تخلیقی جوہر اور ذہنی امراض

October 31, 2019

دنیا کے بعض نام ور شاعروں اور ادیبوں نے خودکُشی کرلی تھی۔اردو کے بعض اہل قلم نے بھی خود اپنی جان لے لی تھی۔ لوگ خود کُشی کیوں کرتے ہیں ؟

خودکُشی کی کئی وجوہات ہوتی ہیں لیکن ادب تخلیق کرنے کی صلاحیت بھی خودکُشی کا سبب بن سکتی ہے یا کم از کم اس کی وجہ سے خود کُشی کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ مغرب میں کیے گئے بعض تحقیقی مطالعات سے ثابت ہوا ہے کہ تخلیقی صلاحیتیں رکھنے والے افرادیعنی شاعر، ادیب ، مصور اور دیگر فنون سے متعلق افرادکے ذہنی امراض میں مبتلا ہونے کا زیادہ امکان ہوتا ہے۔

امریکی ریاست آئیووا میں 2005میں اہل قلم کی ایک کارگاہ (ورک شاپ) میں یکساں تعلیمی پس منظر اور یکساںذہانت کے حامل افراد کی شخصیت کا تجزیہ کیا گیا تو یہ نتائج سامنے آئے کہ جو لوگ ادیب یا شاعرہوتے ہیں ان کے مزاج میں تلوّن زیادہ ہوتا ہے اور ان کا’’موڈ‘‘ غیرمتوقع طور پر تبدیل ہونے کا زیادہ امکان ہوتا ہے ۔

ڈاکٹر ڈونالڈ ڈبلیو گولڈ وِن نے اپنی ایک تحقیق میں بتایا ہے کہ امریکا کے جن گیارہ ادیبوں کو ادب کا نوبیل انعام مل چکا ہے ان میں سے چار (یوجین اونیل ، سنکلیر لیوس، ارنسٹ ہیمنگ وے اور ولیم فاکنر )مرض کی حد تک شراب کے دھتیا تھے اور پانچویں (یعنی جان اسٹین بیک) کے بارے میں شبہ ہے کہ وہ بھی ’’غالباً‘‘شراب ِ خانہ خراب کے مارے ہوئے تھے۔

سویڈن کی طبی یونی ورسٹی کیرولنسکا انسٹی ٹیوٹ میں تقریباً بارہ لاکھ افراد کے طبی ریکارڈ کی بنیاد پر ذہنی امراض مثلاً شیزو فرینیا(تقسیم ِ شخصیت یا دُہری شخصیت کا مرض)،حزن یا افسردگی ( ڈپریشن )، شراب کی لت اور خودکُشی کے ارادے کے رجحانات پر تحقیق کی گئی جس سے معلوم ہوا کہ جو لوگ تخلیقی صلاحیتوں کے حامل تھے ، بالخصوص ادیب و شاعر، ان میں خود کُشی کا رجحان دیگر افراد کے مقابلے میں دُگنا زیادہ تھا ۔

جن نام وراہل قلم نے خود کُشی کرلی ان میں ورجینیا وولف، ارنسٹ ہیمنگ وے ، سلویا پلاتھ (انگریزی)، صادق ہدایت، تقی رفعت (فارسی)، علامہ آئی آئی قاضی (سندھی)،مِشی ما یوکیو (جاپانی ) وغیرہ شامل ہیں۔ یہ فہرست بہت طویل ہے اور جُمانہ حدّادنامی لبنانی شاعرہ اور صحافی نے ایسے ڈیڑھ سو شاعروں کے کلام کا انتخاب ایک مجموعے کی شکل میں شائع کیا جنھوں نے خود کُشی کرلی تھی۔ اس مجموعے کا نام ہے:

Death Will Come and It Will Have Your Eyes

اس سوال کا کہ لوگ خود کُشی کیوں کرتے ہیں، جواب ماہرین نے تفصیل سے دیا ہے۔ مختصراً یہ کہ ڈپریشن اور اس سے پیدا ہونے والی مایوسی خودکُشی کی بڑی وجہ ہے۔ ادیب اورشاعر بہت زیادہ حسّاس ہوتے ہیں جس سے ڈپریشن اور مایوسی کا امکان بھی بڑھ جاتا ہے۔

بہرحال، تفصیلات میںجائے بغیر اردو کے ان اہل قلم میں سے کچھ کا ذکر پیش ہے جنھوں نے خودکُشی کرلی تھی ۔ اس موضوع پر ڈاکٹر صفیہ عباد کی کتاب ’’راگ رُت، خواہش ِ مرگ اور تنہا پھول‘‘ کچھ عرصے قبل شائع ہوچکی ہے اور اگرچہ اس میں کچھ تفصیلات کی کمی ہے لیکن یہ بہرحال مفید ہے۔ اس مضمون کی تیاری میں دیگر مآخِذ کے علاوہ اس کتاب سے بھی مدد لی گئی ہے۔

