ایک ’’روشن پاکستان‘‘ میرا خواب، میری منزل

August 11, 2019

باصلاحیت ،خُوب صُورت فلم ساز اور فن کارہ حریم فاروق کو پہلی بار انور مقصود کے مقبول اسٹیج ڈرامے ’’آنگن ٹیڑھا‘‘ میں، گلابی ساڑی میں ملبوس ،جہاںآراءکے رُوپ میںدیکھا تو حمایت علی شاعر کی مشہور ِ زمانہ نظم ’’اَن کہی‘‘ کے چند مصرعے یاد آگئے؎ تجھ کو معلوم نہیں،تجھ کو بھلا کیا معلوم …تیرے چہرے کے یہ سادہ سے اچُھوتے سے نقوش …تیری زلفیں، تِری آنکھیں،تیرے عارض، تِرے ہونٹ…کیسی اَن جانی سی معصوم خطا کرتے ہیں…تیرے قامت کا لچکتا ہوا مغرور تنائو …جیسے پھولوںسے لَدی شاخ ہوا میں لہرائے۔ شو بز کی دنیا میں برق رفتاری سے کام یابیاں سمیٹنے والی حریم فاروق نےابتدا میںتھیٹر سے اپنی صلاحیتوںکا لوہا منوایا، بعد ازاں،ٹیلی ویژن اور فلم انڈسٹری کا رُخ کیا۔انہیں در اصل اُن کی انور مقصود کے مقبول ڈرامے ’’پونے 14اگست ‘‘میںفاطمہ جناحاور ’’آنگن ٹیڑھا‘‘ میںجہاںآراء کے کردار میںدل چُھولینے والی پرفارمینس نے سب کی توجّہ کا محورو مرکز بنایا۔ آج کل وہ اداکاری کے ساتھ فلم سازی میں بھی خُوب نام کما رہی ہیں۔حریم کی پروڈیوس کردہ فلمز میں ’’جانان‘‘،’’پرچی‘‘اورجیو فلمز اورIMGCکے اشتراک سے عیدالاضحی پر ریلیز ہونے والی فلم’’ہیر مان جا‘‘شامل ہیں۔حریمنےفلم ،’’سیاہ‘‘،’’جانان‘‘،’’دوبارہ پھر سے‘‘ اور’’ پرچی‘‘ میںشان دار اداکاری سےبھی فلم بینوںکے دل جیتے ۔ انہوں نے چھوٹی اسکرین پر کم ،مگر بہترین کام کیا۔ چند قابلِذکر ڈراموں میں، موسم،میرے ہم دَم ،میرے دوست،عید ہنگامہ، دیارِدل، میرے جیون ساتھی، تیرے بغیر،صنم،باغی اورمَیںخیال ہوںکسی اور کا وغیرہ شامل ہیں۔

26مئی 1989ءکو پاکستان کے دارالحکومت، اسلام آباد میںجنم لینے والی حریم فاروق نے سوشیالوجی اور جرنلزم میںگریجویشن کے بعد شوبز کو بہ طور کیریئر اپنایا اور اس سفر میںنہایت کام یابی سے آگے بڑھ رہی ہیں۔ ان کا خواب ہے کہ وہ صفِ اوّل کی فلم ساز اور اداکارہ بن کر پاکستان کا نام عالمی سطحپر روشن کریں۔ اِن دنوں وہ اپنی فلم ’’ہیر مان جا‘‘کی پروموشن میں مصروف ہیں، جس کا مرکزی کردار انہوں نے خود نبھایا ہے۔ گزشتہ دِنوںہم نےجنگ، سنڈے میگزین کے مقبولِ عام سلسلے ’’کہی اَن کہی‘‘کے لیے حریم سے تفصیلی بات چیت کی ، جس میں اُن کی زندگی کے کئی بند دریچے وا ہوئے، ملاحظہ فرمائیے۔

نمایندہ جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے

س: خاندان، ابتدائی تعلیم و تربیت کے متعلق کچھ بتائیں۔

ج : میرے والدین کا تعلق شعبۂ طِب سے ہے۔والد ڈبل پی ایچ ڈی اور امّی ماہرِ امراضِ جلد ہیں۔مَیں نے ابتدائی تعلیم بیکن ہاؤس اسکول سسٹم، اسلام آباد سے حاصل کی ۔ پھراے لیولز کے بعد پنجاب یونی وَرسٹی سے جرنلزم میں گریجویشن کیا۔ ہم دو ہی بہنیں ہیں، چھوٹی بہن آرکیٹیکٹ ہے۔ جب کہ زندگی میں بھائی کی کمی عمران کاظمی نے پُوری کی کہ وہ ، میرے لیے سگے بھائی سے بڑھ کرہیں۔

