آئی ایم ایف پیکیج

October 17, 2018

رپورٹ:طلعت عمران

عکّاسی:اسرائیل انصاری

عارف حبیب
چیئرمین، عارف حبیب گروپ

گزشتہ حکومت کے بجٹ پر نظرثانی موجودہ حکومت کا حق ہے،ترقیاتی منصوبوں کو پرائیویٹ سیکٹر کے حوالے کرنا درست حکمتِ عملی ہے، موجودہ حکومت جرأت مندانہ فیصلے کر رہی ہے،پانچ سیکٹرز کے لیے گیس کے نرخ کم کرنا اور بجلی کی قیمت بڑھانا درست فیصلہ ہے،حکومت کا آئی ایم ایف کے پاس جانا درست ہے ،بچت کے لیے توانائی کے سستے ذرایع بروئے کار لائے جائیں، بیرونِ ملک پاکستان کا مثبت امیج پیش کیا جائے، حکومت کو نجکاری پر توجہ دینی چاہیے، ٹیکس ریونیو میں اضافے کے لیے ٹیکس پیئرز کو سہولتیں فراہم کی جائیں،

عارف حبیب

حکومت نے پانچ شعبوں کے لیے گیس کے نرخ کم کیے ہیں اور 44ارب روپے اپنے ذمے لیے ہیں، کیونکہ حکومت مہنگے نرخوں پر گیس درآمد کر رہی ہے۔

زبیر طفیل
سابق صدر، ایف پی سی سی آئی

حکومت نے جو گیس کی قیمتیں بڑھائی ہیں، وہ پہلے ہی بڑھا دینی چاہیے تھیں،ٹیکسٹائل سیکٹر کا خیال رکھا گیا،ٹیکس نیٹ وسیع کرنا ہوگا، کراچی میں ہائی رائز کی تعمیر پر پابندی ختم کی جائے اور حکومت شہر میں کم از کم 6 ڈی سیلی نیشن پلانٹس لگائے،اسپیشل انڈسٹریل زونز میں کوئی تعمیراتی کام نہیں ہورہا،ایف بی آر میں اصلاحات کی اشد ضرورت ہے۔

زبیر طفیل

مزمل اسلم،اکانومسٹ

نان فائلرز پر پابندی برقرار رکھنا درست فیصلہ ہے، امپورٹ ڈیوٹی میں اضافے سے مقامی صنعتوں کو تحفظ ملے گا، ٹیکس فائلر بننے کا طریقہ آسان بنایا جائے، ٹیکس نیٹ میں نئے افراد شامل کرنا ہوں گے،صرف ضروری اشیا ہی درآمد کی جارہی ہیں،آئی ایم ایف کی نگرانی سے معیشت منظم ہوتی ہے،ملک میں 14 لاکھ نہیں، کروڑوں افراد ٹیکس ادا کر رہے ہیں، لیکن وہ ٹیکس ریٹرنز جمع نہیں کرواتے،ایف بی آر میں ڈویلپمنٹ کا ادارہ قائم کیا جانا چاہیے،

مزمل اسلم

پاکستان تحریکِ انصاف کے تبدیلی کے نعرے کے پیشِ نظر یہ توقع کی جا رہی تھی کہ اس پارٹی کی حکومت قائم ہونے کے بعد ہر شعبے ہی میں تبدیلی آئے گی اور بالخصوص معاشی پالیسیوں میں ایک نیا ویژن دکھائی دے گا۔ گزشتہ دنوں وفاقی وزیرِ خزانہ، اسد عمر نے منی بجٹ پیش کیا اور اب حکومت آئی ایم ایف سے معاہدہ کرنے جارہی ہے ۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر منی بجٹ پیش کرنے اور آئی ایم ایف کے پاس جانے کی ضرورت کیوں پیش آئی اور اس کے اثرات کیا ہوں گے؟ منی بجٹ میں درآمدی ڈیوٹی اور لگژری آئٹمز پر عاید ٹیکس میں اضافہ کیا گیا ہے، ترقیاتی بجٹ میں قابلِ ذکر کمی کی گئی ہے اور ٹیکس ریٹ میں رد و بدل جیسے اہم فیصلے کیے گئے ہیں، جس کے ملکی معیشت پر اثرات مرتب ہوں گے۔ ایک سوال یہ بھی جنم لیتا ہے کہ اقتدار میں آنے سے قبل پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ اس نے معیشت کی بہتری کے لیے پالیسی تشکیل دے رکھی ہے اور حکومت قائم ہونے کے بعد ایک سو روز کے اندر معیشت میں بہتری دکھائی دے گی، تو کیا حکومت اسی سمت گامزن ہے؟ نیز، موجودہ وفاقی وزیر خزانہ اور سابق وزرائے خزانہ کے ویژن میں کتنا فرق ہے؟ اس وقت ہماری معیشت کو کئی مشکلات درپیش ہیں، جن میں بڑھتے ہوئے بیرونی قرضے، تجارتی خسارہ، گردشی قرضے، برآمدات میں کمی اور درآمدات میں اضافہ، روپے کی قدر میں کمی اور سی پیک پر تحفظات سمیت دیگر مسائل شامل ہیں اور اس صورتِ حال موجودہ حکومت کی ترجیحات کیا ہونی چاہیں؟ نیز، عوام نے اس حکومت سے کیا توقعات وابستہ کی تھیں، وہ کتنی پوری ہوئی ہیں اور مستقبل میں کیا ہونے جا رہا ہے۔ ان تمام سوالات کے جوابات جاننے کے لیے گزشتہ دنوں عارف حبیب سینٹر میں ’’حکومت کی معاشی پالیسی‘‘ کے موضوع پر جنگ فورم منعقد کیا گیا، جس میں ایف پی سی سی آئی کے سابق صدر، زبیر طفیل، عارف حبیب گروپ کے چیئرمین، عارف حبیب اور ماہرِ معیشت، مزمل اسلم نے اظہارِ خیال کیا۔ یہ گفتگو ذیل میں پیش کی جا رہی ہے۔

