حضرت خالد بن ولیدؓ کو ’’سیف اللہ‘‘ کا خطاب ملا

February 23, 2020

سَرِیّہ محیصہ بن مسعودؓ

وادیٔ فدک، خیبر کے نزدیک یہودیوں کی ایک قدیم آبادی تھی۔ نبی کریمﷺ نے حضرت محیصہ بن مسعودؓ کی کمان میں ایک دستہ وہاں کے یہودیوں کے پاس دعوتِ دین کے لیے بھیجا، لیکن اُنھوں نے اپنی فطری ہٹ دھرمی اور غرور و تکبّر کی بناء پر قبولِ اسلام کی دعوت پر کوئی توجّہ نہ دی، لیکن جب خیبر کے قلعوں پر مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا، تو اُنہیں بھی ہوش آیا اور اُنہوں نے فدک کی پیداوار کا نصف مسلمانوں کو دینے کی پیش کش کی، جسے آنحضرتؐ نے قبول فرما لیا۔ یوں اللہ تعالیٰ نے وادیٔ فدک کسی جنگ کے بغیر ہی مسلمانوں کو دے دی۔

غزوہ وادیٔ قریٰ

اہلِ فدک نے تو مسلمانوں سے صلح کر لی تھی، لیکن خیبر کے قریب وادیٔ قریٰ میں یہودیوں کی ایک اور آبادی بھی تھی، جس نے خیبر کی فتح کے بعد اپنی حفاظت کے لیے قریش کے جنگ جوئوں کے ایک گروہ کو بھی بُلا لیا۔ فتحِ خیبر کے بعد آنحضرتؐ نے تبلیغِ اسلام کے لیے وادیٔ قریٰ جانے کا اعلان فرمایا۔ مسلمان جب وادی میں داخل ہوئے، تو یہودیوں نے تیروں کی بوچھاڑ سے اُن کا استقبال کیا۔ ان تیروں کی زَد میں آ کر آپؐ کے ایک غلام، حضرت مدعمؓ شہید ہوگئے۔

رسول اللہﷺنے صُورتِ حال کے پیشِ نظر مسلمانوں کی فوری صف بندی فرمائی اور ایک مرتبہ پھر یہودیوں کو اسلام کی دعوت دی ، لیکن اُنہوں نے جنگ کا اعلان کرتے ہوئے اپنے ایک جنگ جُو کو میدان میں اُتار دیا۔ حضرت زبیرؓ بن عوام مقابلے کے لیے آئے اور ایک ہی وار میں اُس کا کام تمام کر دیا۔ پھر کچھ توقّف کے بعد ایک اور یہودی آگے بڑھا، لیکن حضرت علیؓ کی تلوار نے اُسے کاٹ ڈالا۔ یوں شام تک لڑائی جاری رہی۔ دوسرے دن مسلمان نمازِ فجر کے بعد صف آرا ہو رہے تھے کہ یہودیوں نے ہتھیار ڈال دیئے۔

سَرِیّہ حضرت عُمرؓ بن خطاب

صنعاء نجران شاہ راہ پر واقع بستی، تربہ کے باشندے بدعہدی پر اُتر آئے تھے۔ رسول اللہﷺ نے اطلاع ملنے پر حضرت عُمرؓ بن خطاب کی کمان میں تیس صحابہؓ کا ایک دستہ اُن کی سرکوبی کے لیے روانہ کیا۔ یہ لوگ رات کو سفر کرتے اور دن میں پہاڑوں میں چُھپ جاتے، لیکن بستی والوں کو مسلمانوں کے آنے کی اطلاع مل گئی اور وہ پہاڑوں کی گھاٹیوں میں چُھپ گئے۔ حضرت عُمرؓ جب وہاں پہنچے، تو بستی خالی پڑی تھی۔

سَرِیّہ حضرت بشیر بن سعدؓ

نبی کریمﷺ نے وادیٔ فدک کے یہودیوں کی جانب سے بدعہدی کی اطلاع پر حضرت بشیر بن سعدؓ کی کمان میں تیس صحابہؓ کا ایک دستہ اُن کی جانب روانہ فرمایا۔ یہودیوں کا ایک گروہ جنگل میں مویشی چرا رہا تھا کہ مسلمانوں سے مڈبھیڑ ہوگئی۔ مسلمانوں نے اُنہیں شکست دی اور اُن کے مویشی لے کر مدینے کی جانب روانہ ہوگئے، لیکن باقی قبیلے والوں نے تعاقب کرتے ہوئے رات کی تاریکی میں مسلمانوں پر حملہ کر دیا اور اپنے مویشی چھین کر واپس لے گئے۔