س: بچپن کیسا گزرا؟

ج : ہم دونوں بہنوں کا بچپن بہت پیارا تھا۔ مَیں اللہ تعالیٰ کا ہر پَل شُکر ادا کرتی ہوں کہ اس نے مجھے بہت پیارا، پُر سکون، خُوب صُورت بچپن عطا کیا۔ مَیں انتہائی معصوم ، جب کہ آرزو(چھوٹی بہن) بہت شرارتی تھی۔

س: آپ کی صبح کب ہوتی ہے؟

ج : (قہقہہ لگاتے ہوئے)یہ پوچھیں کہ آپ کی شب کب ہوتی ہے،کیوں کہ مَیں دوپہر میں اُٹھتی ہوں۔اکثر دوست مجھ سے شکوہ بھی کرتے ہیں کہ ’’ تم تو بہت مصروف ہوگئی ہو‘‘ تو مَیں اُن سے بس اتنا کہتی ہوں کہ پہلے اس بات پر ’’ماشاء اللہ‘‘کہیں کہ اچھی مصروفیت بھی ایک نعمت ہے۔

س: سال گرہ مناتی ہیں؟

ج : جی ہاں،26 مئی کو دوستوں اور فیملی کے ساتھ پارٹی کرکے سال گرہ کی خوب خوشی مناتی ہوں۔

س: فارغ اوقات کےکیا مشاغل ہیں؟

ج : میوزک کا بچپن ہی سےجنون کی حد تک شوق ہے، مگر خود بہت بُری سِنگر ہوں۔

س: والدین کا تعلق شعبۂ طب سےہے اور بہن آرکیٹیکٹ، آپ کی شوبز کی دُنیا میں آمد کیسے ہوئی؟

ج : مجھے بچپن ہی سے اداکاری کا شوق تھا۔ اسکول ، کالج میں بھی ثقافتی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کرحصّہ لیتی تھی اور امّی، ابّو نے بھی کبھی منع نہیں کیا۔ وہ ہمیشہ بہت حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ’’غیر نصابی سرگرمیوں میں حصّہ لینے سے بچّوں میں اعتماد بڑھتا ہے۔‘‘ مگرسپورٹیو والدین ہونے کے باوجود مجھے لگتا تھا کہ میرے لیےشوبز میں کیریئر بنانا مشکل ہے،اس لیے والدین سے کبھی اظہار نہیں کیا ۔ اے لیولز کے بعد لاء کالج میں داخلہ لیا، تو اس دَوران میرے بچپن کے دوست، عثمان خالد بٹ نے ایک تھیٹر پلے میں کام کی پیش کش کی،جس کے آڈیشن میں کام یاب رہی اور پھر ڈرامے میں میرے کردار اور اداکاری کو بھی خوب سراہا گیا۔ تب مجھے احساس ہوا کہ مَیں شوبز کو بہ طورکیریئر اپنا سکتی ہوں۔چوں کہ میری پُوری فیملی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے، توجب مَیں نے اُن سے کیریئر کے حوالے سے اپنی خواہش کا اظہار کیا، تو انہوں نے کہاکہ’’ تم ایکٹنگ ضرور کرو، لیکن ساتھ ہی پڑھائی بھی جاری رکھو۔ ‘‘ اور مَیں نے ایک تابع دار بیٹی کی طرح اُن کی بات مانی، شو بز سے منسلک رہتے ہوئے پنجاب یونی ورسٹی سے گریجویشن کیا۔

س: ’’ہیر مان جا‘‘ بہ حیثیت پروڈیوسر آپ کی کون سی فلم ہے ؟اور اس کا اتنا رومانوی نام کس نے رکھا؟

ج: یہ میری تیسری فلم ہے اور نام ہم سب کےمشورے سے رکھا گیا۔ ہم نے یہ نام ’’ہیر رانجھا‘‘ سے متاثر ہو کر رکھا ہے۔البتہ، کچھ باتیں ضرور ذہن میں تھیں، جیسےناظرین کی ایک بڑی تعداد کا تعلق پنجاب سے ہے، تو نام کے چُناؤ میں ا س بات کا خاص خیال رکھا گیا، دوسری اہم بات فلم کے مرکزی کردار کی حرکتیں ، شرارتیں، چُلبُلا پن بھی ہیر ہی کی طرح ہے، اس لیے بھی یہ نام منتخب کیا گیا۔ ویسے اسے کافی دوست ’’ہیر مانجھا‘‘ بھی کہہ رہے ہیں۔

