حضرت ابراہیم ؑ نے کس بیٹے کا انتخاب کیا تھا؟

June 16, 2024

’’اے پروردگار، مجھے ایک بیٹا عطا کر جو صالحوں میں سے ہو۔ (اِس دعا کے جواب میں) ہم نے اُس کو ایک حلیم (بردبار) لڑکے کی بشارت دی۔ وہ لڑکا جب اُس کے ساتھ دوڑ دھوپ کرنے کی عمر کو پہنچ گیا تو (ایک روز) ابراہیمؑ نے اُس سے کہا۔ ’بیٹا، میں خواب دیکھتا ہوں کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں، اب تو بتا تیرا کیا خیال ہے ؟‘ اُس نے کہا ،’ابا جان، جو کچھ آپ کو حکم دیا جا رہا ہے اسے کر ڈالیے، آپ ان شا اللہ مجھے صابروں میں سے پائیں گے۔‘ آخر کو جب اِن دونوں نے سر تسلیم خم کر دیااور ابراہیمؑ نے بیٹے کو ماتھے کے بل گرا دیا اور ہم نے ندا دی کہ ’اے ابراہیمؑ تو نے خواب سچ کر دکھایا، ہم نیکی کرنے والوں کو ایسی ہی جزا دیتے ہیں ۔یقیناً یہ ایک کھلی آزمائش تھی ۔‘ اور ہم نے ایک بڑی قربانی فدیے میں دے کر اِس بچے کو چھڑا لیا اور اس کی تعریف و توصیف ہمیشہ کیلئے بعد کی نسلوں میں چھوڑ دی۔ سلام ہے ابراہیمؑ پر۔ ہم نیکی کرنے والوں کو ایسی ہی جزا دیتے ہیں۔ یقیناً وہ ہمارے مومن بندوں میں سے تھا۔ اور ہم نے اسے اسحاقؑ کی بشارت دی، ایک نبی صالحین میں سے اور اسے اور اسحاقؑ کو برکت دی اب ان دونوں کی ذریّت میں سے کوئی محسن ہے اور کوئی اپنے نفس پر صریح ظلم کرنے والا ہے۔‘‘ (قرآن، سورۃ الصفات ، آیت 100 تا 113)۔ ’’اِن باتوں کے بعد یوں ہوا کہ خدا نے ابراہمؔ کو ازمایا اور اسے کہا کہ اے ابراہمؔ! اُس نےکہا میں حاضر ہوں ۔تب اُس نے کہا کہ تو اپنے بیٹے اِضحاق کو جو تیرا کلوتا ہے اور جسے تو پیار کرتا ہے ساتھ لے کر موریاہؔ کے ملک میں جا اور وہاں اسے پہاڑوں میں سے ایک پہاڑ پر جو میں تجھے بتاؤں گا سوختنی قربانی کے طور پر چڑھا...اور ابراہم ؔ نے سوختنی قربانی کی لکڑیاں لے کر اپنے بیٹے اِضحاق پر رکھیں اور آگ اور چھری اپنے ہاتھ میں لی اور دونوں اکٹھے روانہ ہوئے۔ تب اِضحاق نے اپنے باپ ابراہم ؔ سے کہا ...آگ اور لکڑیاں تو ہیں پر سوختنی قربانی کے لیے برّہ (بھیڑ بکری کا چھوٹا بچہ) کہاں ہے؟ ابراہم ؔ نے کہا اے میرے بیٹے خدا آپ ہی اپنے واسطے سوختنی قربانی کے لیے برّہ مہیا کرلے گا ۔ سو وہ دونوں آگے چلتے گئے۔ اور اُس جگہ پہنچے جو خدا نے بتائی تھی۔ وہاں ابراہمؔ نے قربان گاہ بنائی اور اُس پر لکڑیاں چُنیں اور اپنے بیٹے اِضحاق کو باندھا اور اسے قربان گاہ پر لکڑیوں کے اوپر رکھا۔ اور ابراہم ؔ نے ہاتھ بڑھا کر چھری لی کہ اپنے بیٹے کو ذبح کرے۔ تب خدا وند کے فرشتہ نے اسے آسمان سے پکارا کہ اے ابراہمؔ اے ابراہمؔ! اُس نے کہا میں حاضر ہوں۔ پھر اُس نے کہا کہ تو اپنا ہاتھ لڑکے پر نہ چلا اور نہ اُس سے کچھ کر کیونکہ میں اب جان گیا کہ تو خدا سے ڈرتاہے اِس لیے کہ تو نے اپنے بیٹے کو بھی جو تیرا اکلوتا ہے مجھ سے دریغ نہ کیا۔ اور ابراہم ؔ نے نگا ہ کی اور اپنے پیچھے ایک مینڈھا دیکھا جس کے سینگ جھاڑی میں اٹکے تھے۔ تب ابراہم ؔ نے جا کر اُس مینڈھے کو پکڑا اور اپنے بیٹے کے بدلے سوختنی قربانی کے طور پر چڑھایا...‘‘ (عہد نامہ عتیق ، کتاب پیدایش، باب 22)۔پہلی روایت قرآن نے بیان کی ہے اور دوسری بائبل میں لکھی ہے۔ دونوں روایات کی روح میں کوئی خاص فرق نہیں، تاہم مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ حضرت ابراہیمؑ نے اپنے بیٹےحضرت اسماعیلؑ کو قربان کرنے کی نیت کی تھی جبکہ مسیحی ایسا نہیں مانتے ،اُن کے مطابق حضرت اسحاق ؑ اکلوتے بیٹے تھے جو حضرت سارہ ؑ سے تھے، اور بائبل میں بھی اُنہی کا ذکر ہوا ہے اِس لیے حضرت ابراہیم ؑ نے قربانی کیلئے حضرت اسحاق ؑ کو ہی ساتھ لیا تھا۔ لیکن اسی بائبل میں، جہاں ابراہمؔ اور اضحاق کا ذکر ہے ،اُس سے پہلے ایک پیراگراف کا عنوان ہے ’’ہاجرہ اور اسماعیل کو گھر سے نکالا جاتا ہے۔‘‘ اِس باب کی تفصیل میں جانا مناسب نہیں ہے،صرف اتنا کہنا کافی ہے کہ یہاں خدا حضرت ابراہیم ؑ کو بشارت دیتا ہے کہ اُن کی نسل حضرت اسحاق ؑ اور حضرت اسماعیل ؑ دونوں سے چلے گی۔ دوسری جانب خود مسلمانوں کے درمیان بھی یہ بحث خاصی پرانی ہے کہ قربانی کیلئے حضرت اسحاق ؑ یا حضرت اسماعیل ؑ میں سے کس کا انتخاب کیا گیا تھا، اور اِس بحث کی وجہ یہ ہے کہ خود قرآن پاک میں جہاں یہ واقعہ بیان ہوا ہے وہاں حضرت اسماعیل ؑ کا نام نہیں آیا بلکہ فقط ’بیٹے‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ اگلی آیات میں حضرت ابراہیم ؑ کے بیٹے کے طور پر حضرت اسحاق ؑ کا نام آیا ہے۔ اِس ضمن میں جنابِ خورشید ندیم سے رجوع کیا تو انہوں نے فرمایا کہ امام حمید الدین فراہی نے اِس پر ایک کتاب لکھی تھی جس کا ترجمہ مولانا امین احسن اصلاحی نے ’ذبیح کون ہے؟‘ کے نام سے کیا تھا۔ کمال شفقت سے کام لیتے ہوئے انہوں نے اِس کتاب کے متعلقہ صفحات مجھے ارسال کر دیے۔ اِس کتاب میں مولانا نے دلائل کے انبار سے یہ ’ثابت‘ کیا ہے کہ قربان ہونے کے اصل حقدار حضرت اسماعیل ؑ تھے۔ مثلاً ایک دلیل جو انہوں نے دی وہ یہ تھی کہ قربانی کا واقعہ حضرت اسحاقؑ کی پیدائش سے پہلے پیش آیا تھا۔ قطع نظر اِس بحث کے، یہودیوں، مسیحیوں اور مسلمانوں، تینوں میں قربانی کا تصور موجود ہے، فرق صرف یہ ہے کہ ہیکل ِ دوم (یہودیوں کی مرکزی عبادت گاہ جہاں قربانی کی رسم ادا کی جاتی تھی اور ’حج‘ کی طرز کے اجتماعات ہوتے تھے) کی تباہی کے بعد یہودیوں نے قربانی کرنا ترک کر دیا ہے، جبکہ مسیحیوں کا عقیدہ ہے کہ یسوع ؑ نے مصلوب ہو کر عظیم قربانی دی جس کے بعد مسیحیوں کو انفرادی طور پر قربانی دینے کی ضرورت نہیں کیونکہ سیدنا مسیح ؑ نے اُن کے گناہوں کا کفارہ ادا کر دیا، دوسری طرف مسلمان،حضرت اسماعیل ؑ کی عظیم قربانی کی یاد میں عید الاضحی مناتے ہیں اور حج ادا کرتے ہیں۔ دیکھا جائے تو اِن تینوں ابراہیمی ادیان کی روح ایک ہے، صرف جزیات میں فرق ہے، مثلاً ہم مسلمانوں کے نزدیک حضرت اسحاق ؑ بھی برگزیدہ پیغمبر ہیں اور یعقوب ، موسیٰؑ اور حضرت مسیح ؑ بھی، اور قرآن میں تو جگہ جگہ لکھا ہے کہ تورات اور انجیل میں ہمارے لیے ہدایت اور رہنمائی ہے۔ اسی طرح مسلمانوں کے سیدنا مسیح ؑ کے بارے میں جو عقائد ہیں، جیسے کہ حضرت مریم ؑ کے بطن سے اُن کا جنم، مصلوب ہو کر اٹھایا جانا اور پھر واپس آنا، وہی ہیں جو خود مسیحیوں کے ہیں۔ آج لاکھوں مسلمان حج ادا کرنے مکہ مکرمہ میں جمع ہیں، حضرت ابراہیم ؑ کی اتباع میںیہ سب قربانی کا فریضہ بھی ادا کریں گے مگر ضروری نہیں کہ تمام مسلمانوں کی قربانی قبول بھی ہو۔ حضرت ابراہیم ؑ نے جب مینڈھا قربان کیا تھا تو مقصد اُس کا خون اورگوشت خدا تک پہنچانا نہیں تھا بلکہ یہ ثابت کرنا تھا کہ خدا کی اطاعت سے بڑھ کر اور کچھ نہیں۔ سو، جو مسلمان اِمسال قربانی کر رہے ہیں ،کیا وہ دِل پر ہاتھ رکھ کر یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ خدا اور اُس کے رسول ﷺ کی اطاعت بھی کرتے ہیں؟ اگر اِس سوال کا جواب نفی میں ہے تو پھر ایسی قربانی کا کوئی فائدہ نہیں!