دھرنا رپورٹ مسترد

May 23, 2024

2017 میں مسلم لیگ ن حکومت کے دوران تحریک لبیک پاکستان(ٹی ایل پی)نے اسلام آباد کی جانب مارچ کرتے ہوئے جڑواں شہروں کے سنگم فیض آباد کے مقام پر تین ہفتے دھرنا دیے رکھا ۔ حکومت نے 25نومبر کو ایک ناکام آپریشن کیا جس کے بعد وہ مزید دبائو میں آ گئی۔ کئی شہروں میں سڑکیں بند کر دی گئیں، موٹر وے پر ٹریفک بری طرح متاثر ہوئی یہی صورتحال ملک کی دیگر شاہراہوں کی تھی۔ دوسری طرف لاہور میں ہونے والا دھرنا، جو بعد میں کسی نتیجے پر پہنچے بغیر ختم کر دیا گیا، اس دوران 27نومبر کو آئی ایس آئی کی ثالثی میںجن شرائط پر اسےختم کرنے کا راضی نامہ ہوا، ان میں سے ایک وفاقی وزیر قانون زاہد حامد کا استعفیٰ تھا۔بعد ازاں سپریم کورٹ نے دھرنے کا از خود نوٹس لیتے ہوئے کیس کی سماعت کی، جس کے مکمل ہونے پر نومبر 2018میں فیصلہ محفوظ کیا اور 6فروری2019 ءکو سنایاگیا۔فیصلے میں قرار دیا گیا تھا کہ قانون شکنی پر سزا نہیں ہوگی تو ذمہ دار افراد کا حوصلہ بڑھے گا اور یہ کہ دھرنے کے دوران ملک کو روزانہ 88ارب روپے سے زیادہ جبکہ 16کروڑ 39لاکھ52ہزار روپے مالیت کا املاک کو نقصان پہنچا۔ عدالت نے رولنگ دی کہ سانحہ 12مئی کے ذمہ دار حکومتی اہل کاروں کو سزا نہ ملنے سے غلط روایت پڑی اور لوگوں کو اپنے مقصد کیلئے تشدد کی راہ اختیار کرنے کا حوصلہ ملا۔ عدالت نے اپنے احکامات پر عمل درآمد کیلئے فیصلے کی کاپی حکومت پاکستان، سیکرٹری دفاع،سیکرٹری داخلہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کےسربراہان کو بھجوانے کی ہدایت کی تھی۔نومبر 2023میں نگران حکومت نے سابق انسپکٹر جنرل پولیس خیبر پختونخوا سید اختر علی شاہ کی سربراہی میں ایڈیشنل سیکرٹری داخلہ خوشحال خان اور سابق آئی جی پولیس اسلام آباد طاہر عالم خان پر مشتمل تین رکنی تحقیقاتی کمیشن تشکیل دیا اور اسے دو ماہ میںفیض آباد دھرنے کے ذمہ داران کا تعین کرتے ہوئے رپورٹ عدالت میں پیش کرنے کی ہدایت کی ، جس پر عمل کرتے ہوئےکمیشن نے جو رپورٹ مرتب کی ،اس میں دیگر عوامل کے علاوہ انٹیلی جنس ایجنسیوں کا کام ریگولیٹ کرنے کیلئے قانون سازی اور قواعد و ضوابط کا مسودہ تیار کرنے کی سفارش کی گئی،نیز پرتشدد انتہا پسندی کے خلاف زیرو ٹالرنس پر بھی زور دیااور حکومت کو خطرے کی بنیادی وجوہات سے نمٹنے کیلئے اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کا مشورہ دیاگیا۔رپورٹ میں کہا گیا کہ سیاسی رہنمائوں اور خاص طور پر حکومت پنجاب کی معاملہ فہمی میں کمی کی وجہ سے دھرنے کو حوصلہ ملا۔متذکرہ رپورٹ پروفاقی کابینہ کو منگل کے روز اٹارنی جنرل آف پاکستان کی جانب سے تفصیلی بریفنگ دی گئی۔ وفاقی کابینہ نے اس پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے قرار دیا کہ تحقیقاتی کمیشن نے اپنے ٹرمز آف ریفرنس (ٹی او آرز)کے مطابق کام نہیں کیا۔وفاقی کابینہ نے اس حوالے سے خصوصی کمیٹی قائم کرنے کی ہدایت کی جو از سر نو اپنی سفارشات تیار کرے گی۔عدالت عظمیٰ بھی قرار دے چکی ہے کہ تحقیقاتی کمیشن رپورٹ میں ٹرمز آف ریفرنس پر توجہ نہیں دی گئی اور اس میں غلط اندازوں سے کام لیا گیا۔عدالت عظمیٰ نے آبزرویشن دی کہ رپورٹ جانبدارانہ تھی اورکمیشن نے عدالت کی طرف سے جاری کئے گئے احکامات اور فیصلے کے دیگر پہلوئوں پر غور نہیں کیا۔تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ پر حکومت کے وہی تحفظات ہیں جن کا سپریم کورٹ اپنے فیصلے میں اظہار کرچکی ہے۔حکومت کو سپریم کورٹ کے 6فروری2019کے احکامات کی روشنی میں اس معاملے کو بہرحال منطقی انجام تک پہنچانا ہے تاکہ آئندہ ایسی صورتحال کا اعادہ نہ ہو،اس میں مزید تاخیر کی گنجائش نہیں۔