امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا مواخذہ

January 29, 2020

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مواخذے کا مقدمہ بتدریج آگے بڑھ رہا ہے۔ تازہ ترین کارروائی میں ٹرمپ کی دفاعی ٹیم ڈیموکریٹک پارٹی پر جوابی الزامات لگا رہی اور کہہ رہی ہے کہ یہ سب دراصل ٹرمپ کے صدر منتخب ہونے پر نالاں ہیں اور اس انتخاب کے نتائج کو بدل کر ٹرمپ کو ہٹانا چاہتے ہیں۔

واضح رہے کہ دنیا کے اکثر ممالک کی طرح امریکا میں بھی یہ قانون ہے کہ الزام لگانے والوں کو اپنا الزام ثابت کرنا ہوتا ہے اور ملزم کو دفاع کا حق ہوتا ہے لیکن ملزم پر خود کو معصوم یا بے گناہ ثابت کرنے کی ذمہ داری نہیں ہوتی ،بل کہ اسے مجرم ثابت کرنا مخالف فریق کا کام ہوتا ہے۔

یہ بات دل چسپی کا باعث ہے کہ امریکا کی آزاد تاریخ میں تقریباً ڈھائی سو برس کے عرصے میں یہ تیسری مرتبہ ہورہا ہے کہ امریکی صدر کو مواخذے کے ذریعے ہٹانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ آیئے تھوڑی وضاحت کریں کہ مواخذہ ہوتا کیا ہے۔

مواخذہ ایک ایسے عمل کا نام ہے جس میں صدر کے خلاف لگائے گئے الزامات کو عوامی نمائندوں کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔امریکا میں صدر کو ہٹانے کے لئے کسی بڑے جرم کا مرتکب ہونا ضروری ہے۔ مثلاً بغاوت یا رشوت کے الزامات پر مواخذے کی کارروائی کا آغاز ہوتا ہے اسی طرح کسی بڑی بدعملی کے باعث بھی مواخذہ کیا جاسکتا ہے۔

اکثر ایسے ممالک جہاں دو ایوانی مقننہ ہوتی ہے وہاں دونوں ایوانوں سے مواخذے کی منظوری ضروری ہوتی ہے۔ چوں کہ امریکا میں بھی دو ایوان ہیں یعنی ایوان نمائندگان یا قومی اسمبلی اور سینیٹ یعنی ایوان بالا، اس سے صدر ٹرمپ کا مواخذہ بھی اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتا جب تک کہ دونوں ایوان اس کی منظوری نہ دیں۔

عام طور پر مواخذے کی کارروائی کا آغاز ایوان نمائندگان سے کیا جاتا ہے ،جہاں سادہ اکثریت سے اسے منظور کیا جاسکتا ہے، پھر اس کا مقدمہ سینیٹ میں چلتا ہے۔ اگر سینیٹ میں مواخذے کو دو تہائی اکثریت سے منظوری مل جائے تو مواخذہ کرکے صدر کو برطرف کیا جاسکتا ہے۔ لیکن ایسا آج تک نہیں ہوسکا۔

صدر ٹرمپ سے قبل دو امریکی صدر مواخذے کا سامنا کرچکے ہیں۔ 1990کے عشرے میں صدر بل کلنٹن پر سب سے بڑا الزام جھوٹ بولنے اور انصاف کی راہ میں رکاوٹ بننے کا تھا۔ انہوں نے وائٹ ہائوس میں اپنی ایک رفیق کار مونیکا لیونسگی کے ساتھ تعلقات قائم کئے تھے اور پھر اس بارے میں یکسر مکر گئے تھے، مگر ان کے جھوٹ کا پردہ فاش ہوگیا تو انہیں معافی مانگنا پڑی تھی لکین بعداز خرابی بسیار پہلے تو 1998 میں ایوان نمائندگان میں ان کے خلاف مواخذے کی تحریک سادہ اکثریت سے منظور کرلی گئی اور پھر 1999جب یہ معاملہ سینیٹ میں پیش ہوا تو وہاں اسے دو تہائی حمایت حاصل نہ ہوسکی اور اس طرح یہ تحریک ناکام ہوگئی اور صدر کلنٹن اپنے عہدے پر برقرار رہے۔ اس وقت بھی وہ عوام میں خاصے مقبول تھے اور سروے کے مطابق 70فی صد امریکی ان کے حامی تھے۔