عارف حبیب سینٹر میں ’’حکومت کی معاشی پالیسی‘‘ کے موضوع پر منعقدہ جنگ فورم کا منظر اور شرکا کا گروپ فوٹو، ایڈیٹر جنگ فورم ، کراچی محمد اکرم خان میزبانی کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں

جنگ :منی بجٹ کے بارے میں آپ کیا رہے ہیںتوقعات کیا تھیں کتنی پوری ہوئیں؟

مزمل اسلم :پی ٹی آئی نے انتخابات سے قبل کہا تھا کہ وہ حکومت میں آنے کے بعد ٹیکس سے حاصل ہونے والی آمدنی کو 8ہزار ارب تک لے جائے گی، اس کے لیے وہ اقدامات کررہی ہے مزید ابھی کرنا ہوں گے۔ اگرچہ ہر سال درآمدات کی حوصلہ شکنی کے لیے ان پر ریگولیٹری ڈیوٹی بڑھا دی جاتی ہے، مگر اس کے باوجود ہمارا درآمدی بل اور تجارتی خسارہ بڑھتا ہی چلا رہا ہے، جس کی وجہ آبادی میں اضافہ ہے۔ اس وقت صرف بنیادی ضرورت کی اشیا ہی درآمد کی جارہی ہیں، جن میں کمی نہیں کی جا سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ حکومت کی جانب سے رکھے گئے ٹیکس ہدف 4400ارب کو بھی اتنے زیادہ ٹیکسز عاید کرنے کے باوجود 60ارب کم کر دیا گیا۔ لہٰذا، حکومت کو ٹیکس نیٹ میں نئے لوگ شامل کرنا ہوں گے۔ گزشتہ حکومت نے نان فائلرز پر جائیداد اور گاڑیاں خریدنے پر پابندی عاید کر دی تھی، لیکن موجودہ حکومت نے یہ فیصلہ ابتدا میں واپس لے لیا لیکن پھر پابندی برقرار رکھی ، خیال یہ تھا کہ یہ لوگ تعمیرات و گاڑیوں کی صنعت اور زراعت اس ملک کی معیشت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اور ان سے روزگار کے ذرایع بھی پیدا ہوتے ہیں ۔ اگر یہ شعبے غیر فعال ہو جائیں گے، تو ان سے جڑی صنعتیں بھی متاثر ہوں گی اور بے روزگاری میں اضافے کے ساتھ ساتھ ٹیکس کی شرح مزید کم ہو جائے گی۔ اس کے علاوہ شاید حکومت پر اس فیصلے کے لیے دبائو بھی تھا۔ گزشتہ حکومت نے جب یہ فیصلہ کیا تھا، تو اس میں بھی بہت سی خامیاں پائی جاتی تھیں۔ مثال کے طور پر ایسے ریٹائرڈ افراد کہ جو ساری عمر ٹیکس ادا کرتے رہے اور اب پینشن پر گزارہ کرنے کی وجہ سے نان ٹیکس پیئرہیں، اپنی زمین فروخت تو کر سکتے تھے، لیکن خرید نہیں سکتے۔ آخر ان کا کیا قصورہے۔ کبھی کبھار ہماری حکومتیں غریبوں کے نام پر ایسی پالیسیاں بنا دیتی ہیں کہ جس کے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس حکومت نے اپنے فیصلے کو واپس لے مثبت سوچ کا مظاہرہ کیا ہے۔

جنگ :توقع کی جا رہی تھی کہ ٹیکس میں اضافے کے لیے ٹیکس نظام اور ایف بی آر میں اصلاحات کی جائیں گی؟

مزمل اسلم :میں اس ضمن میں ایک مثال پیش کروں گا۔ سنگاپور میں ایک جھیل بنائی گئی ہے۔ اس کے باہر لکھا ہے کہ آپ اندر جا رہے ہیں اور اندر بندر بہت ہیں۔ اگر کسی نے بندر کو مونگ پھلی کھلائی، تو اس پر ایک ہزار ڈالرز جرمانہ عاید کیا جائے گا، کیونکہ قدرت نے انہیں ہاتھ، پائوں دیے ہیں اور یہاں کافی ساری خوراک بھی موجود ہے۔ لہٰذا ان کو سست اور نکما نہ بنائیں، بلکہ انہیں خود کوشش کرنے دیں۔ ہماری ٹیکس مشینری ٹیکس کے نئے نئے ذرایع تلاش کرے۔

جنگ:منی بجٹ میں بھی عوام پر بالواسطہ ٹیکسز ہی عاید کیے گئے ہیں۔ اس میں کوئی نئی چیز تو دکھائی نہیں دیےرہی ہے۔