س: عید پر ماہرہ خان ،مایا علی اور آپ تینوں کی فلمیں ریلیز ہورہی ہیں،تو جیت کس کی ہوگی؟

ج : میرا کسی سے کوئی مقابلہ نہیں ۔ ہم سب اچھے دوست ہیں اور چاہتے ہیں کہ تینوں فلمز کام یاب ہوں، یہ ایک ’’دوستانہ مقابلہ ‘‘ہے، جس سے فائدہ صرف اور صرف انڈسٹری کو ہوگا۔ اب وہ دَور چلا گیا، جب ہیروئنز ایک دوسرے کے مخالف ہوا کرتی تھیں۔

س: خاتون پروڈیوسر ہونےکے کیا فواید ہیں؟

ج : یہاں ایک بات کی وضاحت انتہائی ضروری ہے کہ جہاں بہ حیثیت پروڈیوسر نام ہوتا ہے،وہاں ذمّے داریاں بھی کئی گُنابڑھ جاتی ہیں، مگر مَیں ڈائریکٹر کے کام میں ہرگز مداخلت نہیں کرتی۔ پروڈیوسر ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ سارے سین خود کرلوں۔ ویسےمومنہ دُرید، سعدیہ جبّار اور فضا علی مرزا، بہ حیثیت خاتون پروڈیوسرز اچھی فلمیں بنا رہی ہیں،تو یہ ضرور ہے کہ خواتین کسی سے کم نہیں ۔

س: زندگی کی پہلی کمائی کتنی تھی؟

ج : تھیٹرمیں پانچ مہینے کام کرنے کے 20 ہزار روپے ملے تھے۔ اُس دن میں بہت خوش تھی، سیدھی والدین کے پاس گئی اور ساری رقم ان کے ہاتھ پر رکھ دی ۔

س: آپ کی فیملی میں سے کوئی شوبز میں نہیں،تو فیلڈ میں آنے کے بعد کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا؟

ج : مَیں گھر والوں کا مشورہ لے کر، اُن کی اجازت سے فیلڈ میں آئی تھی، تو پھر مشکلات کا سامنا کیسا۔ ہاں مَیں اپنی اداکاری کو بہتر کرنے کے لیے مشکلات سے ضرور گزرتی ہوں۔

س: ’’آنگن ٹیڑھا‘‘ میں بشریٰ انصاری کا کردار ’’جہاں آرا‘‘ کیا تو انور مقصود سے ڈانٹ تو سُننے کو ملی ہو گی؟

ج : انور صاحب تو بہت پیار سے سمجھاتے ہیں۔ ڈانٹنا تو دُور کی بات، انہوں نے ذرا سی ناراضی کا اظہار بھی نہیں کیا بلکہ آپ کو ایک بات بتاؤں،انور مقصود نے ’’آنگن ٹیڑھا‘‘ تھیٹر کے لیے لکھنےسے قبل ایک شرط رکھی تھی کہ اگر ’’جہاں آرا‘‘ کا کردار حریم فاروق کریں گی، تو ہی یہ ڈراما لکھوں گا۔ ’’آنگن ٹیڑھا‘‘ میرا پسندیدہ ڈراما رہا ہے، جب یہ پی ٹی وی سے آن ایئر ہوا تھا، تو اس وقت تو مَیں پیدا بھی نہیں ہوئی تھی، پر یہ ڈراما مَیں نے یُو ٹیوب پر دیکھا اور اس کی فین ہوگئی۔

س: اس چمکتی دمکتی دُنیا میں آپ کی منزل، کہاں ہے؟

ج : مجھے فلم انڈسٹری کے حوالے سے پاکستان کو بہت آگے لے کر جانا ہے۔ مَیں اپنی ہر کام یابی اپنے مُلک کے نام کرنا چاہتی ہوں، میری پہچان یہ مُلک ہےاور مجھے اسی مُلک میں بہت آگے جانا ہے۔ یوں کہیے، ایک روشن پاکستان میرا خواب، میری منزل ہے۔

س: پانچ برس بعد خود کوکہاں دیکھ رہی ہیں؟

ج : اپنے آپ کو بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی نمایندگی کرتا دیکھ رہی ہوں۔