٭… شمس آغا

شمس آغا گو بہت معروف نہ سہی، لیکن وہ ایک باصلاحیت افسانہ نگار اور ناول نگارتھے۔وہ ایک حساس انسان تھے اور ان کے بچپن میں ان کے والدین کے درمیان علیحدگی ہوگئی تھی جس نے ان کے ذہن پر برا اثر ڈالا تھا۔ شمس آغا 1922میں پیدا ہوئے تھے اور ۳؍ دسمبر 1945کو اچانک غائب ہوگئے تھے ۔ پھر کبھی واپس نہیں آئے۔

وہ ڈاکٹر وزیر آغا کے قریبی رشتے دار اور عزیز دوست تھے اور وزیر آغا کا خیال تھا کہ شمس آغا نے خود کُشی کرلی ہے کیونکہ ایک بار جب شمس آغا نے خواب آور دواؤں کی بڑی مقدار کھالی تھی تو وزیر آغا ہی نے ان کی جان بچائی تھی۔ شمس آغا نے نو (۹) افسانے اور ایک نامکمل ناول لکھا تھا۔

٭… شکیب جلالی

آج ہم پاکستان کے اہم اردو شعرا میں شکیب جلالی کا شمار کرتے ہیں لیکن ان کے ہم عصروں نے انھیں زیادہ تر نظر انداز ہی کیا۔ شکیب جلالی کا اصل نام سید حسن رضوی تھا اور وہ علی گڑھ کے قریب واقع ’’جلال ‘‘نامی ایک قصبے میں یکم اکتوبر 1934کو پیدا ہوئے تھے۔شکیب کے والد کسی نفسیاتی بیماری میں مبتلا تھے اور انھوں نے شکیب کی والدہ کو دھکا دے کر ایک چلتی ریل گاڑی کے سامنے گرادیا تھا۔

اس وقت شکیب کی عمر دس سال تھی اور انھوں نے اپنے بھائی بہنوں کے ساتھ اس ہول ناک منظر کو بچشم ِ خود دیکھا تھا ۔ اس الم ناک حادثے کے نفسیاتی و جذباتی اثرات سے شکیب کبھی بھی نہ نکل سکے اور انھوں نے سرگودھا میں 12نومبر 1966کو خود کو اسی طرح چلتی ٹرین کے سامنے گرا کر خود کُشی کرلی ۔شکیب جلالی کا شعری مجموعہ ’’روشنی اے روشنی ‘‘ 1972میں منظر ِ عام پر آیا اور 2004میں ان کی شعری کلیات شائع ہوئی۔

٭… سارا شگفتہ

اردو اور پنجابی کی شاعرہ سارا شگفتہ 31؍اکتوبر 1954کو گوجرانوالہ میں پیداہوئیں۔ ایک غریب گھرانے سے تعلق تھا اور پڑھ لکھ کر اپنا مقام بنانے کی خواہش مند تھیں لیکن میٹرک کے امتحان میں کام یاب نہ ہو سکیں۔سوتیلی والدہ کے ساتھ نا خوش گوار تعلق اور کم عمری کی شادی کی ناکامی ان کے ذہنی اضطراب کا سبب بن گئے ۔

اس کے بعد انھوں نے تین مزید شادیاں کیں(ان کے دو شوہر شاعر تھے)۔ ان ناکامیوں سے دل برداشتہ ہو کر انھوں نے ایک بار خودکُشی کی کوشش کی لیکن ناکام رہیں۔آخر 4؍ جون 1984کو سارا شگفتہ نے کراچی میں خود کو ایک چلتی ٹرین کے آگے گرا کر خود کُشی کرلی۔سارا کی پنجابی شاعری کے تین اور اردو شاعری کے دو مجموعے شائع ہوئے۔

٭… آنس معین

حساس دل کے مالک اور پُر اثر شاعرسید آنس معین بلّے29؍ نومبر 1960کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ گھر کا ماحول مذہبی تھا اور تصوف سے گہر ا لگاو رکھتے تھے لہٰذا باور نہیں آتا کہ آنس معین نے خود کُشی کی ہوگی۔ کہتے ہیں کہ آنس کے ایک صوفی دوست نے حیات بعد ممات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہاں کے بعد دوسری دنیا کی جو زندگی ہے وہ اتنی حسین ہے کہ اگر لوگوں کو معلوم ہوجائے تو دنیا کی آدھی آبادی خود کُشی کرلے ۔اس کے علاوہ بھی کچھ کہانیاں اس کی موت کے بارے میں مشہور ہیں ۔ بہرحال، آنس معین نے ملتان میں 5؍ فروری 1985ء کو خود کو ایک چلتی ریل گاڑی کے آگے گرا کر خود کُشی کرلی۔