مزمل اسلم :کہا جا رہا ہے کہ ہم نے پر تعیش اشیا مہنگی کی ہیں، جو امیر افراد استعمال کرتے ہیں، اس فیصلے کی ڈیمانڈ پہلے بھی آتی رہی ہے، اس سے مقامی انڈسٹری کو تحفظ ملے گا، تو ایک امیر آدمی کے کچن کا بجٹ اس کی آمدنی کا 5ے10فیصد ہوتا ہے اور وہ 500روپے کی چیز 1000روپے میں بھی خرید سکتا ہے، جبکہ ایک مڈل کلاس آدمی جو یہ چاہتا ہے کہ اس کے بچے معیاری خوراک کھائیں ، اب وہ نہیں خرید سکتا کہ اس پر ٹیکسز لگا دیے گئے ہیں۔اس ملک تو خالص چیزیں ملتی ہی نہیں ہیں۔ اگر خالص چیزیں ملنے لگیں، تو لوگ غیر ملکی اشیا خریدنا ترک کر دیں گے۔

جنگ:کیا منی بجٹ عوام کی توقعات کے مطابق ہے؟ اس کے نتیجے میں مقامی صنعتوں پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ نیز، کیا اس سے برآمدات میں اضافہ اور درآمدات میں کمی واقع ہو گی؟

زبیر طفیل :حکومت نے پانچ شعبوں کے لیے گیس کے نرخ کم کیے ہیں اور 44ارب روپے اپنے ذمے لیے ہیں، کیونکہ حکومت مہنگے نرخوں پر گیس درآمد کر رہی ہے۔ حکومت نے جو گیس کی قیمتیں بڑھائی ہیں، وہ پہلے ہی بڑھا دینی چاہیے تھیں۔ گھریلو گیس کے نرخ بڑھانا اچھا فیصلہ ہے۔ اگر اس سے زیادہ بھی اضافہ کیا جاتا ہے، تو صارفین پر زیادہ بوجھ نہ پڑتا۔ اسی طرح انڈسٹری میں مجموعی طور پر گیس کے نرخ میں 30سے 40فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ اس کے نتیجے میں انڈسٹری کی لاگت بڑھ جائے گی، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ آخر حکومت کب تک سبسڈی دیتی رہے گی۔ اگر 15،15فیصد اضافہ کیا جاتا، تو یہ بہتر رہتا۔ منی بجٹ میں ٹیکسٹائل انڈسٹری کا خیال رکھا گیا ہے، لیکن باقی صنعتوں میں گیس کی قیمتیں 40فیصد تک بڑھ گئی ہیں، جس کی وجہ سے ان کی مصنوعات سازی پر آنے والی لاگت میں اضافہ ہوا ہے۔ اب جہاں تک بجٹ کی تیاری کی بات ہے، تو موجودہ حکومت نے انتخابی مہم میں اتنے بڑے بڑے دعوے کر دیے تھے کہ اب انہیں عملی شکل دینے میں مشکل پیش آ رہی ہے۔ پی ٹی آئی نے 100دن میں تبدیلی لانے کے دعوے کیے تھے، لیکن اسے کم از کم ایک سال کا وقت دینا چاہیے۔ موجودہ صورتِ حال کسی بھی جماعت کی حکومت ہوتی، تو اسے اسی قسم کے چیلنجز درپیش ہوتے۔ گزشتہ حکومت نے تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس ریٹ کم کر کے 15فیصد کر دیا تھا۔ ایف پی سی سی آئی نے تجویز دی تھی کہ سالانہ 8لاکھ تک کی آمدنی والوں کو ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دیا جائے اور انکم ٹیکس کم کر کے زیادہ سے زیادہ 25فیصد کر دیا جائے، جبکہ حکومت نے 15فیصد کر دیا اور ایسا پہلی بار ہوا۔ تب پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ حکومت نے ووٹ حاصل کرنے کے لیے یہ سیاسی فیصلہ کیا ہے اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی مشکلات آیندہ حکومت کو برداشت کرنا پڑیں گی۔ اب اس ٹیکس کی شرح کو بڑھا کر 29فیصد کر دیا گیا ہے، جس کی مخالفت کرتے ہوئے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے کہا کہ اسے 25فیصد کر دیا جائے۔ ابھی تک تو گیس کی قیمتیں بڑھی ہیں، لیکن اصل مسئلہ بجلی کی قیمتوں میں اضافہ ہے، جس کے اثرات نہ صرف عوام بلکہ بجلی سے چلنے والی صنعتوں پر بھی مرتب ہوں گے۔

جنگ :ایف بی آر میں اصلاحات کیوں نہیں کی جاتیں؟ کہا جاتا ہے کہ 8ہزار افراد کی فہرستیں موجود ہیں، لیکن انہیں ٹیکس نیٹ میں نہیں لایا جاتا۔ جب کوئی پارٹی اپوزیشن میں ہوتی ہے، تو اصلاحات کی بات کرتی ہے، لیکن حکومت میں آتے ہی اس پر سکتہ طاری ہو جاتا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟

زبیر طفیل :حکومت کا کہنا ہے کہ وہ ٹیکس ریونیو 4ہزار ارب سے بڑھا کر 8ہزار ارب تک لے جائے گی۔ اگر ایسا پانچ برس میں ہوتا ہے، تو یہ فطری عمل ہو گا، کیونکہ ہر 5برس بعد ٹیکس ریونیو دگنا ہو جاتا ہے۔ تاہم، حکومت کا کہنا ہے کہ وہ 2برس میں ایسا کر کے دکھائے گی، جو کہ بہت مشکل کام ہے، لیکن اگر ایسا ہو جاتا ہے، تو یہ قابلِ تحسین ہو گا۔ تاہم، جب تک ٹیکس نیٹ وسیع نہیں ہو گا، کام نہیں چلے گا۔ علاوہ ازیں، بعض صنعتوں کو چلانا بہت ضروری ہے، جس میں تعمیراتی صنعت بہت اہم ہے۔ اس صنعت سے مزید 40صنعتیں وابستہ ہیں۔