س: زندگی کا کوئی یادگار لمحہ؟
ج :
(پُر جوش انداز میں)بہت بہت… بہت سارےلمحات یادگار ہیں۔ میرا بچپن ، نانا، نانی، دادا، دادی کے ساتھ خُوب صورت یادیں سمیٹتے گزرا اور مَیں وہ لمحات کبھی فراموش نہیں کر سکتی۔ الگ الگ فیملی کے ہونےکے باوجود شام میں ہم سب اکٹھے ہوتے تھے۔

س: زندگی سے کیا سیکھا؟ کسی کی احسان مند ہیں؟

ج : سیکھنے کا عمل تو ساری زندگی ہی جاری رہتا ہے۔ میرے نزدیک زندگی خُوب صُورتی کا نام ہے اور مَیں سب سے پہلے اُن لوگوں (والدین) کی احسان مند ہوں، جو مجھے اس دنیا میں لائے، میری پرورش کی اور مجھے اپنی پہچان بنانے کے قابل بنایا ،والدین کے بعد عمران کاظمی اور ثمرہ مسلم نے ہمیشہ میرا بھلاچاہا۔

س: زندگی میں جو چاہا، پا لیایا کوئی اور خواہش ادھوری ہے؟

ج : الحمدُ للہ! مجھے قدرت نے بہت نوازا ہے اور مَیں بہت خوش ہوں۔

س: زندگی کا کون سا دَور سب سے اچھا لگتا ہے؟

ج : اسکول ،کالج کا دَور بہت اچھا ، یاد گار گزرا۔ مَیں پڑھاکو سے زیادہ ’’جُگاڑو ‘‘تھی، ہمیشہ آخری دنوں میں امتحانات کی تیاری کرتی۔ہاں،ہم نصابی سرگرمیوں اسپورٹس ، تقریری مقابلوں وغیرہ میں ہمیشہ آگے آگے رہتی۔

س: عشق ،محبّت کا زندگی میں کتنا عمل دخل ہے؟

ج : عمل دخل تو بالکل ہے۔لیکن یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ اگر زندگی میں عشق و محبت نہیں ، تو کچھ نہیں ۔

س: عملی طور پر عشق کے تجربے سے گزریں؟

ج : ابھی تک تو ایسا نہیں ہوا۔

س: آپ کے نزدیک کام یاب زندگی گزارنے کا سنہرا اُصول کیا ہے؟

ج : ہر حال میں رَبّ کا شُکر ادا کریں۔ہر غم، خوشی میں اللہ کی کوئی نہ کوئی مصلحت ضرور ہوتی ہے۔

س: زندگی میں کسی اور مُلک جابسنے کا موقع ملے، تو کہاں رہنا پسند کریں گی؟

ج : دُنیا گھومنے کا بہت شوق ہیں۔ تُرکی، فرانس، امریکا، کینیڈا، برطانیہ، استنبول وغیرہ میں رہنے کو جی چاہتا ہے۔

س: کوکنگ کا شوق ہے؟

ج : نہیں، مگر اچھے پکوان بنا لیتی ہوں اور زیادہ تر امّی، ابّو کے لیے کوکنگ کرتی ہوں۔

س: اَدب سے کتنا لگاؤ ہے؟

ج : جب بھی وقت ملتا ہے، فیض احمد فیض اور بلّھے شاہ کو پڑھتی ہوں۔ آج کل جون ایلیا کو پڑھ رہی ہوں۔ اَدب کا شوق والدین سے وَراثت میں ملاہے، انہیں تو کتابوں سے عشق ہے۔

س: کس بات پر غصہ آتا ہےاورردّ ِعمل کیا ہوتا ہے؟

ج : جھوٹ پر میرا دماغ جھنجھلا جاتا ہےاور اگر مَیں خود کبھی جھوٹ بولوں، تو فوراً پکڑی جاتی ہوں، اس لیے بالکل نہیں بولتی۔ اسی لیے صاف گو، منہ پَھٹ ہوں، کسی کی بات دل میں نہیں رکھتی، منہ پہ ہی کہہ دیتی ہوں۔

س: شُہرت نے آپ کی شخصیت پر کیا اثرات مرتّب کیے؟

ج : حریم پہلے خود کو’’مشہور‘‘ سمجھے تو سہی۔ مَیں تو خود کو اسٹار نہیں سمجھتی، ایک عام ، سادہ سی بندی ہوں اور میرے زیادہ تر دوست بھی شوبز کے نہیں، بہت پرانے ہیں۔ اور وہ میرے لیے کسی نعمت سے کم نہیں ہیں کہ انہوں نے میرا دماغ خراب نہیں ہونے دیا۔ مجھے کبھی محسوس نہیں ہوتاکہ مَیں کوئی مشہور شخصیت ہوں۔

