روپے کے ٹیکس کی وصولی کیلئے تین ٹیکس قوانین میں ترامیم کی اصولی منظوری دیدی ہے۔ ترامیم کابینہ میں ہونے والی بحث کی روشنی میں نوک پلک کی درستی کے بعد بل کی صورت میں قومی اسمبلی میں پیش کی جائیں گی۔ ان کا مقصد برسوں تک فنی اور دیگر وجوہ سے التوا میں پڑے ہوئے محصولاتی معاملات کو جلد انجام تک پہنچانا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے کچھ عرصے قبل چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے ملاقات میں بھی اس مسئلے کی نشاندہی کی تھی کہ اسٹے آرڈر یا دوسری وجوہ سے ٹیکس مقدمات میں التوا کے باعث کھربوں روپے کے معاملات پھنسے رہتے ہیں۔ وزیراعظم کی زیر صدارت منعقدہ کابینہ اجلاس کے فیصلے سے واضح ہے کہ مقدمات میں طوالت اور التوا کی وجوہ کو ممکنہ طور پر کم کردیا گیا ہے تاکہ کیس کی حتمی صورت حال جلد واضح ہوجائے۔ مثال کے طور پر اس وقت رائج قانون میں چار پلیٹ فارمز ہیں جن میں سے کمشنر اپیلز کا پہلا فورم ختم کرنے کی تجویز دی گئی ہے جس کے بعد اپیلٹ ٹریبونل، ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ کے تین فورم برقرار رہیں گے۔ ہائیکورٹس کو 6ماہ میں ٹیکس کیسز کا فیصلہ کرنے کا پابند بنایا گیا ہے۔ دیگر تجاویز کے ذریعے بھی معاملات کو سبک بنایا گیا ہے۔ وطن عزیز میں یہ صورت حال طویل عرصے سے جاری ہے کہ طریق کار کی طوالت اور عدالتوں سے دیئے جانے والے اسٹے آرڈرز کے باعث ٹیکس مقدمات التوا کے شکار رہتے ہیں جن کے باعث کئی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ مجوزہ ترامیم قومی اسمبلی سے منظور ہونے کے بعد امید کی جاسکتی ہے کہ ٹیکس مقدمات کے فیصلوں میں انصاف کے تمام تقاضے بھی ملحوظ رہیں گے اور فنی یا موشگافیوں کی بنیاد پر معاملات زیادہ عرصے تک معلق نہیں رہیں گے۔ ٹیکس مقدمات کے فیصلوں میں التوا کی صورتحال ایسی کیفیت میں نظر آرہی ہے جب ٹیکس دینے والوں کی تعداد اس تعداد سے بہت کم ہے جو حقیقتاً ہونی چاہئے۔ ہماری معیشت کے کئی شعبے تاحال ٹیکس نیٹ سے باہر نظر آتے ہیں یا ان سے بہت کم ٹیکس حاصل ہوتا ہے۔ کوشش کی جارہی ہے کہ زراعت، ہائوسنگ، سروسز اور دوسرے شعبوں کے لوگوں کی بڑی تعداد کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے تاکہ سڑکوں، پلوں، ڈیموں کی تعمیر سے لیکر تعلیمی، تربیتی اور فلاحی کاموں تک کیلئے وسائل مجتمع ہوں۔ حکومتی مشینری درست طور پر کام کرے اور صنعت و تجارت سمیت قومی زندگی کے ہر شعبے میں ترقی و نکھار آئے۔ ٹیکس دہندگان کی تعداد میں ممکنہ اضافے کے بعد ٹیکس مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر کا سلسلہ جاری رہا تو پریشان کن صورتحال پیدا ہوسکتی ہے۔ اس لئے ٹیکس مقدمات کی کارروائی میں آسانی اور سبک روی کا پہلو برقرار رکھنے کی زیادہ ضرورت ہے۔ یہ بات بھی اپنی جگہ قابل غور ہے کہ جس ملک کی آبادی 25کروڑ ہو، وہاں ٹیکس دہندگان کی تعداد افسوسناک حد تک کم اور ملکی وسائل پر قابض اشرافیہ براہ راست ٹیکس دینے سے گریزاں محسوس ہو۔ بجلی، گیس، پیٹرول کے نرخوں اور لیوی کے نتیجے میں ہونے والی گرانی اور افراط زر بالواسطہ ٹیکس کی سب سے ہولناک شکل ہے۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جب ہم سے ٹیکس نیٹ بڑھانے کا مطالبہ کرتے ہیں تو اس کا مطلب ایسی صورتحال کی طرف جانا ہے جس میں بالواسطہ ٹیکس سے اجتناب ہو۔ ہمارے ٹیکس وصول کرنے والے اداروں اور محکموں میں اس وقت کاغذ پر نظر آنے اور کاغذ پر نظر نہ آنے والے ٹیکس کی صورت میں جو کیفیت نظر آتی ہے، اسے بدلنا ہوگا۔ یہ کام سیاسی عزم سے ہی ممکن ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ آنے والے وقت میں ہم اپنے ٹیکس کے نظام کو اصول پسندی اور دیانت کے سانچے میں ڈھلتا ہوا دیکھیں۔ توقع کی جانی چاہئے کہ مذکورہ قانونی ترمیمی بل جلد قومی اسمبلی میں پیش کردیا جائے گا۔