ترکی میں اردو زبان و ادب

June 24, 2020

امتیاز رومی

عالمی منظرنامے پر ترکی ایک ایسا ملک ہے ،جس سے اردو زبان و تہذیب کے قدیم ترین مراسم ہیں، جس کا آغاز ہندوستان میں ترکوں کی آمد سے ہوتا ہے۔ انھوں نے ہندوستان کے تہذیبی و ثقافتی اور لسانی دھارے میں خود کو شامل کرکے ایک نیا رنگ دیا۔ اردو زبان کی لفظیات میں ترکی الفاظ کا اضافہ کیا۔ نیز حدود سلطنت کی وسعت کے ساتھ ساتھ اردو زبان کا دائرہ بھی وسیع کیا۔

دوسری طرف ہندوستانی مسلمان جب ترکی گئے تو اپنے ساتھ یہ زبان بھی لے گئے۔ 1453 میں سلطان محمدفاتح نے جب قسطنطنیہ (استنبول) فتح کیا تو اس سلسلے میں اور تیزی آئی۔ بہت سے ہندوستانی مسلمان استنبول میں آبادہوگئے۔ اٹھارہویں اور انیسویں صدی آتے آتے اس تعداد میں کافی اضافہ ہوا اور یہ تعداد اتنی ہوگئی کہ انیسویں صدی کے آواخر میں استنبول سے اردو اخبارات نکلنے لگے۔ ظاہر ہے کوئی بھی اخبار نکالنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کے قارئین کی خاطر خواہ تعداد موجود ہو۔ خلیل طوقار کی تحقیق کے مطابق 1880 میں اردو کا پہلا اخبار ’پیک اسلام‘ کے نام سے نکلا۔ اس کے بعد دو اور اخبارات نکلے۔ اس حوالے سے خلیل طوقار رقم طراز ہیں:

”استنبول میں نکلنے والے اردو اخبارات کے سلسلے میں تین ناموں سے سابقہ پڑتاہے۔ تحقیقات سے پتا چلتا ہے کہ استنبول کی لائبریریوں میں صرف تین اخبارات کے نسخے موجود ہیں، جن میں ’جہان اسلام‘، ’الدستور‘ اور ’اخوت ہیں۔

اردو اخبارات میں پہلے نمبر پر ہونے کا شرف پیک اسلام کو حاصل ہے، جن کا کوئی نسخہ نہیں ملا۔1880 میں نکلنے والے اس اخبار کے ساتھ استنبول میں اردو صحافت کا آغاز ہوتا ہے۔ ’پیک اسلام‘ اردو اور ترکی دونوں زبانوں میں شائع ہورہا تھا۔ اس کے مدیر مسؤل نصرت علی خان تھے جو انگریزوں کے خلاف سرگرمیوں میں شرکت کرنے کی وجہ سے ہندوستان سے جلا وطن کردیے گئے تھے۔ مئی1880 میں ’پیک اسلام‘ کا اولین شمارہ منظر عام پر آیا۔“تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ، 1880 میں ہی استنبول میں اردو صحافت کا آغاز ہوا، پے در پے تین اخبارات نکلے۔ ترکی میں اردو کا یہی نقطہ آغاز ہے۔ اس سے یہ ظاہرہوتا ہے کہ اس زمانے میں استنبول اور اس کے گرد و نواح میں اردو بولنے اور پڑھنے والوں کی تعداد اس قابل ہوگئی تھی کہ اخبار نکالنے کی ضرورت محسوس کی گئی۔ تاہم پہلی جنگ عظیم کے ساتھ ہی اردو کے اولین دور کا خاتمہ ہوگیا۔

ترکی میں اردو تدریس کا آغاز تو 1915 میں خیری برادران کی کوششوں سے ہوچکا تھا۔ عبدالجبار خیری اور عبدالستار خیری 1904 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھے۔ وہاں سے قاہرہ، بیروت اور پھر حجازکے راستے استنبول پہنچے ، یہاں انہوں نے مختلف تعلیمی اور سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کردیا۔ خیری برادران نے عثمانی سلطنت میں اردو کی اہمیت و ضرورت محسوس کرتے ہوئے دارالفنون استنبول میں اردو تعلیم کا آغاز کیا۔ اس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے خلیل طوقار لکھتے ہیں:

”ان کی سیاسی سرگرمیاں بے شک تاریخی لحاظ سے بہت اہم ہیں، مگر ان کے علاوہ ان کا ایک اور بڑا اور ناقابل فراموش کارنامہ ترکی میں یونیورسٹی کی سطح پر اردو زبان کی تعلیم کا آغازہے۔ انھوں نے دارالفنون میں کس تاریخ میں اردو کی تعلیم شروع کرائی، اس کے بارے میں ہمارے پاس قطعی معلومات موجود نہیں لیکن ان کی استنبول آمد کو 1914 کے آوخر اور 1915 کی شروعات ٹھہرائیں گے ،کیونکہ انھوں نے اگست1915میں ’ہنداخوت اسلام انجمنی مرکزعمومیسی‘ (انجمن ہنداخوت اسلام کا مرکزی ادارہ) کے قیام میں حصہ لیا اور 1915 میں اخوت نامی اخبار کی اشاعت میں اول اول تھے۔یہ کہہ سکتے ہیں کہ استنبول یونیورسٹی میں اردو کی درس و تدریس کا سلسلہ 1916 سے بھی پہلے1915 میں شروع ہوا تھا۔باقاعدہ طورپر ترکی میں اردو کے دوسرے دور کا آغاز 1950 کے بعد پاکستان اور ترکی کی دوستی سے ہوتاہے۔ 1956 انقرہ یونیورسٹی میں شعبہ اردو کے پہلے ترک استاد کے طور پر ڈاکٹر شوکت بولو کا تقرر ہوا۔ انھوں نے پانچ سال پاکستان میں رہ کر اردو کی تعلیم حاصل کی۔ اس کے علاوہ عربی اور انگریزی پر بھی انھیں قدرت حاصل تھی۔ انھوں نے تقریبا چار دہائی تک اردو زبان و ادب کی خدمات انجام دیں۔

ڈاکٹر شوکت بولو نے اردو کی بہت سی کتابوں کے ترجمے ترکی زبان میں کیے۔ ان میں علامہ اقبال کامجموعہ کلام بالِ جبریل، رام بابو سکسینہ کی تاریخ ادب اردو، حامد حسن قادری کی داستان نثر اردو اور ڈاکٹر ابواللیث صدیقی کی کتاب آج کا اردو ادب خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔ نیز ترکی میں اقبالیات کے حوالے سے بھی شوکت بولو نے نمایاں کارنامہ انجام دیا۔جدید اردو شاعری 1850-1900‘ کے موضوع پر انھوں نے پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھا۔ اردو غزل کا مجتہد حالی، منصورہ احمدکی شاعری، سعادت حسن منٹو اور حسرت موہانی اور ان کی غزل جیسے موضوعات پر ان کے مضامین شائع ہوئے ۔ اس کے علاوہ کئی تحقیقی کام ان کی نگرانی میں انجام پاچکے ہیں۔

انقرہ یونیورسٹی کے بعدسلجوق یونیورسٹی قونیہ میں 1985 میں ڈاکٹر ایرکن ترکمان کی کوششوں سے شعبہ اردو کا قیام عمل میں آیا۔ اس کوشش میں پروفیسر غلام حسین ذوالفقار بھی ان کے ساتھ ساتھ تھے۔ ایرکن ترکمان نے ترکی میں اردو زبان و ادب کے فروغ میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ شعبہ اردو زبان و ادب کے ساتھ ساتھ تاریخ تمدن ہند و پاک کے سلسلے میں بھی کافی اہمیت کا حامل ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ برصغیر ہند و پاک کی اردو زبان ترک و راثت کا حصہ اور ترک تمدن کا اس میں بہت کچھ عمل دخل ہے۔ چوں کہ برصغیر میں غزنویوں، غوریوں اور مغلوں کی قائم کردہ حکومتیں ترک تاریخ و ثقافت کو اپنے جلو میں لیے ہوئے تھیں اور فنون تعمیر، فنون حرب اور فنون لطیفہ سے مالا مال تھیں، اس لیے ترک انھیں دل و جان سے عزیز رکھتے ہیں۔ اردو زبان بھی ان ہی میں سے ایک ہے، سلجوق یونیورسٹی کی صدر شعبہ اردو، ڈاکٹر نوریے بلک نےپاکستان کا علمی و ادبی دورہ بھی کیا۔ انہوںنے سجاد حیدر یلدرم حیات اور کارنامے کے عنوان سے اپنا تحقیقی مقالہ لکھا۔ اس کے علاوہ اردو اور ترک گرامر کی مشابہتیں، سجاد حیدر یلدرم کے ترکی ادب سے تراجم، اردو کے اولین اخبار اور اردو زبان کی تاریخ اور ترکیات وغیرہ ان کے تحقیقی مضامین ہیں۔