س: محبت، دولت اور شہرت میں سے آپ کا انتخاب کیا ہوگا؟

ج : پہلا اور آخری انتخاب محبت…

س: آپ کے وزن پر سوشل میڈیا پر بحث ہوتی رہتی ہے، اس کی کیا وجہ ہے؟

ج : اب تو سب کہہ رہے ہیں کچھ زیادہ ہی وزن کم کرلیا ہے۔

س: پریشانی سے نکلنے کے لیے کیا کرتی ہیں؟

ج : پرانے دوستوں کے ساتھ بیٹھ جاتی ہوں۔ ہنسی مذاق کرتی ہوں، کچھ وقت ساتھ گزارتی ہوں، تو ساری پریشانیاں خود ہی ختم ہو جاتی ہیں۔

س: تنقید کیسی لگتی ہے؟

ج : دل سے کی جائے اور بہتری کے لیے کی جائے تو اچھی لگتی ہے۔ فضول تنقید پہ مَیں کان بھی نہیں دھرتی۔

س: زندگی کا بُرا وقت کون سا تھا؟

ج : برا وقت جو بھی آئے، اُسے بُھلا دینا چاہیے اور اچھے وقت کے لیے ہمیشہ شکرگزار رہنا چاہیے۔

س: والدین کی محبت کو کس طرح بیان کریں گی؟

ج : ان کی بے لوث محبّت الفاظ میں بیان ہی نہیں کی جا سکتی۔

س: اگر کسی بچّے کو نصیحت کرنی ہو تو؟

ج : کبھی دُنیا والوں سے نہیں گھبرانا۔

س: فن کارہ نہ ہوتیں، تو…؟

ج : تو ماہرِ نفسیات یا وکیل ہوتی۔

س: آپ کا کوئی راز؟

ج : راز کا مطلب راز ہوتا ہے۔ مَیں کسی کو کیوں بتائوں۔

س: کوئی ایسی یاد ، جسے دل سے جُدا نہ کرنا چاہتی ہوں؟

ج : اچھی یادیں ہمیشہ ساتھ رکھتی ہوں۔

س: آخری بار دل دھڑکنے کی آواز کب سُنی تھی؟

ج : میں تو روز سُنتی ہوں۔

س: زندگی سے موبائل فون نکال دیا جائے تو؟

ج : میری زندگی میں موبائل فون ہے ہی نہیں۔ سب ہی کو یہ شکایت رہتی ہے کہ تم میسجز یا کالز کا جواب نہیں دیتیں۔

س: موسیقی کس طرح کی سُنتی ہیں؟

ج : ہر طرح کی موسیقی سُنتی ہوں۔ نصرت فتح علی، عاطف اسلم، عاصم اظہر، آئمہ بیگ، فریدہ خانم کے گیت ، غزلیں سماعتوں میں رَس گھولتے ہیں۔

س: ای میلز چیک کرتی ہیں؟

ج : میری ٹیم کرتی ہے۔

س: آپ کے پرس کی تلاشی لی جائے تو؟

ج : سوائے شناختی کارڈ، اے ٹی ایم اور فیملی کی تصویر کے کچھ نہیں ملے گا۔

س: شاپنگ کس کے ساتھ کرنا پسند کرتی ہیں؟

ج : ثمرہ اور عمران کاظمی کے ساتھ شاپنگ کرتی ہوں اور اس معاملے میں دوستوں کو بہت تنگ کرتی ہوں۔

س: کبھی سی این جی کے لیے لائن میں لگی ہیں؟

ج : ایک زمانے میں میری گاڑی سی این جی پر چلتی تھی ،تو لائن میں بھی لگتی تھی۔ زیادہ لمبی لائن ہوتی تو کوئی دُوسرا اسٹیشن ڈھونڈ لیتی ۔

س: عورت نرم دل ہے یا مرد؟

ج : میں نے بہت سخت دل عورتیں بھی دیکھی ہیں اور مرد بھی۔

س: شادی کا کب ارادہ ہے؟

ج : امّی ،ابّو پسند کی شادی کا کہتے ہیں، مگر مَیں والدین کی پسند سے شادی کروں گی اور ایسے شخص سے شادی کروں گی، جو منکسر المزاج ہو، خود خوش رہتا ہو اور دوسروں کو بھی خوش رکھتا ہو۔