جنگ :لیکن سپریم کورٹ نے تو کراچی میں ہائی رائز پر پابندی عاید کر رکھی ہے؟

زبیر طفیل :اس کا بھی کوئی حل نکل آئے گا اور میں عدالتِ عظمیٰ سے درخواست کرتا ہوں کہ 6منزلہ عمارتوں کی تعمیر پر عاید پابندی ختم کی جائے۔ اگر تعمیراتی صنعت چلے گی، تو اس سے وابستہ 40صنعتیں بھی چلیں گی اور روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔ دوسرا، اسٹیٹ بینک کو چاہیے کہ وہ تعمیراتی صنعت کے لیے کوئی پالیسی بنائے اور کمرشل بینکوں سے کہے کہ وہ اسے سپورٹ کریں۔ کراچی میں پانی کی قلت ایک سنگین مسئلہ ہے، لیکن اسے ختم کیا جا سکتا ہے۔ یہاں ڈی سیلی نیشن پلانٹ لگا کر پانی کی قلت ختم کی جا سکتی ہے۔ حکومت نے کورنگی اور ڈی ایچ اے میں ڈی سیلی نیشن پلانٹ لگانے کا فیصلہ کیا ہے، لیکن 2کے بہ جائے 6پلانٹس لگانے چاہئیں۔ سعودی عرب، یو اے ای اور کویت میں ڈی سیلی نیشن پلانٹس ہی کے ذریعے میٹھے پانی کی کمی پر قابو پایا گیا ہے۔ حتیٰ کہ چین کے ساحلی علاقوں میں بھی ڈی سیلی نیشن پلانٹس لگائے گئے ہیں اور پاکستان کو چین کے تجربے سے ضرور فائدہ اٹھانا چاہیے۔ اس وقت جو چینی کمپنی گوادر میں ڈی سیلی نیشن پلانٹ لگا رہی ہے، اس نے 65پیسے کے عوض ایک گیلن پانی کی پیشکش کی ہے۔ اگر کراچی میں 75پیسے میں بھی گیلن دستیاب ہو، تو شہری یہ پیسے دینے پر تیار ہیں۔ ہمیں چینی کمپنیوں کو کراچی میں ڈی سیلی نیشن پلانٹ لگانے کی پیشکش کرنی چاہیے اور کراچی میں ڈی سیلی نیشن پلانٹس لگانے میں زیادہ سے زیادہ تین برس لگیں گے، بلکہ دو سال میں بھی لگ جائیں گے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ کراچی میں 6ڈی سیلی نیشن پلانٹس لگائے اور خود سرمایہ لگانے کے بہ جائے چینی کمپنیوں سے کہے کہ وہ کسی مقامی پارٹنر کو اپنے ساتھ ملا لیں۔

جنگ :گزشتہ حکومت کے پیش کردہ بجٹ کو سیاسی بجٹ کہا گیا اور اس کے نتیجے میں اب مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ اس بارے میں کیا کہیں گے؟ نیز، موجودہ حکومت انڈسٹری اور اسٹاک ایکسچینج میں بہتری کے حوالے کوئی ویژن رکھتی ہے اور موجودہ منی بجٹ اور ماضی کے بجٹ میں آپ کو کوئی فرق نظر آتا ہے؟

عارف حبیب:گزشتہ حکومت کے بجٹ پر نظر ثانی اس حکومت کا حق ہے کہ اب اس نے ملک کی معیشت کو چلانا ہے۔ الیکشن سے پہلے پیش کیے گئے بجٹ میں تبدیلی ضروری تھی، لیکن اچھی بات یہ ہے کہ دونوں میں کوئی زیادہ فرق نہیں ہے۔ یعنی جو رعایتیں گزشتہ حکومت نے دی تھیں، وہ اب بھی موجود ہیں۔ مفتاح اسمٰعیل نے بجٹ پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ بجٹ خسارہ 4.9فیصد ہو گا اور اسد عمر نے اسے 5.5فیصد کر دیا ۔ترقیاتی اخراجات کم نہیں کیے گئے ۔ ہم نے گزشتہ حکومت سے کہا تھا کہ وہ ایل این جی فائرڈ پاور پلانٹ کے لیے بجٹ مختص نہ کرے، لیکن انہوں نے ایسا کیا اور بجٹ خسارہ بڑھ گیا۔اگر 2ارب ڈالرز پرائیویٹ سیکٹر کو دے دیے جاتے، تو نہ مالی ذخائر کم ہوتے اور نہ بجٹ خسارے میں اضافہ ہوتا۔ اب ترقیاتی منصوبے پرائیویٹ سیکٹر کے حوالے کر دیے گئے ہیں۔ یہ اچھی حکمتِ عملی ہے۔ ہم بلاوجہ ہی اپنے ملک کو برا بھلا کہتے ہیں۔ جو سرمایہ کار دبئی گئے تھے، تو وہاں سے خالی ہاتھ واپس آئے اور جب انہوں نے پاکستان میں کاروبار شروع کیا، تو مزے کر رہے ہیں۔ مجھے وزیر اعظم صاحب کی اس بات پر بھی اعتراض ہے کہ ہمیں کوئی پیسہ نہیں دے گا۔ ہمیں ایسی باتیں نہیں کرنی چاہئیں۔ امریکا، برطانیہ، جاپان سمیت دوسرے ممالک کے قرضے ہم سے زیادہ ہیں۔ ہمیں اپنے ملک کا امیج اتنا خراب نہیں کرنا چاہیے کہ غیر ملکی ہمارے ساتھ مل کر کام ہی نہ کریں۔ ہمیں اپنے مثبت پہلو سامنے لانے چاہئیں، تاکہ دنیا ہمارے پاس آئے۔ بہرکیف، منی بجٹ میں 182ارب کے اضافی ٹیکسز لگانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ منی بجٹ پیش کرنے کے بعد اب موجودہ حکومت کو اپنے اہداف پورے کر کے دکھانا ہوں گے۔ ایک اچھی بات یہ ہے کہ پہلے فیصلے نہیں ہوتے تھے، لیکن اب اسد عمر فیصلے کر رہے ہیں۔ یاد رہے کہ فیصلے نہ کرنے کی وجہ ہی سے ہمارے ملک کی معیشت کا پہیہ جام ہوا۔ موجودہ حکومت نے فرٹیلائرز کو چلانے کا جرأت مندانہ فیصلہ کیا، جو بند پڑے تھے۔ اس سے ملک کو فائدہ ہو گا۔

