3 یورپی ممالک: فلسطینی ریاست تسلیم

May 24, 2024

یورپ کے تین اہم ممالک کی جانب سے فلسطین کو بطور آزادریاست تسلیم کرنے اور28مئی سے اس اعلان پر عملدرآمد کے عزم پرجہاں دومختلف ومتضاد ردعمل سامنے آنا فطری امر ہے وہاں آنے والے دنوں میں خطے میں ہلچل بڑھنے کے امکان کو یکسر نظر انداز کرنا بھی ممکن نہیں۔ ناروے،آئرلینڈ اور اسپین کی جانب سے فلسطین کو25مئی سے بطورریاست تسلیم کرنے کے ردعمل میں اسرائیل نے تینوں ممالک سے اپنے سفیر واپس بلالئے ہیں اور اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو کا کہنا ہے کہ چند یورپی ممالک کا فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان دہشت گردی کا انعام ہے، فلسطین کی خودمختار ریاست دہشت گرد ریاست ہوگی۔ امریکی ایوان صدر وائٹ ہاؤس نےبھی فلسطین کو ریاست تسلیم کئے جانے کا فیصلہ ناقابل قبول قرار دیا ہے جبکہ فلسطینیوں اور ان کےحامی حلقوں کی جانب سے مذکورہ اعلان پر خوشی ومسرت کے جذبات کا اظہار کیا گیا ہے۔ ناروے کے وزیر اعظم جو ناس گہر اسٹور، اسپین کے وزیر اعظم پیڈروسینچز اور آئرلینڈ کے ہم منصب سائمن ہیرس کی طرف سے یہ اعلان پیش رفت ہے اس فیصلے کی جو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطین کو عالمی اداروں کی مکمل رکنیت دینے کے حوالے سے کیا ۔ اسپینی وزیر اعظم پیڈرو سینچر نے فلسطین کو تسلیم کرنے کے حق میں حمایت حاصل کرنے کےلئے کئی ملکوں کا دورہ کیا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ اس اقدام سے مشرق وسطیٰ میں دوریاستی حل کی کوششوں کوتقویت ملے گی جسے بنجامن نتن یاہو نے پس منظر میں دھکیل دیاتھا۔ اسپین کی نائب وزیر اعظم یولینڈاڈیاز کے مطابق فلسطین کی علامتی تسلیم کا اعلان مزید ٹھوس اقدامات کے لئے پہلے قدم کی حیثیت کا حامل ہوگا۔ آئرلینڈ کے وزیر اعظم ہیرس نے اس اقدام کو1919میں آئرش مملکت کے عالمی سطح پر تسلیم کئے جانے کے مماثل قرار دیا ہے۔ادھر فلسطین لبرل آرگنائزیشن(پی ایل او) نے اس اقدام کو تاریخی قرار دیا ہے، حماس نے اسے ’’ اہم قدم‘‘ اور فلسطینیوں کی ’’بہادرانہ مزاحمت‘‘ کا نتیجہ قرار دیا ۔ فلسطینی اتھاریٹی کے بموجب اقوام متحدہ کے193ارکان میں سے142پہلے ہی فلسطینی ریاست کو تسلیم کرچکے ہیں۔ فرانس کا کہنا ہے کہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنا’’ ممنوع ‘‘نہیں۔لیکن فی الحال ایسا کرنے کا مناسب موقع نہیں ہے۔ دوطرفہ ریاستی حل کے حامی جرمنی کا نقطہ نظر یہ ہے کہ فلسطین کےلئے اس طرح کی پہچان تنازع کے فریقین کے درمیان براہ راست مذاکرات کے نتیجے میںہونی چاہیے۔ مبصرین تین یورپی ملکوں کے مذکورہ اعلان کو ایسا موڑ قرار دیتے ہیں جو فلسطینیوں کی بہادری، جرأت اور مظلومیت کے باعث سامنے آیا ہے۔1990میں ناروے حکومت کی فلسطین ڈپلومیسی کے تحت اوسلو میں اسرائیل اور فلسطین کے درمیان جو مذاکرات ہوئے ان کے نتیجے میں یہ اعلان سامنے آیا تھا کہ اسرائیل اور فلسطین دوآزاد ریاستیںہونگی۔ تل ابیب کی طرف سے معاہدےکی خلاف ورزی کی گئی ،ریاستی آزادی کو جزوی کردیا گیا،فلسطینیوں پرصہیونی آبادکار مسلط کئے گئے ،انہیں ایذا دینے کےایسے انتہائی اقدامات کئے گئےجنہوں نےدنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ اسرائیل کے سب سے بڑے حامی ملک امریکہ کے ایوان صدر کے عملے سمیت اہم افسروں کے احتجاجی استعفے سامنے آچکے ہیں۔ امریکی یونیورسٹیوں میں طلبہ نے خیمے لگاکر احتجاج کا سلسلہ جاری رکھا ، بیشتر ممالک میں فلسطینیوں کے حق میں ایسے مظاہرے کئے جارہے ہیں، جن میں یہودی بھی شامل ہیں۔فلسطینیوں کی بظاہر لاحاصل نظر آنے والی اس جدوجہد کا نکتہ کمال ان کی مظلومیت وثابت قدمی ہے۔ مظلومیت وہ نظر نہ آنے والا ہتھیار ہے جو دنیا میں صدیوں سے چلنے والی انقلابی تحریکوں کی کامیابی کا ذریعہ بنا ہے۔ فلسطینی عوام کی حصول ِحق کی جنگ یہی راستہ اختیار کرتی محسوس ہورہی ہے۔ تین یورپی ملکوں کا حالیہ فیصلہ بارش کا پہلا قطرہ ہے جس سے عالمی امن کی راہیں ہموار ہونگی۔