نیک شگون: کورونا کیخلاف شہباز شریف کی طرف سے یکجہتی کا مظاہرہ

March 26, 2020

پنجاب کے دارالحکومت لاہو ر میں کرونا وائرس سے بچائو کے لئے ہینڈ سینی ٹائزر، ماسک، گلوز ، بخار کی تشخیص کرنے والی انفراریڈ ڈیوائس غائب ہو چکی ہے، لوہاری دروازہ میں ادویات کی ہو ل سیل مارکیٹ کی دکانوں میں کرونا وائرس سے بچائو کا سامان موجود نہیں لیکن گوداموں میں سامان ذخیرہ کر لیا گیااور میڈیکل سٹوروںمیں منہ مانگی قیمتیں وصول کی جا رہی ہیں،کرونا وائرس ٹیسٹ کی سہولیات کا فقدان ہے اور مہنگے ٹیسٹ شہریوں کی پہنچ سے باہر ہیں، وزیر اعلیٰ کی سربراہی میں قائم صوبائی کابینہ کمیٹی برائے کرونا وائرس نے سب سے پہلے تعلیمی ادارے بند کئے، دوسرے مرحلے میں شاپنگ مال ، بازار ، ریسٹورنٹ رات دس بجے بند کرنے کا فیصلہ کیا تو پولیس کی چاندی ہو گئی ، رات دس بجے پولیس اہلکار گاڑیوں میں سوار ہو کر سڑکوں پر نکلتےاور رہائشی علاقوں میں میڈیکل سٹور، نجی کلینگ اور بیکریاں بھی بند کر دیتے ہیں۔

جس وجہ سے ادویات، علاج معالجہ اور ناشتے کے لئے انڈے ، مکھن کی خریداری بھی محال ہو گئی ،تیسرے رحلے میں گزشتہ ہفتہ کے دن اعلان ہوا کہ ہفتہ، اتوار اور پیر کو تین دنوں تک ہیلتھ ایمرجنسی نافذ ہو گئی ہے جس کے تحت تمام کاروباری سرگرمیاں تین دنوں تک بند رہیں گی، جس کے بعد پولیس اہلکاروں کی پانچوں انگلیاں گھی اور سرکڑاہی تھا، پولیس اہلکار گاڑیوں میں سوار ہو کر بازاروں میں نکلتے تو دکانوں کے شٹر بند کر دئیے جاتے ہیں ، کچھ دیر بعد آدھے شٹر کھول کر خرید و فروخت دوبارہ شروع ہو جاتی ہے،پولیس اور تاجروں کی ملی بھگت سے تمام کاروبار جوں کے توں چلتے رہے،چوتھے مرحلے میں پیر کی شام اچانک وزیر اعلیٰ نے پنجاب بھر میں لاک ڈائون کا اعلان کر دیا، پنجاب حکومت صرف اعلانات اور دعوئوں میں مصروف ہے، مارکیٹیں ، بازار، نجی اور سرکاری تعلیمی ادارے ، کاروباری اور صنعتی مراکز بند کر دئیے، لاک داؤن ہونے کے بعد لاہور میں دالیں، چاول، گھی، چینی سمیت اشیائے زندگی، پھلوں، سبزیوں اور سڑکوں پر چلنے والی نجی ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں بے انتہا اضافہ ہو گیا، غربت، بے روزگاری، مہنگائی سے تنگ عوام کسی طور لاک ڈاؤن کی پابندیوں کو ماننے پر تیار نہیں اور پولیس کے ساتھ آنکھ مچولی ہو رہی ہے۔

لاک ڈائون ہو گیا لیکن بے روزگار ہونے والے افراد اور خاندانوں کی تین ہفتوں تک کیسے زندگی بسر ہو گی ، تازہ کمانے اور کھانے والوں کے گھر وں میں چولہے بجھ گئے تو ان کے بچے کیا کھائے پئیں گے ؟صارفین بجلی ، گیس کے لئے بلوں کی رواں مہینے ادائیگی مشکل ہوچکی ہے ، صوبائی حکومت عوام کو مہنگائی ، بے روزگاری، ذخیرہ اندوزی، بلیک مارکیٹنگ ، اشیائے خورد نوش کی سستے داموں فراہمی کے لئے کوئی اقدام نہیں کر رہی، عوام کے خلاف پابندیوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے لیکن ریلیف دینے کے لئے کوئی اقدام نہیں ہو رہے جس سے بے چینی اور غم و غصہ کی لہر بڑھ ر ہی ہے۔ پنجاب سرکار کرونا وائرس کے خلاف نمائشی اور دکھاوے کے اقدام کر رہی ہے ، لاہور کی اہم سڑکوں اور چوراہوں پریس کلب، پنجاب اسمبلی ، ریگل چوک ، جی پی او کے باہر آگاہی کیمپ لگے ہیں۔