اس کے قبل مواخذے کا شکار ہونے والے صدر عام تاثر کے برعکس رچرڈ نکسن نہیں تھے ،جنہوں نے مواخذے سے قبل خود ہی استعفیٰ دے دیا تھا یہ بات 1974 کی ہے۔ کلنٹن سے پہلے مواخذہ صدر اینڈروجانسن کا ہوا تھا۔ یاد رہے کہ امریکی تاریخ میں سو سال کے وقفے سے دو صدر جانسن ہوئے ہیں۔ پہلے 1860کے عشرے میں اینڈرو جانسن اور پھر سو سال بعد 1960کے عشرے میں صدر لنڈن بی جانسن۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ دونوں صدر جانسن پہلی مرتبہ خود صدر منتخب نہیں ہوئے تھے، بل کہ صدر کے قتل کے بعد خوعد بخود نائب صدر سے آئینی طور پر ترقی پاکر صدر امریکا بن گئے تھے۔

اینڈرو جانسن مارچ 1865میں امریکی صدر، ابراہام لنکن کے ساتھی کے طور پر نائب صدر بنے اور جب اپریل 1865 میں صدر لنکن کا قتل ہوگیا تو اینڈرو جانسن صدر بن گئے تھے۔ اسی طرح 1963 میں صدر جان ایف کینیڈی کے قتل کے بعد نائب صدر لنڈن بی جانسن صدر بن گئے۔ صدر اینڈرو جانسن کے خلاف مواخذے کی تحریک بھی کامیاب نہ ہوسکی تھی اور انہوں نے اپنی چار سالہ مدت صدارت مکمل کی تھی، گو کہ ان کے خلاف دو تہائی اکثریت میں صرف ایک ووٹ کی کمی رہ گئی تھی اور اس کی وجہ یہی تھی کہ سینیٹ میں ریپبلکن پارٹی کے ارکان زیادہ تھے جیسا کہ اس وقت صدر ٹرمپ کے ساتھ ہورہا ہے۔

اس وقت صدر ٹرمپ کے خلاف جو کارروائی ہورہی ہے اس میں وائٹ ہائوس کے وکیل پیٹ سیپولینی تو بے دھڑک کہہ رہے ہیں کہ صدر ٹرمپ نے کچھ بھی غلط نہیں کیا ہے۔ بظاہر تو یہی امکان نظر آتا ہے کہ صدر کے مواخذے کو کامیابی نہیں ملے گی۔

صدر ٹرمپ پر سب سے بڑا الزام یہ ہے کہ انہوں نے اپنے اختیارات کا غلط استعمال کیا اور کانگریس یعنی پارلیمان کے کام میں رکاوٹ ڈالی۔ تفصیل اس امر کی یہ ہے کہ گزشتہ سال جولائی میں یوکرین کے صدر کو ایک ٹیلیفون کیا گیا جس میں ان پر دبائو ڈالا گیا کہ وہ ڈیموکریٹک پارٹی کے ممکنہ صدارتی امیدوار اور اوبامہ کے سابق نائب صدر جوبائیڈن کے خلاف تحقیقات شروع کریں۔ صدر ٹرمپ اس الزام سے یکسر انکار کررہے ہیں کہ انہوں نے یوکرین کے صدر کو جوبائیڈن کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کی۔

ٹرمپ پر یہ بھی الزام ہے کہ انہوں نے یوکرین کے صدر کے دورہ امریکا کو بائیڈن کے خلاف تحقیقات سے مشروط کردیا تھا یعنی ٹرمپ کا دبائو تھا کہ اگر یوکرین کے صدر امریکا کا دورہ کرنا چاہتے ہیں تو انہیں ٹرمپ کو سیاسی فائدے پہنچانے ہوں گے۔دوسری طرف یوکرین کے صدر زمے لین سنکی بھی اس بات سے انکار کررہے ہیں کہ ان پر دبائو ڈالا گیا۔ ظاہر ہے کہ اگر یوکرین کے صدر اس بات کا اعتراف کرتے ہیں تو خود ان کی شہرت نہ صرف ان کے ملک میں بل کہ بین الاقوامی طور پر بھی خراب ہوجائےگی۔

پچھلے ہفتے صدر ٹرمپ کے دفاعی وکلا کی ٹیم نے ایک خط بھی لکھا ہے جس میں مواخذے کی کارروائی کو عوام دشمن قرار دیا گیا ہے۔ چھ صفحات کا یہ خط جوابی الزامات پر مشتمل ہے جس میں کہا گیا کہ مواخذہ عوام پر حملہ ہے اور اس کے ذریعے نہ صرف 2016 میں منتخب صدر کی کردار کشی کی جارہی ہے بل کہ 2020 میں ان کے دوبارہ امیدوار بننے کے امکانات کم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ واضح رہے کہ اس وقت ایوان نمائندگان میں ڈیموکریٹک پارٹی کی اکثریت ہے۔

