چغل خور

October 05, 2019

عائشہ ذوالفقار

پرانے وقتوں کی بات ہے کسی گائوں میں ایک چغل خور رہتا تھا۔ دوسروں کی چغلی کھانا اس کی عادت تھی۔ لاکھ کوشش کے باوجود وہ اپنی اس عادت کو نہ چھوڑ سکا۔ ہزار بار ارادہ کرتا کہ اب وہ جھوٹ نہیں بولے گا۔ لیکن وہ ہربار ناکام ہو جاتا۔ اسی وجہ سے اُسے کہیں ملازمت نہیں ملتی تھی تھوڑے دن بعد ہی وہ نکال دیا جاتا تھا وہ بے کار بیٹھ گیا۔

کچھ دن تک تو جمع پونجی پر گزر بسر ہو گئی، مگر جب سرمایہ ختم ہو گیا تو وہ بہت پریشان ہوا آخر کار اس نے کہیں اور جا کر قسمت آزمانے کا فیصلہ کیا۔ وہ ایک دوسرے گائوں میں گیا۔ جہاں کسان کھیت میں کام کر رہا تھا۔ اس نے کسان سے کہا ’’کیا تم مجھے اپنے پاس ملازمت پر رکھو گے۔

کسان نے کچھ دیر سوچا اوراسے اپنے پاس ملازمت پر رکھ لیا۔ چغل خور نے تنخواہ کے بدلے میں روٹی، کپڑا اور چھ ماہ بعد ایک چغلی کھانے کی شرط رکھی۔ کسان نے سوچا کہ میری چغلی کھا کر یہ میرا کیا بگاڑے گا۔ میرے کون سے راز ظاہر کرے گا۔

دن گزرتے گئے اور کسان یہ بات بھول گیا کہ چغل خور نے چھ ماہ بعد چغلی کھانے کی اجازت مانگی تھی۔ چھ ماہ گزر گئے تو چغل خور اپنی عادت سے مجبور ہو گیا۔ ایک روز کسان کھیتوں میں اور اس کی بیوی گھر میں اکیلی تھی۔

چغل خور کسان کی بیوی کے پاس گیا اور کہنے لگا کہ کسان کو کینسر ہو گیا ہے۔ اس نے آپ سے یہ بیماری چھپائے رکھی۔ کسان کی بیوی نے تعجب کا اظہار کیا ۔ کسان کینسر کا مریض ہے اور اب وہ تھوڑے دن ہی زندہ رہ سکے گا۔ کسان کی بیوی نے کہا کہ میں دوپہر کا کھانا دینے جائوں گی تو پوچھوں گی‘‘ یہ بتا کر چغل خور وہاں سے چلا گیا اور کسان کے پاس پہنچا وہ اپنے کاموں میں مصروف تھا۔

چغل خورنے کہا کہ ’’تمہاری بیوی پاگل ہو گئی ہے اور پاگل پن میں آدمیوں کو کاٹنے کو دوڑتی ہے‘‘ کسان سوچ میں پڑ گیا، چغل خور نے کہا ’’ کہ تمہاری بیوی دوپہر کا کھانا دینے آئے گی تم خود ہی دیکھ لینا۔‘‘ کسان سےفارغ ہو کہ وہ اس کےسالوں کے پاس چلا گیا اور کہا کہ تمہارا بہنوئی تمہاری بہن کو روزانہ زور زور سے مارتا ہے۔ چغل خور کی اس بات سے کسان کے سالے بہت غصہ اور پریشان ہو گئے۔ یہاں سے رخصت ہو کر چغل خور کسانوں کے بھائیوں کے پاس چلا گیا اور کہنے لگا کہ ’’تمہارے بھائی کے سالے ہر چوتھے روز کسان کی پٹائی کرتے ہیں اور تم لوگوں کو کچھ خبر نہیں ہے، اگر یقین نہ ہو تو دوپہر کو آکر دیکھ لینا۔

کسان کی بیوی جب دوپہر کا کھانا لے کر آئی تو کسان اسے عجیب و غریب نظروں سے دیکھنے لگا وہ اس کے قریب ہونے سے ڈر رہا تھا۔ کسان کی بیوی اس سے اپنے سوال کا جواب پوچھنا چاہتی تھی لیکن کسان اس سے دُور دُور ہوتا گیا۔ کسان سے رہا نہ گیا اس نے فوراً اپنی جوتی اتار کر بیوی کی پٹائی شروع کر دی۔ اتنے میں کسان کے سالے بھی آگئے اور آتے ہی کسان پر ٹوٹ پڑے کہ نوکر نے سچی بات بتائی تھی۔

اتنے میں کسان کے بھائی بھی آگئے اور وہ سب مار پیٹ کرنے لگے۔ مکے لاٹھیاں چپلیں سب خون میں نہا گئے۔ کھیت میں کام کرنے والے دوسرے لوگ جمع ہو گئے لڑائی کی وجہ پوچھی! ہر ایک نے وہ بتایا جو انہیں چغل خور بتا کر گیا تھا۔ گائوں کے لوگ چغل خور کو ڈھونڈنے لگے۔

آخر کار وہ مل ہی گیا سب نے مل کر اس کی پٹائی کی اور اب چغل خور کو گائوں سے نکال دیا کسان نے اپنی بیوی سے معافی مانگی۔ سالے اور بھائیوں نے بھی ایک دوسرے سے معافی مانگی اور سب ہنسی خوشی رہنے لگے۔

دیکھا بچو! چغلی کھانا اور جھوٹ بولنا بہت ہی بری عادت ہے۔ آپ لوگ ہمیشہ سچ بولنا کیوں سچ میں بڑی طاقت ہے۔ عزت بڑھتی ہے۔