٭… ثروت حسین

اردو اور پنجابی کے شاعر ثروت حسین کراچی میں 9؍ نومبر 1949ء کو پیدا ہوئے۔ یونی ورسٹی کے زمانے میں ایک لڑکی کو دل دے بیٹھے (وہ لڑکی آگے چل کر نام ور شاعرہ بنی اور نسائی حسیّت کے ضمن میں اس کا نام بہت معروف ہے)۔ ثروت حسین بے روزگار تھے لیکن کراچی کے ایک کالج میں اردو کے استاد ہوگئے۔ ادھر وہ خاتون جب شاعرہ کی حیثیت سے آسمان ِ ادب پر چمکنے لگیں تو انھوں نے ثروت کو نظر انداز کرنا شروع کردیا۔

ثروت نے دل برداشتہ ہو کر اپنا تبادلہ لاڑکانہ کے قریب واقع ایک چھوٹے سے قصبے کے کالج میں کرالیا۔مگر وہ تنہائی کے عذاب اور اپنے پیاروں سے بچھڑ جانے کے کرب ناک احساس سے دوچار ہوگئے ۔ 1988 ء میں ثرو ت حسین کا تبادلہ حیدرآباد کے ایک کالج میں ہوگیا لیکن اس وقت تک وہ نفسیاتی عوارض میں مبتلا ہوچکے تھے۔ 1993ء میں ثروت حسین نے خود کو ایک چلتی ٹرین کے آگے گرا کر خود کُشی کرنے کی کوشش کی۔ وہ بچ گئے مگر ان کی دونوں ٹانگیں ضائع ہوگئیں اور وہ معذور ہوگئے۔ 9؍ ستمبر 1996ء کو انھوں نے کراچی میں ایک چلتی ٹرین کے آگے آکر خود کُشی کرلی۔ثروت کا ایک شعر خود کُشی کی طرف اشارہ کررہاہے :

موت کے درندے میں اک کشش تو ہے ثروت

لوگ کچھ بھی کہتے ہوں خود کُشی کے بارے میں

عجیب بات یہ ہے کہ ہمارے کئی شعرا نے ٹرین کے نیچے آکر خود کُشی کی ۔ ٹرین میں ایسی کیا پُر اسراررومانیت ہے جو شاعروں کو مسحور کردیتی ہے؟ شاید چلتی ٹرین اور اس کی پٹڑیاں بذات ِ خود ایک طویل اور دائمی سفر کا استعارہ ہیں، ایک ایسا سفر جس سے کوئی واپس نہیں آتا۔اور اب اردو کے ان اہل قلم کا ذکر جن کی موت پراسرار حالات میں ہوئی اور ان کی موت سے متعلق سوالات ہنوز تشنہ ٔ جواب ہیں :

٭…مصطفی زیدی

اردو کے معروف شاعر مصطفی زیدی کا اصل نام سید مصطفی حسنین زیدی تھا۔ وہ الہ آباد میں 10؍ اکتوبر 1930ء کو پیدا ہوئے ۔ ہجرت کرکے پاکستان آئے ۔ اعلیٰ ملازمتوں کے امتحان میں شریک ہوکر کام یاب ہوئے اور اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے۔ مصطفی زیدی نے 12؍ اکتوبر 1970ء کو کراچی میںپراسرار حالات میں انتقال کیا۔ کچھ کا خیال تھا کہ انھیں ان کی ایک ’’دوست‘‘ خاتون نے زہر دے کر قتل کیا اور کچھ کا خیال تھا کہ انھوں نے خود کُشی کی ہے۔ مصطفی زیدی ملازمت کے دوران میں پیش آنے والے چند ناگوار واقعات سے پریشان تھے اور پہلے بھی چند بار خود کُشی کی کوشش کرچکے تھے۔مصطفی زیدی کے سات شعری مجموعے اور کلیات بھی شائع ہوچکی ہے۔ مصطفی زیدی نے اپنے اس شعر میں شاید اپنی موت کی طرف اشاہ کیا تھا :

اب جی حدود ِ سود و زیاں سے گزر گیا

اچھا وہی رہا جو جوانی میں مر گیا

٭… قمر عباس ندیم

قمر عباس ندیم 1944ء میں پیدا ہوئے۔وہ اردو کے اچھے افسانہ نگار اور پیشے کے لحاظ سے میڈیکل ڈاکٹر تھے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ڈاکٹر قمر عباس ندیم نے خود کُشی نہیں کی بلکہ ان کی گاڑی کا حادثہ ہوگیا تھا۔ قمر عباس ندیم کے ایک قریبی دوست (نام صیغہ ٔ راز میں رکھا جارہا ہے) نے راقم الحروف کو بتایا کہ قمر کئی بار زندگی کے ’’بے معنی‘‘ ہونے پر گفتگو کرچکے تھے ۔ 29؍ مئی 1981ء کو انھوں نے کراچی میں خواب آور دوائیں کھاکر اپنی تیز رفتار گاڑی بجلی کے کھمبے سے ٹکر ادی۔ دواؤں کے استعمال کی وجہ یہ تھی کہ وہ اپنی موت کو یقینی بنانا چاہتے تھے۔ لیکن ان کی موت کو بالعموم حادثہ ہی سمجھا گیا۔قمر عباس ندیم کے افسانوں کے دو مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