ادب پارے: جاں نثار اختر

July 11, 2018

علی گڑھ یونیورسٹی میں اسرار الحق مجاز اور جاں نثار اختر کلاس فیلور ہے۔ دونوں کے پاس انٹر میڈیٹ تک سائنس تھی۔ Zoologoyکی کلاس تھی۔ مینڈک پن کیے ہوئے ڈش میں دونوںکے سامنے رکھے تھے، جنہیں جاں نثار اور مجاز دوسرے کلاس فیلوز سے Dissectکرارہے تھے اور خود باتوںمیںمحو تھے۔ ان کے پروفیسر نے دیکھ لیا۔قریب آکر کہنے لگے: ’’میری سمجھ میں نہیں آتا کہ آپ دونوں نے سائنس کیوںلے رکھی ہے، آپ سے کس گدھے نے کہا تھا۔‘‘

جاں نثار اختر تو چپ رہے، مجاز نے برجستہ کہا: ’’کہا تو والد صاحب نے تھا۔‘‘

مجاز کی نظم ’’آوارہ‘‘ ’’ساقی ‘‘ کے سالنامے میںشائع ہوئی تھی، جس میں ’’رات ہنس ہنس کر یہ کہتی....‘‘ والے بند کا دوسرا مصرعہ یوںتھا۔

چل کسی گل زیر و گوہر بیز، کا شانے میں چل

اس کے کچھ دن بعد جاں نثار اختر نے ایک تین شعر کا قطعہ کہا، جس کا پہلا شعر تھا:

پھر ہوں اک شہنازِ لالہ رخ کے کاشانے میں آج

رات کٹ جائے گی پھر رنگین افسانے میں آج

مجاز کو ’’شہناز لالہ رخ‘‘ کی ترکیب بے حد پسند آئی۔ دوسرے دن مجاز نے جاںنثار اختر سے کہا: ’’اختر! میں نے تمہاری ’’شہنازِ لالہ رخ‘‘ کو چرالیا ہے اور چل کسی گل ریز گوہر بیز کاشانے میں چل‘‘ کی بجائے ’’چل کسی شہنازِ لالہ رخ‘‘ کی ترمیم کے ساتھ شائع ہوئی اور جب جاںنثار اپنا پہلا مجموعہ مرتب کرنے بیٹھے تو انہوںنے اپنا قطعہ مجاز کے نام سے منسوب کردیا اور خود اس ترکیب کو مجاز سے لینے کا الزام لے لیا۔

زہرہ سے جاں نثر اختر کا تعارف مجاز کی ہی معرفت ہوا تھا۔ مجاز کی نظموں میںیہ نام بار بار آتا ہے، مجاز نے اس سے عشق کیا، اس کے لیے زدوکوب سہی، اس کے لیے آوارہ و بدنام ہوا اور آخر کار اعصاب جواب دے گئیے۔ زہرہ ظاہر ہے جاں نثار اختر سے ذہنی طورپر تو متعارف تھیں۔ اب ذاتی تعارف ہوا تو اپنی آٹو گراف بک اٹھا لائیں اور جاںنثار کے آگے بڑھا دی۔ جاںنثار اختر نے شرارتاً اس پر جگر کا شعر لکھ کر قوسین میںجگر کا نام لکھا اور نیچے اپنے دستخط کردئیے۔

نظر فروز رہے، سامعہ نواز رہے

زہے مجاز کہ وہ زینت مجاز رہے

مجاز نے آٹو گراف بک لے کر دیکھنا چاہا کہ جاں نثار نے کیا لکھا ہے، لیکن آٹو گراف بک مجاز کو نہیںدیکھنے دی گئی۔

آل احمدسرور، جس زمانے میں لکھنو یونیورسٹی میںپروفیسر تھے، جاں نثار اختر اور صفیہ اختر ان سے ملنے کے لیے ان کے گھر گئے۔ ان کی بیگم صاحبہ بھی موجود تھیں۔ اردو تنقید نگاری موضوع بحث بن گئی۔ صفیہ کہنے لگیں:

’’میںسرور صاحب سے کہتی ہوں کہ آپ اس وقت تک اچھے تنقید نگار نہیں بن سکتے، جب تک ’’بہ حیثیت مجموعی‘‘ لکھنا نہیں چھوڑیں گے، نقاد کے لیے ایک واضح رائے رکھنا ضروری ہے۔‘‘

بیگم سرور کہنے لگیں کہ

’’میں نے سرور صاحب کا نام ہی ’’بحیثیتِ مجموعی‘‘ رکھ دیا ہے۔‘‘

جس پر خود سرور صاحب بھی بہت محظوظ ہوئے۔

عسکری صاحب، بھوپال کے مشہور وکلا میںسے تھے اور اردو ادب کے دلدادہ اردو میں انیس اورفارسی میں فردوسی کے عاشق تھے۔ ایک محفل میں انیس کے مرثیے سنائے چلے جارہے تھے۔ جاں نثار اختر بھی موجود تھے، تفریحاً کہہ دیا: ’’انیس کو آپ اتنا کیوںاچھالتے ہیں، تین سو پینسٹھ دن میں بے چارا دس دن کا تو شاعر ہے۔‘‘

وہ خفا ہوگئے اور جاںنثار اختر سے یک لخت ملنا چھوڑ دیا۔ دو سال گزر گئے، ایک مشاعرے کے سلسلے میں سردار جعفری بھوپال آئے، انہیں اس بات کا پتا چلا تو عسکری صاحب کو لے کر جاںنثار اختر کے گھر آگئے، صلح تو ہوگئی، لیکن جاں نثار اختر کو اس کی قیمت یہ ادا کرنی پڑی کہ چار گھنٹے تک ان سےانیس کے مرثیے سننے پڑے۔