جہاں ہاتھ دھونے کے لئے پانی کے ٹب اور صابن رکھے ہیںاور رہنمائی کے لئے کسی قسم کا طبی عملہ اور سہولیات موجود نہیں ، کرونا وائرس کے خلاف اقدامات میں پنجاب سرکار نےسیاسی، سماجی ، رفاہی ، کاروباری ، صنعتی ، مذہبی اداروں کو اعتماد میں نہیں لیا جس وجہ سے حکومتی کوششیں بار آور ثابت نہیں ہو ئیں، صوبائی وزرا، حکومتی ارکان اسمبلی بھی غائب ہیں اور عوام کو کوئی ڈھارس دینے والا نہیں، کرونا وائرس کے بعد سرکاری ہسپتالوں میںروزمرہ علاج معالجہ کاکام بری طرح متاثرہ ہورہا ہے ، پاکستان کڈنی اینڈ لیور ٹرانسپلانٹ انسٹی ٹیوٹ کو کرونا وائرس سنٹر میں تبدیل اور آئسو لیشن وارڈ قائم ہونے کے بعد تین ہفتوں سے گردوں اور جگر کے مریضوں کے ڈائیلاسز، ٹرانسپلانٹ اور آپریشن کاکام تعطل کا شکار ہے، وزیر اعظم عمران خان نے ڈیرہ غازی خان میں قرنطینہ سنٹر کی افتتاحی تقریب میں سہولیات کے شدید فقدان پر اظہار ناراضگی کیا، وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کی جانب سے عجلت اور جلد بازی میں اٹھائے اقدامات سے جگ ہنسائی ہو رہی ہے ۔ وزیر اعلیٰ عثمان بزدارنے گزشتہ ہفتے ملتان قرنطینہ سنٹر کا دورہ کیا ،عوامی حلقوں کے مطابق سی ای او ہیلتھ ملتان نے ڈی ایچ کیو ملتان کی زیر تعمیر عمارت جہاں بجلی اور طبی سہولیات بھی موجود نہیں وہاں قرنطینہ سنٹر کے ایک وارڈ میں بیڈ اوروینٹی لیٹر، ماسک اور حفاظتی لباس رکھ دیئے، بجلی کی سہولت نہ ہونے پر میپکو سے عارضی بجلی کا بند و بست کرکے وزیر اعلیٰ کو خوش کیا گیا اورجیسے ہی وزیر اعلیٰ باہر نکلے تو سامان اٹھانا شروع کر دیا گیا، سروسز ہسپتال لاہور میںبھی سہولیات کے بغیر قرنطینہ سنٹر کھول دیا گیا،کرونا کا مقابلہ کرنے کے لئے حکمران درست اعداد و شمار اور حقائق نہیں بتا رہے ، گورنر پنجاب گرم پانی پینے سے کرونا کا علاج کررہے ہیںاورعثمان بزدار پوچھ رہے ہیں کہ "یہ کرونا کاٹتا کیسے ہے" کرونا کیخلاف حفاظتی آلات اور انتظامات نہ ہونے پر ڈاکٹرز ہڑتال پر جارہے ہیں، درست اعداد و شمار اور حقائق کی بنیاد پر ہی کرونا کا مقابلہ ہو سکتا ہے۔

پنجاب سرکار سیاسی جماعتوں سے سماجی بائیکاٹ کا رویہ اختیار کئے ہے لیکن اپوزیشن قائدین کرونا وائرس بحران سے نمٹنے کے لئے کمال یکجہتی کا مظاہرہ کر رہے ہیں جو پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا، مسلم لیگ ن کے صدر اور سابق وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی وطن واپسی نیگ شکون ہے ، انھوں نے واپسی کے فوری بعد کرونا وائرس کے خلاف پارٹی رہنمائوں سے ویڈیو لنگ کانفرنس سے خطاب کیااور پارٹی رہنمائوں پر مشتمل ہیلتھ ٹاسک فورس قائم اور حکومت کو شریف فیملی کے ملکیتی تما م ہسپتال کروناسے بچائو کے لئے قرنطینہ سنٹر کے طور پر استعمال کرنے کی پیشکش کر دی، امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے منصورہ ہسپتال ، ثریا عظیم ہسپتال سمیت تمام ادارے حکومت کی سرپرستی میں دینے کا اعلان کیا،پیپلزپارٹی پنجاب کے صدر قمر زمان کائرہ نے پنجاب میں "پیپلز ہیلتھ کئیرمہم برخلاف کرونا وائرس" کا آغاز کر دیا،کارکنوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ کرونا وائرس کے خلاف آگاہی مہم میں حصہ لیں آس پاس کےغریب لوگوں کی خوراک، سینیائٹرز، ماسک جو ممکن مدد کی جا سکتی ہو مدد کریں ،شہریوں کو احتیاطی تدابیر سےآگاہ کریں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے مقابلے میں وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی کارکردگی انتہائی شاندار اور متاثر کن ہے، مراد علی شاہ سندھ میں مرد بحران ثابت ہوئے ہیں، وہ کرونا وائر س کے خلاف عوام کے درمیان ، عوام کے ساتھ اور عوام کے لئے ہر ناگزیر اقدام کر رہے ہیں۔