سَرِیّہ حضرت غالب بن عبداللہؓ

رسول اللہؐ نے حضرت غالبؓ کی قیادت میں ایک سو تیس صحابہؓ پر مشتمل لشکر ’’میفعہ‘‘ میں مقیم قبیلہ بنی عوال اور بنی عبد بن ثعلبہ کی جانب روانہ کیا۔ مسلمانوں نے دشمن پر اچانک حملہ کر دیا اور جس نے مزاحمت کی، وہ مارا گیا۔ اس سَرِیّہ میں حضرت اُسامہ بن زیدؓ نے نہیک بن مرواس نامی ایک ایسے شخص کو قتل کر دیا، جس نے لڑائی کے وقت کلمہ پڑھ لیا تھا۔ نبی کریمﷺ کو جب اس کا علم ہوا، تو آپؐ نے افسوس کا اظہار کیا اور حضرت اُسامہؓ کےاِس قول پر کہ’’ اُس نے محض جان بچانے کے لیے کلمہ پڑھا تھا‘‘، ارشاد فرمایا’’کیاتم نے اُس کا دِل چیر کر دیکھا تھا؟‘‘

سَرِیّہ حضرت بشیر بن سعد انصاریؓ

رسول اللہﷺ کو اطلاع ملی کہ بنو غطفان کی ایک جماعت سے عینیہ بن حصن نے وعدہ لیا ہے کہ وہ اُن سے مل کر مسلمانوں سے لڑیں گے۔ آنحضرتؐ نے حضرت بشیربن سعد انصاریؓ کی قیادت میں تین سو صحابہؓ کو اُن کی سرکوبی کے لیے روانہ فرمایا۔ چرواہوں نے مسلمانوں کے لشکر کی آمد کی اطلاع دی، تو وہ لوگ پہاڑوں میں روپوش ہو گئے۔ حضرت بشیرؓ نے وہاں موجود مویشیوں کو ساتھ لیا، دو افراد بھی قیدی بنائے اور مدینہ واپس آ گئے۔ اُن دونوں قیدیوں نے اسلام قبول کرلیا، لہٰذا حضورﷺ نے اُنہیں آزاد کر کے واپس بھیج دیا۔

سَرِیّہ حضرت ابو حدردؓ

قبیلہ جشم بن معاویہ کا ایک سردار بہت سے جنگ جُو لے کر غابہ نامی علاقے میں آیا، جہاں قبیلہ بنو قیس کے مشرکین رہائش پذیر تھے۔ دراصل، اُس کا مقصد بنو قیس کے ساتھ مل کر مسلمانوں سے جنگ کرنا تھا۔ رسول اللہﷺ کو اطلاع ملی، تو آپؐ نے حضرت ابو حدردؓ کو صرف دو صحابہؓ کے ہم راہ روانہ کیا۔ حضرت ابو حدردؓ نے کوئی ایسی جنگی حکمتِ عملی اختیار کی کہ دشمن کو شکستِ فاش ہوئی اور وہ بہت سے اونٹ، بھیڑ بکریاں ہانک کر مدینہ لے آئے۔

سَرِیّہ حضرت ابوالعوجاؓ

آپؐ نے حضرت ابوالعوجاؓ کی قیادت میں پچاس صحابہ کرامؓ کو اسلام کی دعوت دینے کے لیے بنو سلیم کی جانب روانہ کیا۔ بنو سلیم نے نہ صرف یہ کہ مسلمانوں کی بات سُننے سے انکار کیا، بلکہ مارنے مرنے پر تُل گئے۔ اُنھوں نے مسلمانوں کو گھیر کر حملہ کر دیا۔ صحابہ کرامؓ بڑی بہادری سے لڑے، لیکن اکثر شہید ہو گئے۔ خود امیرِ لشکر، حضرت ابوالعوجاؓ بھی زخمی ہوئے اور بڑی مشکل سے مدینہ واپس آئے۔

شہادت کا بدلہ

رسول اللہؐ نے حضرت غالب بن عبداللہؓ کی قیادت میں دو سو مجاہدین کو فدک کی جانب روانہ کیا۔ اس مہم کا مقصد حضرت بشیرؓ بن سعد کے رفقاء کی شہادت کا بدلہ لینا تھا۔ مسلمانوں سے لڑائی میں متعدّد یہودی مارے گئے اور اُن کے جانور قبضے میںلے لیے گئے۔