جنگ: کیا فرٹیلائزر کی لاگت میں اضافہ کیا گیا ہے؟

عارف حبیب :اب فرٹیلائزر کی رسد میں اضافہ ہو گا، جس کی وجہ سے بلیک مارکیٹنگ نہیں ہو گی۔ اب فرٹیلائزر درآمد بھی نہیں کرنا پڑے گا، جو مہنگا پڑتا ہے اور پھر سبسڈی دینی پڑتی تھی، لیکن اب حکومت کو سبسڈی بھی نہیں دینی پڑے گی۔ اسی طرح گیس کے نرخ بڑھانے کا فیصلہ بھی درست ہے، جو کافی عرصے سے نہیں بڑھائے جا رہے تھے، جس کی وجہ سے حکومت کو نقصان ہو رہا تھا۔ اگر حکومت گیس کے نرخ نہ بڑھاتی اور اسے لاگت سے کم قیمت پر فروخت کرتی رہتی، تو اس کا بوجھ بھی تو عوام ہی پر پڑتا۔ یعنی پہلے وہ افراد بھی پیسے ادا کر رہے تھے کہ جو گیس استعمال نہیں کر رہے تھے، لیکن اب صرف صارف ہی ادا کرے گا۔ اگرچہ یہ بھی ایک غیر مقبول فیصلہ ہے، لیکن ملکی کے مفاد میں بہتر فیصلہ ہے اور اس کی تحسین کرنی چاہیے۔ اب جہاں تک بجلی کے نرخ میں اضافے کی بات ہے، تو یہ بھی درست ہے۔ ہم سے بات چیت کے دوران کہا گیا کہ پرانے نقصانات کو شامل کر کے انہیں نئے ریٹس سے ان کا ازالہ کیا جائے گا، تو ہم نے کہا کہ صرف جاری نقصان ہی کو شامل کیا جائے، لیکن اب کہیں نہ کہیں سے پرانے نقصانات کا بھی تو ازالہ کرنا ہے۔ یہ سب دلیرانہ فیصلے ہیں اور اگر ان پر عملدرآمد ہو گیا، تو بجلی و گیس کی قلت جیسے تمام مسائل ختم ہو جائیں گے۔ حکومت کو فیول مکس کو بھی بہتر کرنا ہو گا اور اس کے لیے محنت کی ضرورت ہے۔ ہماری ریسرچ کے مطابق، پورٹ قاسم میں شروع ہونے والے کول پاور پلانٹ کی استعداد 1320میگاواٹ ہے، جو حبکو پاور پلانٹ کے مساوی ہے۔ اس کے نتیجے میں سالانہ 70کروڑ ڈالرز کی بچت ہو گی۔ ہمیں توانائی کے سستے ذرایع کا استعمال بڑھانا ہو گا اور اس کے لیے اچھا خاصا عرصہ درکار ہے۔ اسی طرح پانچ سیکٹرز کے لیے گیس کے نرخ کم کرنے کا فیصلہ بھی درست ہے۔

جنگ :اسد عمر نے قومی اسمبلی میں اپنی تقریر میں کہا کہ توانائی کی قیمتوں میں اضافہ ہو گا اور اس پر زیادہ تنقید ہو رہی ہے کیو ں کہ پچھلی حکومت کے دور میں وہ توانائی کی قیمتیوں میں کمی کا مطالبہ کرتےرہے ہیں؟

عارف حبیب :میں نے وفاقی وزیرِ خزانہ سے ملاقات میں کہا کہ یہ فیصلہ آپ کے دعووں کے برعکس ہے، تو انہوں نے جواب دیا کہ وہ دعویٰ برآمدات کے لیے تھا، لیکن ہمیں ان پر دبائو نہیں ڈالنا چاہیے، کیونکہ اگر انہوں نے ایسا کر دیا، تو بجٹ پر دبائو بڑھ جائے گا۔ دراصل، سیاسی بیانات اور حقائق میں فرق ہوتا ہے۔

جنگ:کیا توانائی کی قیمتیں بڑھنے سے انڈسٹری کی مسابقتی سکت مزید کم نہیں ہو جائے گی؟

