غزوۂ ہند کے متعلق

February 14, 2020

آپ کےمسائل اور اُن کا حل

سوال :۔غزوۂ ہند کے متعلق جو روایات ہیں، ا س کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں ایسی روایات موضوع اور من گھڑت ہیں؟ اگر آپ ایک دوحدیثیں مع ترجمہ اور حکم کے نقل کردیں تو میں بے حد مشکورہوں گا۔

جواب:۔ ائمۂ محدثین اور اکابر مؤرخین نے غزوۂ ہند سے متعلق احادیث کو اپنی کتب میں نقل کیا ہے جواس بات کی صریح دلیل ہے کہ غزوۂ ہند سے متعلق احادیث من گھڑت اور موضوع نہیں ہیں۔ علماء نےاپنی کتب میں بشارت اور قیامت سے قبل واقع ہونے والی علامت کے طور پر انہیں نقل کیا ہے۔ خاص کر امام نسائی جنہوں نے سنن نسائی میں غزوۂ ہند پر مکمل باب باندھا ہے ۔ امام بخاری کے استاد امام نعیم بن حماد نے کتاب الفتن میں غزوۂ ہند کے متعلق روایات کو جمع کیا ہے ۔

امام احمد نے اپنی مسند میں، امام بخاری نے تاریخ کبیر میں، اما م بیہقی نے سنن الکبریٰ اور دلائل النبوۃ میں، امام حاکم نے مستدرک حاکم میں، امام طبرانی نے معجم الاوسط میں، امام سیوطی نے جمع الجوامع میں، امام نووی نے فیض القدیر میں،امام ذہبی نےتاریخ الاسلام میں،امام بغدادی نے تاریخ بغداد میں،امام ابن کثیر نے البدایہ والنھایہ میں غزوۂ ہند سے متعلق احادیث ذکر کی ہیں۔اس سے واضح ہے کہ ان روایات کو موضوع قراردینا درست نہیں ہے۔غزوہ ٔہند کے متعلق مروی احادیث میں چند درج ذیل ہیں:

۱۔ حدثنا ابو النضر حدثنا بقية حدثنا عبد الله بن سالم وابو بكر بن الوليد الزبيدی عن محمد بن الوليد الزبيدی عن لقمان بن عامر الوصابی عن عبد الاعلىٰ بن عدی البهرانی عن ثوبان مولى رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم عن النبی صلى اللہ عليه وسلم قال عصابتان من امتی احرزهم اللہ من النار عصابة تغزو الهندوعصابة تكون مع عيسىٰ ابن مريم عليه السلام.

مسنداحمد، باب مسندالانصار من حديث ثوبان 37/81، رقم: 22396 الرسالہ، سنن النسائی لشرح السيوطی، باب غزوۃ الھند 5،6/350 رقم 3175 دارالمعرفۃ، التاريخ الکبير للبخاری، باب عبدالاعلیٰ 5/344 رقم: 7818،1747 العلميۃ.ترجمہ : حضرت ثوبان ؓ جو کہ رسول اللہ ﷺکے غلام تھے، ان سے روایت ہےکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میری امّت کے دو گروہوں کو اللہ تعالیٰ دوزخ کے عذاب سے بچائے گا، ان میں سے ایک ہندوستان میں جہاد کرے گا، دوسرا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ہوگا۔یہ حدیث حسن ہے ، البتہ یہ سند بقیۃ بن الولید کی وجہ سے ضعیف ہے، لیکن اس کا متابع موجود ہے۔ سند کے بقیہ رجال ثقہ ہیں سوائے ابوبکر بن ولید کے کہ وہ مجہول الحال ہے، لیکن عبداللہ بن سالم جو کہ ثقہ ہے، انہوں نے ابوبکر بن ولید کی متابعت کی ہے۔( مسند احمد ۳۷/81.)

غزوہ ٔہند کا ذکر کئی احادیث میں موجود ہے، البتہ اس غزوے کے حقیقی مصداق کے بارے میں کوئی صریح نص موجود نہیں ہے ، علامہ سندھی نے حدیث کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا کہ حدیث میں عام مسلمانوں سے غزوۂ ہند کے متعلق وعدہ کیا گیا ہے، نہ کہ مسلمانوں کے کسی خاص گروہ سے ،اسی وجہ سے بعض حضرات نے اپنے فہم کی بنیاد پر مختلف مصداق ٹھہرائے ہیں ۔

بلاذری کی تحقیق کے مطابق ہندوستان پر مہم جوئی کا آغاز حضرت عمرؓ کے دور میں ہوا۔ اس کے بعدحضرت عثمان ؓ کے دور میں بعض مسلمان جاسوسوں کو ہند پر حملہ سے قبل وہاں کی صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے بھیجا گیا، البتہ جنگ کی نوبت نہیں آئی، البتہ حضرت علی ؓکے عہد میں جنگ ہوئی جس میں آپ کو کامیابی ہوئی۔(فتوح البلدان، ص۴۲۰، ناشر: مطبعہ مصریہ ازہر)

بعض حضرات نے محمد بن قاسم اور محمود سبکتگین کی ہندوستان میں جنگوں کو غزوۂ ہند کا مصداق ٹھہرایا ہے(فیض السمائی: ۳۶۰،۲، مکتبۃ الشیخ) راجح قول یہ ہے کہ ابھی ان روایات کا مصداق پیش نہیں آیا ،بلکہ حضرت امام مہدی اور حضر ت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں اس معرکہ آرائی کا تحقق ہوگا، جیسا کہ کتاب الفتن میں ہے کہ ایک جماعت ہندوستان میں جہاد کرے گی اور اسے فتح نصیب ہوگی اور جب وہ مال غنیمت لے کر واپس لوٹیں گی تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ملک شام میں نزول ہوچکا ہوگا۔(کتاب الفتن نعیم بن حماد: غزوۂ ہند، ص۴۰۹، مکتبۃ التوحید)