سَرِیّہ حضرت شجاعؓ بن وہب

قبیلہ بنو ہوازن کے لوگ اسلام دشمنوں کو ہر طرح کی مدد فراہم کیا کرتے تھے، جس میں اُن کی ایک شاخ، بنو عامر پیش پیش تھی۔ لہٰذا، رسول اللہﷺ نے حضرت شجاعؓ بن وہب کی قیادت میں 24 صحابہؓ پر مشتمل دستہ اُن کی جانب روانہ کیا۔ ایک صبح، جب وہ خوابِ خرگوش کے مزے لے رہے تھے، مسلمانوں نے اُن پر حملہ کر دیا۔ مالِ غنیمت میں بہت سے اونٹ اور بھیڑ، بکریاں ملیں۔

سَرِیّہ حضرت کعبؓ بن عمیر الغفّاری

بنو قضاء نے’’ ذات اطلاح‘‘ نامی علاقے میں مسلمانوں پر حملے کے لیے بہت سے جنگ جُو جمع کر لیے تھے۔ رسول اللہﷺ کو اس کی خبر ملی، تو آپؐ نے حضرت کعبؓ بن عمیر کی امارت میں پندرہ صحابہؓ کا ایک دستہ اُن کی جانب روانہ فرمایا۔ مسلمانوں نے حسبِ روایت پہلے اُنہیں اسلام کی دعوت دی، لیکن اُنھوں نے جواب میں تیروں کی بارش کر دی۔ یہاں تک کہ سب صحابہؓ شہید ہو گئے، سوائے ایک کے، جو زخمی حالت میں شہداء کی لاشوں کے نیچے دبے ہوئے تھے اور اُنھیں مردہ سمجھ کر چھوڑ دیا گیا تھا۔ وہ صحابیؓ رات کی تاریکی میں بمشکل مدینہ پہنچے۔ آنحضرتؐ کو اس واقعے کا بے حد دُکھ ہوا۔ آپؐ نے وہاں لشکر بھیجنے کا ارادہ فرمایا، لیکن وہ لوگ علاقہ خالی کر گئے۔

معرکۂ موتہ

موتہ، اُردن میں وادی بلقاء کے نزدیک ایک آبادی کا نام ہے۔ رسول اللہﷺ کی حیاتِ مبارکہ میں پیش آنے والا یہ سب سے خون ریز معرکہ تھا اور درحقیقت یہی وہ جنگ تھی، جو آئندہ عیسائی مملکتوں کی شکست کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔ رسول اللہﷺ نے ایک صحابی، حضرت حارثؓ بن عمیر کو اپنا ایک نامہ مبارک دے کر شاہِ بصریٰ کے پاس بھیجا۔ جب وہ موتہ میں رُکے، تو قیصرِ روم کے گورنر، شرجیل بن عمرو نے گرفتار کر کے اُن کا سَر قلم کر دیا۔ قاصد کے قتل کا یہ سانحہ آپؐ پر بہت شاق گزرا۔

چناں چہ آپؐ نے خون کا بدلہ لینے کا فیصلہ فرمایا اور تین ہزار صحابہؓ کا لشکر حضرت زیدؓبن حارثہ کی امارت میں دے کر فرمایا’’ اگر زیدؓ قتل ہو جائیں، تو جعفرؓ بن ابو طالب امیر ہوں گے اور اگر جعفرؓ بھی قتل ہو جائیں، تو عبداللہؓ بن رواحہ امیر ہوں گے‘‘(صحیح بخاری)۔مسلمانوں کی تین ہزار مجاہدین کی فوج شام کے سرحدی علاقے میں پہنچی، تو جاسوسوں نے اطلاع دی کہ قیصرِ روم، بلقاء کے نواح میں ایک لاکھ جنگ جوئوں کے ساتھ خیمہ زن ہے۔ مسلمانوں کے تو تصوّر میں بھی نہیں تھا کہ اُن کی اتنی بڑی فوج سے لڑائی ہوگی۔

