غیور قومیں دنیا میں ہمیشہ قائم و دائم رہتی ہیں

April 22, 2024

روایت ہے کہ کمزور اور خود داری سے عاری لوگ کسی طاقتور شخص کے پالتو کتے کو پتھر مارنا تو درکنار، جھڑکنے کی جرات بھی نہیں کرسکتا لیکن اس سپر پاور کے "بالکے" کو خودسری کے جواب میں تھپڑ رسید کرنا واقعتاً جرات اور بہادری کا اعلیٰ درجہ قرار دیا جاسکتا ہے کیونکہ یہ تھپڑ اس "بالکے" کے منہ پر نہیں بلکہ اس طاقتور کے چہرے پر رسید ہوا جس کی شہ پر یہ بالکا دنیا بھر میں فتور اور تباہی مچا رہا ہے۔ یہی ایران کی غیور قوم نے کیا کہ اس "بالکے" کو زناٹے دار تھپڑ مار کر اس کے "آقا"کو پیغام دیا کہ ہر سوراخ میں انگلی ڈالنا اس کے لئے بڑے نقصان کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ ایران نے اپنے اس اقدام سے صرف ایران کا ہی نہیں، پورے عالم اسلام کا سر فخر سے بلند کردیا جبکہ باقی تمام "محکوم" اسلامی ممالک اپنی اپنی مجبوریوں کو دامن میں سمیٹے ذہنی الجھاؤ کا شکار ہیں کیونکہ انہیں حکومت کی اسرائیل دوست پالیسی کے ردعمل کے طور پر عوام کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا ہے۔دوسری جانب تحریک انصاف کو ماننے والے عوام جوغزہ میں اسرائیل کی جانب سے جاری نسل کشی کی مہم کے خلاف غزہ کی عوام کے ساتھ کھڑا ہونا چاہتے ہیں لیکن پی-ٹی-آئی کی قیادت کی جانب سے اختیار کی جانے والی پراسرار اور معنی خیز خاموشی اور بے حسی پر ندامت اور پشیمانی کا شکار ہیں۔پارلیمان کی تاریخ میں شائد یہ پہلا موقع ہے جب پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے صدر مملکت کے خطاب کے دوران صدر کے بارے میں غیر پارلیمانی اور غیر مہذب رویہ اختیار کرنے کی پاداش میں سپیکر قومی اسمبلی نے پی-ٹی-آئی کے دو ارکان قومی اسمبلی جمشید دستی اور جاوید اقبال کی رکنیت عارضی طور پر معطل کردی جن کو پارٹی کے بعض ارکان کی جانب سے پارٹی قائد کی خواہش کے مطابق عمل کرنے پر خراج تحسین پیش کیا گیا۔ناقدین کا موقف ہے کہ تحریک انصاف کی قیادت نے ہر جنرل الیکشن کے نتائج تسلیم کرنے سے انکار کیا سوائے 2018 کے نتائج کے کیونکہ ان انتخابات میں دھاندلی یا رد و بدل تحریک انصاف کو اقتدار میں لانے کے لئے ہی ہوئی تھی۔ 35 پنچروں کے خودساختہ بیانیہ کو سوشل میڈیا پراس قدر پھیلایا گیا کہ یہ تحریک کی صورت اختیار کر گیا اور عوام اس جھوٹ کو سچ سمجھنے لگے لیکن اگلے انتخابات سے قبل عمران خان نے سرعام یہ تسلیم کیا کہ 35پنچروں والا بیانیہ "سیاسی سٹنٹ" تھا۔2018کے انتخابات میں عمران خان نے اعلانیہ اسٹبلشمینٹ کا کندھا استعمال کیا اور کھلی دھاندلی کے ذریعے اقتدار حاصل کیا لیکن غلط سیاسی حکمت عملی کے نتیجے میں عدم اعتماد منظور ہونے پر اقتدار کھو دیا لیکن تحریک عدم اعتماد کی کارروائی کے دوران یہ تحریک رکوانے یا مسترد کرانے کے لئے سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے ذریعے آئین کی دھجیاں بکھیریں لیکن کامیابی نصیب نہیں ہوئی توسیاسی اور آئینی بحران پیداکرنے کے لئے پنجاب اور خیبرپختون خواء اسمبلیاں تحلیل کر دیں جس کے بعد پارٹی کے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان نے استعفے دے دئیے جس کا نقصان تحریک انصاف کو ہوا کیونکہ تحریک انصاف ہرطرح سے اسمبلیوں سے باہر ہوگئی۔2024کے انتخابات میں فارم 45 اور 47 کا شوشہ پوری شدومد سے چھوڑا کیا کے خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہوئے۔ الزامات، بحران اور شورش کی سیاست، عوام میں بے چینی قائم رکھنے بشریٰ بی بی کو زہر دئیے جانے کے الزام کی سستی اور غیر اخلاقی سیاسی بلیک میلنگ کا سلسلہ طویل عرصہ تک جاری رہا لیکن عدالت کی جانب سے مکمل چیک اپ کے حکم پر خاموشی طاری ہو گئی۔جس کے نتیجے میں بشریٰ بی بی کے ذاتی معالج سمیت تین ڈاکٹروں کی نگرانی میں ان کا تفصیلی میڈیکل چیک اپ اور ٹیسٹ ہوئے لیکن زہر دئیے جانے کے الزامات کی تصدیق نہ ہوسکی اور رپورٹیں اور ٹیسٹ کلیئر قرار دئیے جانے کے بعد بشریٰ بی بی نے طبی معائینہ شوکت خانم کینسر ہسپتال سے کرنے کی کا مطالبہ کردیا۔سیاسی سیانے کہتے ہیں کہ تحریک انصاف کو باہر سے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا لیکن اس پارٹی میں اتنی دراڑیں پڑ چکی ہیں اس کی پر شکوہ عمارت کسی وقت بھی زمیں بوس ہو کر ٹکڑوں میں بکھرسکتی ہے کیونکہ پارٹی قائد نے اپنی "حاکمیت" قائم رکھنے کے لئے غیرسیاسی اور حقائق کے منافی فیصلے کر کے پارٹی کی تنظیمی ڈھانچہ میں دراڑیں ڈالنے کی بنیاد رکھ دی اور پرانی اور نظریاتی قیادت کو نظرانداز کرکے پارٹی کی باگ دوڑ نئے شامل ہونے والے وکلاء کے سپرد کردی جو باہمی اختلافات اورتقسیم کا باعث بن رہی ہے۔جبکہ پارٹی کا دوسرا عہدہ وراثت میں آمرانہ سوچ رکھنے اور اب جمہوری روایات کے علمبردار عمر ایوب خان کے حوالے کردیا جس کے دادا وقت کے آمر جنرل ایوب خان نے اپنے اقتدار کو دوام دینے کے لئے محترمہ فاطمہ جناح کو غدار قرار دے کر قومی جرم کا ارتکاب کیا تھا! کیا جمہوریت کا لباس زیب تن کرنے والی عمر ایوب اپنے دادا چیف ماشل لاء ایڈمنسٹرٹرجنرل ایوب خان کے اس اقدام کی مذمت کر سکتے ہیں؟ یا ان کے نزدیک وقت اور حالات کے مطابق سیاسی نظریات یا عقائد تبدیل کرنا جائز فعل ہے۔