ڈاکٹر درمش بلغور بھی سلجوق یونیورسٹی کے شعبہ اردو سے وابستہ ہیں۔ مولانا الطاف حسین حالی حیات و تصنیفات، اقبال اور بانگ درا، 1850 سے 1900 کے دوران ہنداسلامی فکری تحریکات اور شاہ ولی اللہ اردو اور ترکیات وغیرہ ان کے تحقیقی موضوعات رہے۔ ڈاکٹر خاقان قیومجو اس شعبے کے ایک اور ترک استادہیں، انھوں نے اردو ناول نگاری کے موضوع پرپی ایچ ڈی کی۔ اس کے علاوہ اردو ڈرامے کا ارتقا اور آغاحشر اور غالب کی شاعری پر مضامین بھی لکھے ہیں۔ ترکی میں اردو کا تیسرا اور سب سے بڑا شعبہ استنبول یونیورسٹی میں قائم ہے۔ 1974 سے شعبہ اردوکے قیام کے لیے مسلسل کوششیں ہوتی رہیں۔ اس دوران انقرہ یونیورسٹی سے پاکستانی پروفیسر یہاں آتے رہے۔ اکتوبر 1985 میں پروفیسر غلام حسین ذوالفقار کا تقرر استنبول یونیورسٹی کے اردو چیئر پر ہوا۔ اس وقت یہاں شعبہ اردو کا نام و نشان تک نہیں تھا۔

انھوں نے بڑی جد و جہد کرکے اردو کو اختیاری مضمون کا درجہ دلایا اور طلبامیں دل چسپی پیدا کرکے اردوسیکھنے کی طرف مائل کیا، تاہم 1990 میں انھیں پاکستان واپس بلا لیا گیا۔ اس دوران پروفیسر غلام حسین ذوالفقار نے خلیل طوقار کو دریافت کرلیا تھا، چناں چہ ان کے جانے کے بعدشعبے کی تمام تر ذمے داری خلیل طوقار کے سر آگئی۔ 1994 سے اس شعبے میں باقاعدہ داخلہ شروع ہوگیا۔ اس وقت وہ اردوکے اکیلے استادتھے۔ اسی دوران پاکستان سے سید بخاری کو بھیجا گیا ،مگر انھوں نے پاکستانی وزارتِ تعلیم کو خط لکھا اور اسے بند کردینے کا مشورہ دیا۔ اس طرح پاکستانی حکومت نے اساتذہ بھیجنے کا سلسلہ بندکردیا۔اس کے باوجود استنبول یونیورسٹی کا شعبہ اردو برقرار رہا۔

خلیل طوقار کے مطابق ترکی میں اردو زبان و ادب کی تعلیم کا مقصداہل اردو اور ترکی کے مابین قدیم ترین اخوت و محبت اور تہذیبی و لسانی یکسانیت کو نئی سمت پر گامزن کرنا اور ریسرچ اسکالرز کی علمی و ادبی سطح پر تربیت کرنا ہے، تاکہ وہ اپنی قدیم ترین وراثت سے بخوبی آشناہوسکیں۔ ترک طالب علموں میں اردو سیکھنے کی کئی وجوہات ہیں جن میں سب سے اہم برصغیرکی زبان و تہذیب سے ترکوں کی قلبی وابستگی ہے۔ ترک اردو زبان و تہذیب کو دل و جان سے عزیزسمجھتے ہیں اور اسے سیکھنا چاہتے ہیں۔

ترکی میں اب تک اردو کے تقریبا پچاس مقالے مختلف موضوعات پر لکھے جاچکے ہیں۔ سودا، غالب، اقبال، فیض، پروین شاکر، جدید اردو شاعری، نذیراحمد، سجاد حیدر یلدرم، پریم چند، منٹو، محمدحسین آزاد، ابوالکلام آزاد، اردو افسانہ، اردو ناول، اردوسفرنامے، تزک جہانگیری، دربار اکبری، تزک بابری اور برصغیر پاک و ہند اور ترکی کی تہذیبی و لسانی مماثلتیں وغیرہ موضوعات پر کام ہوچکے ہیں۔ بیشتر موضوعات میں کسی نہ کسی نہج سے ہند و ترک تہذیب کی ہم آہنگی اور جذبہ دوستی کو اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مثلا ’ہندوستان میں ترک تہذیب کے نشان‘، ’سجاد حیدر یلدرم کی افسانہ نگاری‘، ’1850-1900 میں برصغیر میں رونماہونے والی فکری تحریکیں‘، ’مولانا ابوالکلام آزاد اور الہلال کے تناظر میں ترکی اور ترک‘اور ’برصغیر پاک و ہند کی اردو فارسی شاعری میں ترکی اور ترک‘ وغیرہ۔غرض کہ ترکی میں اردو زبان و ادب کی تاریخ بہت قدیم ہے۔ اردو اور ترکی زبانیں ایک دوسرے کے مماثل، نیز رسم الخط کی تبدیلی کے باوجود بے شمار الفاظ، ضرب الامثال اور محاورے مشترک ہیں۔ اسی لیے ترک برصغیر کو اپنا وطن ثانی اور اردو زبان کو اپنا قدیم اور قیمتی اثاثہ مانتے ہیں۔