عارف حبیب :یہ بات بھی درست ہے، لیکن سب کچھ اتنے جلدی ٹھیک نہیں ہو سکتا۔ البتہ سمت کا تعین ہونا چاہیے اور میں ایک بار پھر کہوں گا کہ حکومت کو توانائی کے متبادل ذرایع بروئے کار لانے چاہئیں۔ اب جہاں تک 100دن میں ملکی معیشت کو بدلنے کی بات ہے، تو میں اس دعوے کو تسلیم نہیں کرتا، لیکن اگر حکومت درست سمت کی جانب گامزن ہو، تو میں اس کی تحسین کروں گا۔ اگر ماضی کی حکومتوں اور موجودہ حکومت کے ویژن میں فرق کی بات کی جائے، تو حکومت کی زیادہ توجہ سادگی پر ہے۔ یہ بھی اچھا فیصلہ ہے۔ ہمیں حکومت کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے اور اسے وقت دینا چاہیے، لیکن اگر حکومت پھر بھی ڈیلیور نہ کر سکی، تو تب ہم ضرور تنقید کریں گے۔

جنگ:کہا جا رہا ہے کہ پاکستان کو فوری طور پر 10سے 12ارب ڈالرز کی ضرورت ہے۔ آئی ایم ایف سے رجوع کررہے ہیں کیا حکومت 10سے12ارب ڈالرز کا ہدف حاصل کر لے گی؟

عارف حبیب :میری یہی شکایت ہے کہ حکومت نے بجٹ خسارے پر تو توجہ دی ہے، لیکن رواں خسارے پر کوئی توجہ نہیں ہے۔ البتہ اچھی بات یہ ہے کہ اگست میں درآمدات میں کمی اور برآمدات میں اضافہ ہوا ہے، جس کی وجہ سے تجارتی خسارے میں کمی واقع ہوئی ہے، لیکن ذرایع ابلاغ نے اسے اہمیت نہیں دی۔ اگر حکومت ترسیلاتِ زر میں اضافے پر توجہ دے اور حوالہ ہنڈی کی حوصلہ شکنی کرے، تو ہمیں اس سے بھی 5سے6ارب ڈالرز مل سکتے ہیں۔ اسی طرح اگر برآمدات میں اضافہ اور درآمدات میں کمی واقع ہوتی ہے، تو یہ بھی امید افزا ہے۔ تاہم، حکومت کو آئی ایم ایف سے رجوع کرنا پڑے گا۔ حکومت کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم نے سعودی عرب سے امداد نہیں بلکہ سرمایہ کاری کی درخواست کی، لیکن فی الوقت کسی غیر ملکی سرمایہ کاری کا امکان نہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ نان فائلرز پر پابندی لگانا غلط فیصلہ تھا، بلکہ اس کے بہ جائے نان فائلرز کا پتہ لگا کر ان کی گرفت کی جانی چاہیے۔ پھر تنخواہ دار افراد کے لیے ٹیکس کی شرح میں اضافے کا فیصلہ بھی درست ہے، کیونکہ کاروباری افراد پر 29فیصد اور تنخواہ دار پر 15فیصد ٹیکس کا فیصلہ غلط تھا اور اس کی وجہ سے کارپوریٹ سیکٹر کی حوصلہ شکنی ہوئی۔

جنگ:کیا حکومت کو آئی ایم ایف سے رجوع کرنا پڑے گا؟ نیز، دولت مندٹیکس نا دہندگان کو ٹیکس نیٹ میں شامل کیا جائے گا؟

مزمل اسلم :دراصل، آئی ایم ایف استحکام فراہم کرتی ہے۔ 2013ء میں جب اس وقت کے وفاقی وزیر خزانہ، اسحٰق ڈار نے آئی ایم ایف سے رجوع کیا، تو ملک میں سرمائے کی آمد شروع ہو گئی اور ورلڈ بینک اور ایشین ڈیولپمنٹ بینک سمیت دیگر اداروں نے بھی پاکستان کی مدد کی۔ اگر ہم آئی ایم ایف کا اچھا پروگرام لینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، تو اس کا مارک اپ بہت کم ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ حکومت کو فیول مکس کے علاوہ ڈیبٹ مکس بھی بنانا چاہیے۔ اگر ڈیبٹ مکس میں 7سے8ارب ڈالرز 2سے 3فیصد پر ملتے ہیں، تو انہیں مالی ذخائر میں رکھنے سے نہ صرف معاشی استحکام ملے گا، بلکہ اداروں کے اعتماد میں بھی اضافہ ہو گا۔ اسد عمر کا یہ کہنا ہے کہ ہم ابھی قرضہ نہیں لیں گے اور خود اپنے وسائل پیدا کریں گے۔ وفاقی وزیرِ خزانہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ ابھی مالیاتی ایمرجنسی نہیں ہے اور ہم مشاورت کر رہے ہیں، لیکن اگر حکومت کو کم مارک اپ پر قرضہ ملتا ہے، تو اسے لینا چاہیے۔ اس طرح آئی ایم ایف مانیٹرنگ بھی کرتی ہے، جس سے معیشت میں استحکام آتا ہے۔ اس وقت پوری دنیا ہی میں مالی بحران ہے اور آئی ایم ایف سب کی مدد کر رہی ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمیں تاخیر ہو جائے اور آئی ایم ایف قرض دینے کا فیصلہ ملتوی کر دے۔ اگر ٹیکس نیٹ کی بات کی جائے، تو مختلف اداروں میں کام کرنے والے ملازم اپنی تنخواہ سے ٹیکس کٹنے کے باوجود ٹیکس فائلر نہیں ہیں۔ یوں اس ملک میں صرف 14لاکھ نہیں، بلکہ کروڑوں افراد ٹیکس ادا کر رہے ہیں۔ میں ان ڈائریکٹ ٹیکسز کی بات نہیں کر رہا۔ یعنی ان گنت ایسے ٹیکس دہندگان ہیں، جو ٹیکس فائلرز نہیں ہیں اور حکومت کو ان کا بھی شمار کرنا ہو گا اور ان میں آگہی پیدا کرنا ہو گی۔