س: سیاست اور اسپورٹس سے کتنی دل چسپی ہے؟

ج : سیاست سے دُور رہتی ہوں۔ کرکٹ پسندیدہ کھیل ہے اور شاہد آفریدی پسندیدہ کھلاڑی۔

س: ایک دُعا ،جو ہمیشہ لبوں پر رہتی ہے؟

ج : اپنے والدین اور بہن کے لیے ہر وقت دُعا کرتی ہوں۔ اللہ تعالیٰ انہیں سلامت رکھے۔آمین

س: پاکستانی فلموں کے تین سپر اسٹار زکون ہیں؟

ج : فوّاد خان، ہمایوں سعید اور علی رحمان۔

س: تین نمبر وَن ہیروئنز کون سی ہیں؟

ج : ماہرہ خان، مہوش حیات اور… اور …

س: رقص ،فلم کی بنیادی ضرورت ہے، آپ کو رقص آتا ہے؟

ج : جی ،بالکل آتا ہے اورکوریو گرافر کی مدد سے تو اور زیادہ اچھا کر لیتی ہوں۔ آپ نے فلم ’’پرچی‘‘ میں نہیں دیکھا، ’’ہائے بِلّو ،ہائے بِلّو‘‘۔

س: رقص کرتے وقت کس اداکارہ کوذہن میں رکھتی ہیں؟

ج : مَیں مادھوری ڈکشٹ کی بہت بڑی فین ہوں۔

س: آپ کے دوستوں کو آپ میں کس اداکارہ کی شباہت نظر آتی ہے؟

ج : میرے سارے دوست مجھےکترینا کیف کہتے ہیں۔اور مجھے اچھا بھی لگتا ہے،کیوں کہ کترینا مجھے بہت پسند ہے۔

س: دوسرے پروڈیوسرز فلموں میں کام کی پیش کش کرتے ہیں؟

ج : میں زیادہ وقت اپنی پروڈکشن کو دینا چاہتی ہوں۔ اس لیے کسی اور گروپ کے ساتھ کام نہیں کرتی۔

بشریٰ آپا نے اداکاری کی تعریف کی تو ٹانگوں سے جان نکل گئی

وہ لمحہ مَیں کبھی فراموش نہیں کر سکتی، جب بشریٰ آپا ڈراما ’’آنگن ٹیڑھا‘‘دیکھنے آئیں اور میرے کام کی تعریف کی۔جب انہوں نے ڈرامے کے اختتام پر اپنی رائے دیتے ہوئے کہا کہ ’’جہاں آراء‘‘ کا کردار حریم نے مجھ سے اچھا نبھایا ہے، تو یہ سُن کر میری ٹانگوں سے جیسےجان نکل گئی ۔ اس سے قبل جب مجھے میک اَپ رُوم میں بتایا گیا تھاکہ بشریٰ آپا ڈراما دیکھنے آئی ہیں، تو مَیں نے انور صاحب سے کہا کہ ’’مَیں اسٹیج پر پرفارم کرنے نہیں جا ؤں گی ۔مَیں نے بار بار کہا کہ یا تو آج کا شو کینسل کروا دیں یا بشریٰ آپا کو واپس بھیج دیں کہ مَیں اُن کے سامنے اداکاری نہیں کر سکتی۔‘‘ اورآج جب بھی بشریٰ آپا ملتی ہیں، تو مَیں اُن سے ضرور کہتی ہوں کہ ’’آپ کی تعریف میری زندگی کی سب سے بڑی اچیومنٹ ہے۔

ایکسیڈنٹ میں بازو ٹوٹ گیا تھا، چھے مہینے گھر بیٹھی رہی…

ویسے مجھے زندگی کا کوئی دَورسخت ترین نہیں لگتا۔ تاہم، ایک دَور تھا،جو مجھ پر بہت مشکل گزرا، جب ایک خطر ناک حادثے کے نتیجے میں، میرا بازو ٹوٹ گیا اور مَیں چھے مہینے گھر بیٹھی رہی ۔یہ ُاس زمانے کی بات ہے، جب میں نے ’’آنگن ٹیڑھا ‘‘میں کام کیاتھا۔اُس وقت میں شو بز میں بالکل نئی نئی آئی تھی۔مَیں اصل میں لیفٹی ہوں،سارے کام اُلٹے ہاتھ سے کرتی ہوں، اور میرا وہی ہاتھ ٹوٹا تھا۔