ایک حکایت، ایک سبق: مشہور عباسی خلیفہ مامون....

September 28, 2018

ایک رات مشہور عباسی خلیفہ مامون کا ایک مصاحب اُسے قصے کہانیاں اور اشعار سنا رہا تھا۔ اس سلسلے میں اس نے یہ حکایت بھی سنائی کہ میرے پڑوس میں ایک بہت دین دار، نیک اور کفایت شعار آدمی رہتا تھا۔ اس کا اکلوتا بیٹا جواس وقت نو عمر اور ناتجربے کار تھا۔مرتے وقت اس نے بیٹے کو وصیت کی کہ خدا نے مجھے بہت روپیہ پیسہ دیا ہے، اسے سنبھال کر رکھو اور اعتدال سے خرچ کرو تو کئی پشتوں تک کے لیے کافی ہوجائےگا، کیونکہ تمہیں معلوم نہیں کہ پیسہ کمانے میں کتنی محنت مشقت کرنی پڑتی ہے،یہ میرا ہی دل جانتا ہے۔ میں نے خون پسینہ ایک کرکے یہ دولت جمع کی ہے جو تمہیں مفت ہاتھ لگے گی۔ اس کے باوجود میری محنت و مشقت کا خیال رکھنا اور اس کی قدر کرنا۔ ایسا نہ ہو کہ یار دوستوں کے ساتھ مل کر چند ہی روز میں اڑا دو۔ خدا نخواستہ ایسا ہو تو میری دو باتیں یاد رکھنا۔

وہ یہ کہ اگر مکان کا سامان تک فروخت کرنے کی نوبت آجائے تو کوئی حرج کی بات نہیںہے،لیکن مکان ہرگز فروخت نہ کرنا کیوں کہ بے گھر آدمی کا دنیا بھر میں کہیں ٹھکانا نہیں ہوتا۔ دوسری بات یہ ہے کہ خواہ کیسی ہی مصیبت کیوں نہ آپڑے، زمانہ ادھر سے اُدھر ہی کیوں نہ ہو جائے، کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلانا۔ کیوں کہ مفلسی، فقیری اور بے شرمی کی زندگی سے موت اچھی ہوتی ہے۔یہ وصیت کرکے باپ تو اللہ کو پیارا ہوگیا اور بیٹے نے اس کا کفن میلا ہونے سے پہلے ہی گلچھرے اڑانے شروع کردیئے۔ زمانے بھر کے بے فکرے اور اچکے دوست بن گئے اور دونوں ہاتھوں سے اسے لوٹنے لگے۔ راگ رنگ کی محفلیں جمنے لگیں اور عیش و عشرت کی محفلیں ہونے لگیں۔اسی اسراف اور فضول خرچی کے باعث دیکھتے دیکھتے ساری دولت ہوا ہوگئی اور تھوڑے ہی دنوں میں گھر کے اثاثے کوڑیوں کے مول فروخت ہونےلگے۔ایک دن اس عاقبت نااندیش نوجوان کی آنکھ کھلی تو جیب میں پائی تک نہ تھی۔جس وقت کا دھڑکا تھا وہ وقت آگیا آخر!دو چار دن فاقے کیے۔ بھوک کے مارے برا حال ہوا، مگر کوئی دوست پاس نہ آیا۔مفلسی میں کب کوئی کسی کا ساتھ دیتا ہے۔

جب فاقوں کے مارے نوجوان کے بدن میں جان نہ رہی تو وہ خودکشی کے ارادے سے باپ کے بتائے ہوئے کمرے میں پہنچا۔ اس کی ہدایت کے مطابق کرسی پر چڑھ کر چھت سے بندھی ہوئی رسی کا پھندا گلے میں ڈالا اور کرسی کو ٹھوکر مار کر دور پھینک دیا۔جیسے ہی کرسی ہٹی اور رسی کی گرفت اس کے گلے پر مضبوط ہوئی، وہ نیچے گرا اور اس کے ساتھ ہی چھت کی ایک لکڑی کی کڑی سے ہزاروں اشرفیاں آگریں۔یہ دیکھ کر نوجوان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا اور وہ سمجھا کہ خودکشی کی نصیحت سے اس کے عقل مند باپ کا کیا مقصد تھا۔ فوراً وضو کیا اور دو رکعت شکرانے کی نمازپڑھی۔عین مصیبت کے وقت دس ہزار اشرفیوں کا ملنا ایسی بات نہ تھی کہ اس نوجوان پر اثر نہ ہوتا۔ بالآخر اس نے برے دوستوں کی صحبت اور فضول خرچی سے توبہ کی اور کفایت شعاری سے بہت آرام کی زندگی بسر کرنے لگا۔(بحوالہ جوامع الحکایات و لوامع الروایات)