جنگ :غالباً ٹیکس فائل کرنے کا طریقہ کار خاصا پیچیدہ ہے اس سے لوگوں کی حوصلہ شکنی ہوتی ہےاس طریقہ کار کو آسان ہوناچاہئے؟

مزمل اسلم : جی ہاں۔ ٹیکس پیئرز کو ٹیکس فائلر بننے کے لیے وکیل کی خدمات حاصل کرنا پڑتی ہیں، حالانکہ ایف بی آر کے پاس تمام ٹیکس دہندگان کا ریکارڈ ہوتا ہے۔ اب تو آئی ٹی کا زمانہ ہے اور ہر فرد ہی واٹس ایپ استعمال کرتا ہے۔ حکومت اور متعلقہ اداروں کو اس عمل کو سادہ اور آسان بنانا ہو گا۔ کہا جاتا ہے کہ ایف بی آر کے پاس اتنی استعداد نہیں کہ وہ ٹیکس نیٹ میں اضافہ کر سکے، جس کی وجہ سے وہ نئے ٹیکس دہندگان تلاش کرنے کے بہ جائے پرانے ٹیکس دہندگان ہی پر دبائو بڑھاتا ہے۔ دیگر اداروں کی طرح ایف بی آر میں بھی ڈیولپمنٹ کا ادارہ ہونا چاہیے، جو ٹیکس نیٹ میں اضافے کی کوشش کرے۔ اب 28،30فیصد سے گزارا نہیں ہو گا۔ دوسرا، اب مزید ٹیکسز لگانے کی گنجائش نہیں ہے۔

عارف حبیب: گنجائش ان کے لیے نہیں ہے، جو ٹیکس ادا کر رہے ہیں۔ کئی ایسے کاروباری افراد اور پیشہ ور ہیں کہ جو دولت مند ہونے کے باوجود ٹیکس ادا نہیں کرتے۔ اگر انہیں ٹیکس نیٹ میں لایا جائے، تو ٹیکس اہداف بہ آسانی حاصل ہو سکتے ہیں۔

مزمل اسلم :درحقیقت، ایف بی آر کے ڈرم میں لیکیج ہے۔ اسے اوپر سے مزید پانی ڈالنے کے بہ جائے یہ لیکیج بند کرنا ہو گی۔

جنگ :منی بجٹ سے انڈسٹری سیکٹر کتنا مطمئن ہے اور سی پیک پر عبدالرزاق دائود کے بیان سے پیدا ہونے والے شکوک و شبہات کے بارے میں کیا کہیں گے؟

زبیر طفیل :سی پیک پر کام جاری ہے اور آرمی چیف کا دورۂ چین بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا۔ یہ منصوبہ جاری رہنا چاہیے، لیکن جن مراعات کا اعلان چائنیز کے لیے کیا گیا ہے، وہی پاکستانی صنعت کاروں کو بھی ملنی چاہئیں۔ اسی طرح ہر صوبے میں انڈسٹریل زونز بنانے کا اعلان کیا گیا تھا، تاہم فی الوقت اس سلسلے میں کوئی سنجیدہ کوشش نہیں ہوئی ہے۔ انڈسٹریل زونز کے لیے جگہ کا تعین تو کر دیا گیا ہے، لیکن وہاں کوئی تعمیراتی کام نہیں ہو رہا۔ سی پیک کا اصل مقصد اسی وقت حاصل ہو گا کہ جب پورے ملک میں اسپیشل اکنامک زونز فعال ہو جائیں گے۔ نیز، سی پیک کے قریب سے گزرنے والے علاقوں میں خوشحالی آنی چاہیے اور لوگوں کو روزگار کے مواقع ملنے چاہئیں۔ حتمی طور پر سی پیک مکمل ہونے سے چین کو زیادہ فائدہ ہو گا۔ وہ اس راستے سے نہایت کم وقت میں خام مال درآمد کرے گا۔

جنگ :ٹیکس نیٹ میں اضافے اور ایف بی آر میں اصلاحات کے لیے کیا تجاویز دیں گے؟

زبیر طفیل :ایف بی آر میں اصلاحات کی اشد ضرورت ہے۔ اس وقت سارا کام ود ہولڈنگ ٹیکس پر چل رہا ہے۔ ٹیکس نیٹ کو وسعت دینا ہو گی اور اس مقصد کے لیے ایف بی آر کے افسران کو تگ و دو کرنا ہو گی۔ ابھی تک ایف بی آر موجودہ ٹیکس دہندگان ہی کو نچوڑ رہی ہے۔ اب تو جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے ہر فرد کے اخراجات کا ڈیٹا حاصل کیا جا سکتا ہے، لیکن ایف بی آر اس ضمن میں کوئی کام نہیں کر رہا۔ پھر اب بتدریج جائیداد کی قیمتوں میں اضافہ کرنا ہو گا اور اسے ریئل مارکیٹ ریٹ پر لانا ہو گا۔

