‎انڈین انتخابات اور مودی سرکار؟‎

May 25, 2024

‎دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھارت کے انتخابات اس وقت پوری دنیا میں زیر بحث ہیں جن میں ایک ارب چالیس کروڑ عوام اور اٹھانوے کروڑ ساٹھ لاکھ ووٹرز اپنے نمائندوں کا چناؤ کر رہے ہیں جو سات مراحل پر مشتمل ہے، آخری مرحلہ یکم جون کو مکمل ہونا ہے اور انتخابی نتائج کا اعلان 4جون کو ہو گا ۔ایک طرف بی جے پی اور این ڈی اے کے رہنما نریندرمودی ہیں اور دوسری جانب کانگریس اور اس کی چھبیس پارٹی اتحادی ’’انڈیا‘‘ ہے یعنی INTEGRATED NATIONAL DEMOCRATIC & INCLUSIVE ALLIANCE جس کی عملی قیادت راجیو کے بیٹے اور آنجہانی اندرا گاندھی کے پوتے راہول گاندھی کر رہے ہیں۔‎طویل انتخابی مہم جتنی بھی پرزور چلی ہے مگر نریندر مودی کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے پچھلی مرتبہ ان کا نعرہ تھا ’’اب کی بار مودی سرکار‘‘ مگر اس مرتبہ کئی قدم آگے بڑھتے ہوئے بی جے پی کا نعرہ ہے ’’اب کی بار، چار سو پار ‘‘ 543کے لوک سبھا ایوان میں بی جے پی چار سو سیٹیں جیت پاتی ہے یا نہیں مگر اس امر میں کوئی اشتباہ نہیں کہ موجودہ الیکشن 2024ء میں مودی اپنے سابقہ دونوں ادوار الیکشن 2014ء اور 2019ء کے ریکارڈ توڑ دیں گے حالانکہ اس بار تقریباً پوری اپوزیشن نے ’’انڈیا‘‘ کے نام سے ایکا کر رکھا ہے اس چھبیس جماعتی الائنس کی تشکیل 18جولائی 2023ء کو بنگلور میں ہوئی تھی جس میں اگرچہ اروندکیجری وال، لالو پرشاد اور ممتا بینرجی جیسے لیڈران بھی شامل ہیں مگر گاندھی و نہرو فیملی کے ریفرنس سے بھارت کا جانا پہچانا چہرہ راہول گاندھی ہی ہر جگہ زیر بحث ہے لیکن سچائی یہ ہے کہ مودی کی عوامی پاپولیریٹی کے سامنے بشمول راہول سب کے چراغ ٹمٹما رہے ہیں ۔‎بلاشبہ اس وقت وزیر اعظم نریندر مودی کی شخصیت اور حکمرانی پر پورے انڈیا بالخصوص انڈین میڈیا میں سخت تنقید ہی نہیں تابڑ توڑ حملے بھی کئے جا رہے ہیں انہیں ہندوتوا کا پرچارک، مذہبی انتہا پسند بلکہ اس سے کہیں آگے بڑھ کر ہٹلر کا ہم پلہ ڈکٹیٹر ثابت کرنے کیلئےبھرپور کوشش کی جارہی ہے کہ جس کی سرکارنے ہند وستان میں اقلیتوں کا جینا محال کر ڈالا ہے۔ مہاتما گاندھی اور پنڈت نہرو کے سیکولر دیش میں ہندو نیشنل ازم اور مذہبی جنونیت کو بری طرح بھڑکایا جا رہا ہے اور اس کی کڑیاں گجرات کے ان ہندو مسلم فسادات سے ملائی جا رہی ہیں جب مودی وہاں کے مکھ منتری یا وزیر اعلیٰ تھے ۔‎حالیہ انتخابی مہم میں پردھان منتری جی کے بہت سے بیانات اچھالے جا رہے ہیں جن میں وہ ہندو بنیاد پرست ووٹ کے حصول کی خاطر کانگریس اور اس کی قیادت پر اعتراضات کرتے ہوئے کبھی انڈین مہیلائوں کے منگل سوتر پگھلانے اور گھس بیٹھیے مسلمانوں کی بھینٹ چڑھانے کی بات کرتے دکھائی دیتے ہیں اور کبھی زیادہ بچے پیدا کرنے کے چبھتے جملے کستے ہوئے مسلمانوں کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں ۔جو سرکاری رعائتیں نچلے طبقات جیسے کہ دلتوں کو ملنی چاہئے تھیں کانگریس بنگلور اور کیرالہ کی طرح وہ سارے دیش میں مسلمانوں کی بھینٹ چڑھا دے گی جامعہ ملیہ دہلی میں پہلے دلتوں کے بچے بھی ایڈمشن لے سکتے تھے لیکن کانگرس نے مسلم ووٹ کی خوشامد میں سیکولر ویلیوز کو نقصان پہنچاتے ہوئے مسلم کوٹہ پچاس فیصد تک بڑھا دیا وہ بارہا دبے لفظوں میں مسلمانوں بالخصوص کشمیری شدت پسندوں کو آتنک وادی اور پاکستان کو دہشت گردوں کے سہولت کار کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں جبکہ دوسری جانب ان کا دعویٰ ہے کہ بھڑکاؤ لوگ ہندووں میں بھی ہوتے ہیں، میں ملا مولوی کی بات نہیں کر رہا لیکن عام مسلم ذہن بدل رہا ہے، پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے کہ مودی اپنی راج نیتی کی خاطر بھارت میں منافرتوں کو بھڑکا کر جوڑنے کی بجائے توڑنے کا کام کر رہے ہیں۔ ان کے مخالفین کا الزام ہے کہ وہ غربت اور بیروزگاری سے لڑنے کی بجائے عوام کو باہم لڑوانے کیلئے سرگرم عمل ہیں اور میڈیا کا گلا گھونٹ دینا چاہتے ہیں اور اپنے آپ کو اوتار کے روپ میں پیش کرتے ہیں جنہیں ایشور نے خاص مشن کی خاطر سنسار میں بھیجا ہے، انکے الفاظ ہیں کہ پرماتما مجھے راستہ دکھا رہے ہیں، جب تک یہ مشن پورا نہیں ہو گا وہ مجھے واپس نہیں بلائیں گے ہندوستان کو اپنے عوام کیلئےہی نہیں دنیا کیلئے کچھ کرنا ہے۔‎منافرت بھرے پروپیگنڈے یا شور کے باوجود آئیے ہم جائزہ لیتے ہیں کہ ایک ارب چالیس کروڑ کی آبادی کےملک میں نریندر مودی پاپولر ترین رہنما ہیں تو اس کی کیا وجوہ ہیں؟(جاری ہے)