سامان سو برس کا

April 23, 2024

بچپن سے ایک عادت کی مجھے لت پڑی ہوئی ہے، لوگوں کو میں نے بیزار کردیا۔ بچپن کی لت کو بڑھاپے میں جاکر کچھ کچھ کنٹرول کرلیا ہے۔ لوگ اب مجھ سے بیزار نہیں ہوتے۔ میں نے محسوس کیا ہے کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی یعنی آگاہی کی حرفت نے میرے جیسے بھٹکے ہوئوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ اب پوچھ گچھ کو اس قدر برا سمجھا نہیں جاتا، جس قدر اگلے وقتوں میں برا سمجھا جاتا تھا۔ اب آپ بغیر جھجک کے پوچھ سکتے ہیں کہ میری شادی کی لاٹری نکلے گی یا نہیں نکلے گی۔ چڑچڑی ساس سے میرا پیچھا کب چھٹے گا۔ غصہ میرے باس Boss کی ناک پر براجمان رہتا ہے۔ وہ کبھی بھی غصہ میں آسکتے ہیں۔ غصہ میں آنے کے بعد وہ چیزوں کے ساتھ ساتھ ماتحتوں کو بھی توڑ پھوڑ دیتے ہیں۔

ماتحت ان کے خلاف احتجاج اس لیے نہیں کرتے کہ ان کو ملنے والی تنخواہ دیگر غیر سرکاری اداروں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہوتی ہے۔ عید، کرسمس، ہولی اور دیوالی کے موقع پر سب ملازمین کو بھاری بھر کم بونس دیتے ہیں۔ کسی کی سمجھ میں نہیں آتا کہ ایسے باس سے محبت کی جائے یا نفرت کی جائے۔ مجھے غیب کے علم کی بھی لت لگی ہوئی تھی۔ مجھے نجومی، جوتشی، ماہر فلکیات، پیشن گوئی کرنے والے اور دست شناس بڑے پہنچے ہوئے لوگ لگتے تھے۔ مجھے اگر بھنک پڑ جاتی تھی کہ فلاں صاحب پامسٹ ہیں، میں موقع ملتے ہی اس کے سامنے ہتھیلی کھول کر بیٹھ جاتا تھا اور کہتا تھا۔ ’’میں اپنے ماضی سے واقف ہوں، میں جانتا ہوں کہ گزرے ہوئے ایام میں، میں نے کیا گل کھلائے تھے۔ مجھے بتلائو کہ آنے والے میرے ایام کیسے ہوں گے؟

میں آنے والے وقتوں کے بھید کے بارے میں جاننا چاہتا ہوں۔ پردہ ہٹاکر میں مستقبل میں جھانکنا چاہتا ہوں۔ ایک مرتبہ ایک سائیں بابا نے مجھے تنبیہ کرتے ہوئے کہا تھا۔ ’’باز آجا، ورنہ بہت پچھتائے گا۔‘‘

اس کے بعد کافی حد تک میں باز آگیا ہوں۔ باز اس لیے آگیا ہوں کہ میں مزید پچھتانا نہیں چاہتا۔ یادوں کے کباڑ خانے میں پچھتانے کے لیے میرے پاس بہت کچھ ہے۔ اگر دس مرتبہ دوبارہ جنم لے کر میں واپس آتا رہوں اور سو سالہ زندگی پچھتاووں کی نذر کرتا رہوں، پھر بھی میرے پچھتاوے ختم نہیں ہوں گے۔ غلطیوں کے انبار تلے دبا ہوا ہوں، پوچھ گچھ کی علت سے بہت حد تک چھٹکارا پانے کے باوجود میں موت اور مرنے کے مراحل کے غیب کے بارے میں جاننا چاہتا ہوں۔ انسانی ذات کی لاکھوں برس کی تاریخ میں ایک مثال نہیں ملتی، جس میں مر جانے کے کچھ عرصے بعد مرنے والےنے بتایا ہو کہ مرنے کے بعد اس کے ساتھ کیا ہوا تھا۔ کن کن مراحل سے اس کو گزرنا پڑا تھا۔ ایک مثال نہیں ملتی۔ یہ صرف میرا تجسس نہیں ہے۔ بندوق کی نالی آپ کی کن پٹی پر رکھ کر میں آپ سے قبول کروانا نہیں چاہتا کہ آپ بھی میری طرح موت اور مرنے کے مراحل کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں۔ یہ ایک ایسا تجسس ہے جس نے دیکھی بھالی دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ ایک چھوٹا موٹا آپریشن کروانے سے پہلے مریض نے ڈاکٹر سے پوچھا۔ ’’ڈاکٹر صاحب، میں مر تو نہیں جائوں گا؟‘‘

’’وہ تو تمہیں ایک روز مرنا ہی ہے۔‘‘ ڈاکٹر نے کہا۔ ’’ایک روز ہم سب کو مر جانا ہے۔‘‘

کینسر کے ایک مریض نے ڈاکٹر سے پوچھا۔ ’’ڈاکٹر صاحب میرے پاس کتنا وقت باقی ہے؟‘‘

ڈاکٹر نے شعر میں جواب دیا۔ ’’آگاہ اپنی موت سے کوئی بشر نہیں.... سامان سو برس کا پل کی خبر نہیں۔‘‘

نثر کا جواب نظم میں پڑھ کر مجھے تعجب ہوا تھا۔ بھلے ہی عام طور پر آدمی اپنی موت سے آگاہ نہ ہو، معاشرے کے کرتا دھرتا ایک شخص کو اس کے مرنے کے دن اور مقررہ وقت سے آگاہ کردیتے ہیں۔ اس شخص کو طے شدہ وقت کے مطابق اس دنیا سے کوچ کرنا پڑتا ہے۔

تب آپ کو کوئی شاعر نہیں کہتا کہ’’ آگاہ اپنی موت سے کوئی بشر نہیں... سامان سو برس کا پل کی خبر نہیں۔‘‘ ذوالفقار علی بھٹو کو مقررہ دن اور وقت کے مطابق اس دنیا سے جانا پڑا تھا، جس کا تعین جنرل ضیاء الحق نے کردیا تھا۔ کوئی نہ کوئی وجہ ضرور ہے کہ قطعی بے خبر ہونے کے باوجود لوگ سو برس کا سامان سمیٹ کربیٹھ جاتے ہیں۔

مگر ابراہیم ناتواں نے کئی سو برسوں کے لیے سامان سمیٹ لیا ہے۔ کسی نے ابراہیم ناتواں کو جگ مشہور شعر سے آگاہ کیا، سامان سو برس کا، پل کی خبر نہیں۔ ابراہیم ناتواں نے جواباً کہا تھا۔ ’’میں جمہوریت کو آتے ہوئے دیکھنا چاہتا ہوں۔‘‘

ہنستے ہوئے ناتواں کو کسی نے بتایا۔ ’’جب تک سردار اور وڈیرے اسمبلیوں کو اپنی موروثی ملکیت سمجھنا ترک نہیں کریں گے تم جمہوریت کو آتے ہوئے کبھی نہیں دیکھوگے۔‘‘

ابراہیم ناتواں نے مرجھائے ہوئے لہجے میں کہا۔

’’اس کا مطلب ہے کہ لوگ قیامت تک کچرے کے ڈبوں میں ووٹ ڈالتے رہیں گے۔‘‘

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)