ایک اور اہم بات یہ ہے کہ صدر کی قانونی ٹیم میں جو وکلا شامل ہیں ان میں وہ وکلا بھی موجود ہیں جنہوں نے صدر کلنٹن کے خلاف کارروائی میں تفتیش کی تھی۔ صدر ٹرمپ کے خلاف تفتیشی کارروائی ستمبر 2019سے نومبر 2019تک دو ماہ میں کی گئی اور پھر 18دسمبر 2019کو ایوان نمائندگان نے مواخذے کی کارروائی کو باقاعدہ منظوری دے دی تھی۔

اب آیئے دیکھتے ہیں اس مواخذے میں اہم کردار کون ہیں۔ سب سے پہلے تو سینیٹ میں اکثریتی رہ نما مچ میک کونیل ہیں۔ جو پچھلے پانچ سال سے سینیٹ میں ری پبلکشن پارٹی کی قیادت کر رہے ہیں۔ اس سے قبل وہ آٹھ سال 2007 سے 2015تک سینیٹ میں جب ری پبلکن پارٹی اقلیت میں تھی اس وقت بھی اس کے رہ نما تھے۔ میک کو نیل 1985 کےبعد پینتس سال سے مسلسل سینیٹ کے رکن منتخب ہوتے چلے آرہے ہیں۔

ان کے بعد چک گراس کی ہیں جو سینیٹ کے نائب سربراہ ہیں واضح رہے کہ سینیٹ کے سربراہ امریکی نائب صدر ہوتے ہیں۔ 87سالہ چک گراس کو پچھلے چالیس سال سے سینیٹ کے رکن منتخب ہورہے ہیں۔پھر امریکا کے چیف جسٹس جان رابرٹس ہیں۔ جنہیں امریکی صدر جارج بش جونسر نے 2005 میں صرف پچاس کی عمر میں چیف جسٹس بنایا تھا۔

امریکا میں چیف جسٹس کی نام زدگی صدر امریکا کا حق ہے جسے سینیٹ سے منظوری لینا ہوتی ہے جو مل ہی جاتی ہے۔ اس نام زدگی میں عمر کا کوئی دخل نہیں ہوتا اور ممکن ہے کہ کسی عمر رسیدہ جج کی موجودگی میں ہر کسی کی نسبتاً کم عمر جج کو چیف جسٹس بنادیا جائے اور اس میں کوئی قباحت نہیں۔

امریکا میں چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ کی کوئی عمر نہیں اور کئی جج پچیس تیس سال تک بھی چیف جسٹس رہ چکے ہیں۔ اسی لیے امریکا کی پوری تاریخ میں دو سو تیس سال میں صرف 17چیف جسٹس ہوئے ہیں ۔ ایسی کئی مثالیں ہیں جن میں چیف جسٹس نے خود استعفیٰ دیا ہو یا ریٹائرمنٹ لی ہو۔

ایک اور اہم بات یہ ہے کہ پچھلے 70سال میں جو چار چیف جسٹس گزرے ہیں ان چاروں کی نامزدگی ری پبلکن صدور نے کی ہے ۔یعنی آئزن پاور، نکسن ، ریگن اور بش جونیئر نے اور اس دوران کسی ڈیموکریٹ صدر کو چیف جسٹس نامزد کرنے کا موقع نہیں ملا۔ اس کے مقابلے میں پاکستان میں پچھلے ستر سال میں ستائس چیف جسٹس اس عہدے پر فائز رہ چکے ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ 65سال کی عمر میں ریٹائرمنٹ لازمی ہے اور چیف جسٹس ہمیشہ سب سے سینئر جج ہی ہوسکتا ہے۔

اب ٹرمپ کے مواخذے کے دوران امریکی چیف جسٹس رابرٹس پریذائڈنگ افسر کا کردار ادا کریں گے جنہیں پارلی مینٹیرین الزبتھ ملک ڈونا کی مدد حاصل ہوگی۔ ان کے علاوہ سات ہائوس منیجر ہوں گے جو ٹرمپ کے خلاف یعنی وکلائے استغاثہ ہوں گے، جب کہ وائٹ ہائوس کائونسل کے علاوہ کانگریس کی دفاعی ٹیم بھی ہوگی جو ری پبلکن ہوگی۔

صدر ٹرمپ کا دفاع کرنے والوں میں کین اسٹار اور رابرٹ رے شامل ہیں جو کلنٹن کی تفتیش میں بھی شامل تھے۔ اب یہی کہا جاسکتا ہے کہ امکان کے مطابق صدر ٹرمپ کا مواخذہ مکمل نہ ہوسکے گا اور سینیٹ انہیں بری کردے گی لیکن یہ وقت بتائے گا کہ ٹرمپ اگلا انتخاب لڑتے ہیں یا نہیں۔