ایسے میں حضرت عبداللہؓ بن رواحہ نے نہایت پُرجوش تقریر کر کے مسلمانوں میں جذبۂ جہاد بیدار کر دیا۔ پھر پوری دنیا نے یہ حیران کن منظر دیکھا کہ مُٹھی بھر اللہ کے سپاہی، بے سرو سامانی کی حالت میں، اپنے گھروں سے کوسوں میل دُور، لاکھوں عیسائی فوجیوں سے جا ٹکرائے۔ لشکر کے امیر حضرت زیدؓ بن حارثہ نے عَلم لیا اور بہادری سے لڑتے ہوئے جامِ شہادت نوش کر گئے۔ حضرت جعفرؓ نے جلدی سے عَلم اُٹھایا اور شجاعت و بہادری کے جوہر دِکھانے لگے۔ جھنڈا دائیں ہاتھ میں تھا، دشمن نے ہاتھ کاٹ دیا۔

جھنڈا بائیں ہاتھ میں پکڑ لیا۔ کچھ دیر لڑائی کے بعد وہ ہاتھ بھی کٹ کر دُور جا گرا۔ جھنڈے کو دونوں کٹے ہوئے، خون آلود بازوئوں کے درمیان سینے سے لگا کر بلند رکھا۔ پھر ایک رومی نے اس زور سے تلوار ماری کہ جسم کے دو ٹکڑے ہو گئے۔حضرت جعفرؓ کے شہید ہوتے ہی حضرت عبداللہؓ بن رواحہ نے لپک کر عَلم اُٹھا لیا اور دادِ شجاعت دیتے ہوئے شہید ہو گئے۔

تینوں سپہ سالار شہید ہو چُکے تھے کہ حضرت ثابتؓ بن ارقم آگے بڑھے اور جلدی سے عَلم بلند کرتے ہوئے آواز لگائی’’ اے اللہ کے سپاہیو! اب کسی کو اپنا سپہ سالار مقرّر کر لو۔‘‘ پھر متفّقہ طور پر حضرت خالدؓ بن ولید کو منتخب کر لیا گیا۔ حضرت خالدؓ بن ولیدؓ عَلم لے کر آگے بڑھے، تو رومیوں کی لاشوں کے ڈھیر لگا دیئے۔ خود اُن سے مروی ہے کہ ’’جنگِ موتہ میں میرے ہاتھ سے نو تلواریں ٹوٹیں اور پھر صرف ایک چھوٹی سی تلوار ہاتھ میں بچی‘‘(صحیح بخاری)۔اُدھر بارگاہِ رسالتؐ میں حضرت جبرائیلؑ وحی لے کر حاضر ہوئے اور پھر رسول اللہﷺ نے میدانِ جنگ کا نقشہ صحابہؓکے سامنے یوں بیان فرمایا’’ سب سے پہلے زیدؓ نے جھنڈا لیا اور شہید ہو گئے۔

پھر جعفرؓ نے لیا، وہ بھی شہید ہو گئے۔ پھر ابنِ رواحہؓ نے لیا، وہ بھی شہید ہو گئے۔ پھر جھنڈا اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار نے لے لیا اور اللہ نے اُنہیں فتح نصیب فرمائی۔‘‘ جنگ کا حال بیان فرماتے ہوئے آپؐ کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے‘‘(صحیح بخاری)۔ اس معرکے میں حضرت خالدؓ بن ولید نے شجاعت و بہادری کے جوہر دِکھانے کے ساتھ، جنگی حکمتِ عملی کا بھی ایسا شان دار مظاہرہ کیا کہ دشمن خوف زدہ ہوکر پسپا ہونے پر مجبور ہو گیا۔ جنگ کے دوسرے روز، نمازِ فجر کے بعد آپؓ نے نئے سِرے سے لشکر کی صف بندی کی۔ اگلی صفوں کے فوجی پیچھے لے گئے اور پچھلی صفوں کے آگے۔اس سے رومی سمجھے کہ مسلمانوں کی تازہ دَم فوج آ گئی ہے۔