عارف حبیب :اس وقت ہمارا ٹیکس ٹو جی ڈی پی ریشو تقریباً 13فیصد ہے، لیکن اگر ہم اس میں سے زرعی سیکٹر کو نکال دیں، تو یہ تناسب 16فیصد بنتا ہے۔ اگر اس میں ٹریڈرز اور پروفیشنلز کو بھی شامل کر لیا جائے کہ جو ہماری جی ڈی پی کا 18فیصد ہیں، لیکن ان کا حصہ صرف ایک فیصد ہے۔ ان شعبوں میں کافی گنجائش موجود ہے اور ان کے ذریعے ٹیکس نیٹ میں اضافہ ممکن ہے۔ اس کے علاوہ جو افراد ٹیکس ادا کر رہے ہیں، انہیں سہولتیں فراہم کر کے بھی ٹیکس نیٹ میں اضافہ ممکن ہے۔ میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ اس منی بجٹ سے پہلے بہت خوفناک باتیں ہورہی تھیں کہ ویلتھ ٹیکس عاید کیا جا رہا ہے، تنخواہوں میں اضافہ واپس لے لیا جائے گا، درآمد پر پابندی عاید کر دی جائے گی، لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ میں تمام پاکستانیوں کو یہ مشورہ دینا چاہتا ہوں کہ جس چیز کی خریداری میں زر مبادلہ کے ذخائر خرچ ہوتے ہیں، اسے نہ خریدیں۔ مقامی اشیا خریدیں اور بیرون ملک سیر کے بہ جائے اپنے ملک کے سیاحتی مقامات کی سیر کریں۔ اگر ہم سب اپنے اخراجات کم کر لیں، تواربوں ڈالرز کی بچت ہو سکتی ہے۔ پھر حکومت کو نجکاری پر توجہ دینی چاہیے۔ اس ضمن میں حکومت نے تین کٹیگریز بنائی ہیں اور اس سلسلے میں فوری پر کام کرنا ہو گا کہ اس سے وسائل میں اضافہ ہو گا۔ اس وقت ہمیں دنیا کے سامنے پاکستان کا مثبت امیج پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم یہ کہتے پھریں گے کہ ملک دیوالیہ ہو رہا ہے، تو سب ہم سے دور بھاگ جائیں گے۔ حکومت کو تارکینِ وطن پاکستانیوں کو ملک میں سرمایہ کاری کی جانب راغب کرنا چاہیے اور پی ٹی آئی کی حکومت یہ کر سکتی ہے۔ اس کے علاوہ دوست ممالک سے مدد لیں اور یہ رقم خرچ کرنے کے بہ جائے صرف خزانے میں رکھیں۔ ہمیں آئی ایم ایف سے بھی رجوع کرنا چاہیے۔ میرا تجربہ یہ کہتا ہے کہ آئی ایم ایف کی نگرانی کی وجہ سے پاکستان کی معیشت منظم رہتی ہے۔ پھر ٹاسک فورس کمیٹیز کاروباری سرگرمیوں اور سرمایہ کاری میں اضافے کے لیے کوشش کریں۔ اس کے علاوہ فیول مکس بہتر کریں، تاکہ لاگت کم ہو جائے۔

مزمل اسلم :حکومت کو ٹیکس نیٹ بڑھانے کے لیے صوبوں سے مدد لینی چاہیے اور ان سے مل کر ڈیٹا بیس پر کام کرنا چاہیے۔ اگر صوبے، وفاق کو وسائل فراہم کرتے ہیں، تو اس سے انہیں بھی فائدہ ہو گا۔

زبیر طفیل :حکومت کو اس بات پر بھی غور کرنا چاہیے کہ درآمدات میں کس طرح کمی واقع ہو گی۔ اس وقت کئی غیر ضروری اشیا درآمد کی جا رہی ہیں۔ ہمیں ان پر نظر ثانی کرنا ہو گی۔ اس وقت ویت نام سے سالانہ 70کروڑ ڈالرز مالیت کی مچھلی درآمد کی جا رہی ہے، جس کی وجہ سے مقامی ماہی گیر بے روزگار ہو گئے ہیں۔ اسی طرح چین سے سیب، ناشپاتی اور انگور کو غیر ضروری طور پر درآمد کیا جا رہا ہے۔ مصر سے مالٹا اور موسمبی درآمد کی جا رہی ہے، جس کی ضرورت نہیں ہے۔

مزمل اسلم :اسی طرح اگر ہم پیٹرول اور ڈیزل پر چلنے والی گاڑیوں کے بہ جائے ہائبرڈ گاڑیاں استعمال کریں، تو سالانہ اربوں ڈالرز کی بچت ہوسکتی ہے اور اگر ہم بائبرڈ گاڑیاں تیار کرنے والی کمپنیز کو اچھی پیشکش کریں، تو وہ بھی ہمارے ملک میں یہ گاڑیاں تیار کرنے پر آمادہ ہو جائیں گی۔

زبیر طفیل :دو سال میں ملک میں چین سے الیکٹرک کاریں تیار کرنے والی کمپنیز آ رہی ہیں۔ ان گاڑیوں کی وجہ سے بھی پیٹرول کی بچت ہو گی اور ہمارے درآمد بل میں واضح طور پر کمی دیکھنے میں آئے گی، لیکن یہ تمام اثرات آیندہ 3سے4برس میں دکھائی دیں گے۔ ان گاڑیوں کی قیمت تھوڑی سی زیادہ ہے، لیکن یہ فیول بہت کم استعمال کرتی ہیں۔

جنگ:کیا موجودہ حکومت جرأت مندانہ فیصلے کر سکے گی؟

مزمل اسلم :موجودہ حکومت کو پی پی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومت سے زیادہ سیاسی حمایت حاصل ہے اور اسے ان سے زیادہ جرأت مندانہ فیصلے کرنے چاہئیں۔