زندگی درد بھی دوا بھی تھی

July 01, 2020

امجد اسلام امجد

زندگی درد بھی دوا بھی تھی

ہم سفر بھی گریز پا بھی تھی

کچھ تو تھے دوست بھی وفا دشمن


کچھ مری آنکھ میں حیا بھی تھی

دن کا اپنا بھی شور تھا لیکن

شب کی آواز بے صدا بھی تھی

عشق نے ہم کو غیب دان کیا

یہی تحفہ یہی سزا بھی تھی

گرد باد وفا سے پہلے تک

سر پہ خیمہ بھی تھا ردا بھی تھی

ماں کی آنکھیں چراغ تھیں جس میں

میرے ہمراہ وہ دعا بھی تھی

کچھ تو تھی رہ گزر میں شمع طلب

اور کچھ تیز وہ ہوا بھی تھی

بے وفا تو وہ خیر تھا امجدؔ

لیکن اس میں کہیں وفا بھی تھی