حضرت خالدؓ بن ولید نے اُن کے اس خوف سے بھرپور فائدہ اُٹھایا اور لڑتے ہوئے آہستگی کے ساتھ مسلمانوں کو پیچھے ہٹانا شروع کر دیا۔ خوف زدہ رومی سمجھے کہ مسلمان اس طرح پیچھے ہٹ کر ہمیں گھیر کر مارنا چاہتے ہیں، چناں چہ اُنہوں نے پیچھے ہٹنے والے مسلمانوں کا پیچھا نہیں کیا اور کچھ دیر اپنی جگہ کھڑے رہے، پھر واپس پلٹ گئے۔پھر حضرت خالدؓ بھی اپنی فوج کے ساتھ مدینہ منوّرہ واپس آ گئے۔اِس جنگ میں بارہ صحابہ کرامؓ شہید ہوئے، جب کہ رومیوں کے مقتولین کی تعداد کا اندازہ حضرت خالدؓ کے ہاتھوں سے ٹوٹنے والی نو تلواروں سے لگایا جا سکتا ہے۔ رومی اُس وقت دنیا کی سب سے بڑی بادشاہت اور سب سے بڑی عسکری قوّت تھے۔

سَرِیّہ حضرت عمروؓ بن عاص

نبی کریمﷺکو اطلاع ملی کہ بنو قضاء کے لوگوں نے مدینے کے گردونواح میں لُوٹ مار اور ہلّہ بولنے کی تیاری کر رکھی ہے۔ آنحضرتؐ نے اس سَرِیّہ کی قیادت حضرت عمروؓ بن عاص کو سونپی، کیوں کہ اُن کا ددھیال اُس قبیلے کے پڑوس میں تھا۔ تین سو صحابۂ کرامؓ اور تیس گھوڑے دے کر اُنہیں روانہ کیا۔ جب دشمن کے قریب پہنچے، تو دیکھا کہ وہ تعداد میں بہت زیادہ ہیں۔

اس پر امیرِ لشکر نے فوری طور پر حضرت رافعؓ کو تیز رفتار گھوڑا دے کر مزید کمک کے لیے بارگاہِ رسالتؐ میں روانہ کر دیا۔ رسول اللہﷺ نے حضرت ابو عبیدہؓ بن جراح کی امارت میں مزید دو سو صحابہؓ کی جماعت روانہ فرمائی، جن میں سیّدنا حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عُمر فاروقؓ بھی شامل تھے۔ کمک آ جانے کے بعد مسلمانوں نے پورا علاقہ چھان مارا۔ ایک جگہ اُنہیں مسلّح مشرکین کا ایک لشکر چُھپا ملا، لیکن وہ منتشر ہو کر بھاگ نکلے۔

سَرِیّہ حضرت ابو قتادہؓ

نجد کے علاقے خضرہ میں محارب نامی قبیلے کی رہائش تھی۔ اُنھوں نے بدعہدی کی، تو رسول اللہﷺ نے سرکوبی کے لیے حضرت ابو قتادہؓ کی امارت میں پندرہ صحابہؓ کا ایک دستہ روانہ فرمایا۔ لڑائی میں کچھ کفّار قتل اور متعدّد گرفتار ہوئے۔اسی طرح،رسول اللہؐ نے حضرت ابو قتادہؓ کو آٹھ صحابہ کے ایک دستے کا امیر بنا کر’’ بطن اضم‘‘ کی جانب روانہ فرمایا۔ فتحِ مکّہ سے پہلے اس سَرِیّہ کا مقصد علاقے والوں کو خبردار کرنا تھا کہ اللہ کے رسولﷺ اُن کی حرکات و سکنات سے پوری طرح باخبر ہیں۔

دورانِ گشت لشکر کے قریب سے ایک چرواہا گزرا، جس نے اسلامی طریقے سے سلام کیا۔ صحابہؓکو شک گزرا کہ یہ جان بچانے کے لیے سلام کر رہا ہے، چناں چہ اُسے قتل کر دیا۔ آنحضرتؐ نے اس عمل کو سخت ناپسند فرمایا۔اسی سے متعلق وحی نازل ہوئی ’’اے ایمان والو! جب تم اللہ کی راہ میں سفر پر نکلا کرو، تو تحقیق سے کام لیا کرو اور جو شخص تم کو سلام کرے، اُس سے یہ نہ کہو کہ تم مومن نہیں ہو۔ اور اس سے تمہاری غرض یہ ہو کہ دنیا کی زندگی کا فائدہ حاصل کرو۔ سو، اللہ کے پاس کثیر مالِ غنیمت ہے۔ تم بھی تو پہلے ایسے ہی تھے، پھر اللہ نے تم پر احسان کیا، تو (آئندہ) تحقیق کرلیا کرو۔ اور جو عمل تم کرتے ہو، اللہ کو سب کی خبر ہے‘‘(سورۃ النساء۔ 94)۔ (جاری ہے)