اپنا اپنا پریشرککر

July 07, 2020

تحریر:وجاہت علی خان۔۔ہائیڈ پارک
کبھی زمانہ طالب علمی میں بریگیڈیئر صدیق سالک کی تصنیف ’’پریشر ککر‘‘ پڑھی تھی۔اس ناول کا لب لباب و مدعا بھی زمانے کی بے اعتنائی، جھوٹ اور مکر و فریب کے جاری نظام کی نوحہ خوانی ہے۔ اس تحریر کا بنیادی کردار، فطرت جس کڑی آزمائش سے گزر کر اور دماغی پریشر ککر میں جلنے کڑنے کے بعد جو نتیجہ اخذ کرتا ہے یوں لگتا ہے اسی کردار کی طرح ہم سب کا بھی اپنا اپنا پریشر ککر ہے، جسے مصنف کے الفاظ میں یوں محسوس ہوتا ہے کہ کسی نے ہمیں زبردستی جکڑ کر پریشر ککر میں لا پھینکا ہے اور اس کی سیٹی بج بج کر ہمیں خطرے سے آگاہ کررہی ہے لیکن ہم دم سادھے بیٹھے ہیں اور بالآخر ایک دن یہ پریشر ککر پھٹ جائے گا اور تباہی کا موجب ہوگا۔ تین دہائیاں پہلے میں نے پاکستان سے برطانیہ ہجرت کی تو اس ملک کے بارے میں فیئرنیس اور ٹروتھ نیس کی جو داستانیں میرے کانوں میں رس گھولا کرتی تھیں یہاں مقیم رہ کر اور معاشرے کو قریب سے دیکھا تو یہاں کے بیرونی ڈھانچے کے اندر کا کھوکھلا پن بھی عود کر سامنے آیا لیکن یہ بھی پتا چلا کہ کبھی یہاں کے مقامی لوگ جھوٹ نہیں بولتے تھے اور سچ کہنے والے انسان کی بڑی تکریم کی جاتی تھی۔ سینئر ہجرت کاروں نے بتایا کہ رفتہ رفتہ جس رفتار سے ملٹی کلچرل سوسائٹی برطانیہ میں ترویج پاتی رہی یہاں بھی ٹیکنیکل فراڈ یعنی قانون کے سقم کا فائدہ اٹھاکر مال بنانے کا رواج عام ہوگیا۔ برسوں پہلے تعلیم سے فارغ ہوا تو عملی زندگی شروع کرتے ہی میں خود کو یہی سمجھاتا رہا کہ بہرحال سچائی، وفاداری اور حق گوئی جیسے الفاظ کے درجات جھوٹ، مکاری، بے وفائی اور باطل سے کہیں اونچے ہو تے ہیں اور فتح ہمیشہ سچ کی ہوتی ہے، لیکن صدافسوس کہ وقت اور بدلتے حالات نے آشکار کردیا کہ یہ سب کتابی باتیں اور اساطیری داستانوں سے زیادہ کچھ بھی نہیں۔شعبہ صحافت میں آنے کے بعد کم از کم میں یہی سمجھتا رہا اور خود کو اس بات پر مائل کرتا رہا کہ میں اپنے پروفیشن کو بنی نوع انسان کی خدمت و عظمت کے لیے استعمال کروں گا اور معاشرے میں بجا پھیلی ہوئی کج رویوں، زیادتیوں اور بے انصافیوں کو بے نقاب کروں گا جن سے میرے وطن کو کروڑوں انسان نبرد آزما ہیں، لیکن یہ حقیقتیں مجھ پر بڑی تیزی سے آشکار ہوئیں کہ نہیں بھائی جان جتنا امن خوش حال اور احساس تحفظ جھوٹ کے دامن سے لپٹے رہنے میں ہوتا ہے سچائی کا علم اٹھاکر زیادتی، ظلم اور ظالم کے خلاف بولنے سے حاصل ہو ہی نہیں سکتا۔ کئی سال ہوئے مجھے اس حقیقت سے روشناس کروایا گیا میرے وطن کے عظیم دانشوروں اور قلمی جہادیوں کی طرف سے کہ تھوڑا عقل سے کام لیں ا ور سارے جہاں کا درد اپنے جگر میں، لینے کا جو سودا آپ کے دماغ سے نکلتا ہی نہیں آنکھیں موند کر اسے نکال باہر کریں اور ہماری طرح بھیڑ، بکریوں کے ایک وسیع تر ریوڑ میں شامل ہوکر مزے کریں اور اس معراج کو پالیں جہاں وسیع و عریض خوشحالی کے عشرت کدے بھی ہیں اور جان و مال کی امان بھی!! میری توجہ دلائی گئی کہ اگر تم چند گھسی پٹی اور بے ثمر اخلاقی قدروں کو بنیاد بناکر اپنے لیے ایک آئیڈیل وضع کرلوگے تو پھر ساری عمر اس آئیڈل ازم کے لیے سرگرداں رہوگے اور اسی حسرت ویاس میں بالآخر پیوند خاک ہوجائو گے، کیونکہ یہ عملی معاشرہ ہے اور تم کتابوں میں لکھے سچ کی باتیں کرتے ہو اور مبلغین کی مثالیں دیتے ہو، حالانکہ یہاں تو سچ وہی ہے جس کی آواز طاقتور رتبے اور اثر انداز ہوتے افراد اور محل سرائوں سے نکلتی ہے، لہٰذا زندگی جو پیمانہ تمہارے سامنے رکھے اس میں خاموشی سے فٹ ہوجائو، کیونکہ تمہارے طریقے میں تکلیف، رکاوٹیں اور پریشانیاں ہیں جبکہ دوسرا راستہ نسبتاً آرام دہ اور آسان ہے۔ چنانچہ بس، آج سے میں نے اپنے آپ سے یہ عہد کرلیا ہے کہ میں درسی کتب اور اخلاقی اقدار کا وہ سارا محل مسمار کردوں گا جسے میں کوئی تین دہائیوں سے اینٹ سے اینٹ جوڑ کر تعمیر کرتا رہا ہوں اور خود کو ایک معمولی تنکے کی طرح جاری زمانے کے کثیر الجماعتی گروہ کے بہائو کے سپرد کردوں گا۔ میں نے سوچ لیا ہے کہ اب میں دن کو رات اور رات کو دن کہوں گا، کیونکہ آج کی ڈیمانڈ ہی یہی ہے اور اگر فی زمانہ زندگی کی نوید کے لیے کسی انسان میں یہ اوصاف ہونا صروری ہیں تو پھر منیں کیوں جی کو جلاتا رہوں، کڑھتا، کلبلاتا رہوں، میں کیوں مارکیٹ کے حساب سے بیوپارنہ کروں؟ شاید میری اپروچ درست نہیں تھی، کیا یہ میرا کام ہے کہ ارباب اختیار کو یہ بتائوں کہ کہاں ظلم و زیادتی ہورہی ہے اور اس بات کی دہائی دوں کہ ملک کا متوسط طبقہ غائب ہورہا ہے، مجھے قطعی یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ملک میں کسی کی عظمت محفوظ نہیں اور نہ ہی جان و مال کا تحفظ، مجھے اس بات سے بھی غرض نہیں ہونی چاہیے کہ ملک کی خارجہ پالیسی کیا ہے اور کیا کشمیر بھارت کی جھولی میں ڈال دیا گیا ہے؟ مجھے تو فقط اپنی ضروریات پر نظر رکھنی چاہیے۔ لہٰذا میری نظروں کے سامنے ہر ہوتا ہوا غلط کام یعنی دو نمبری مجھے اندر ہی اندر سہنی اور برداشت کرنا ہوگی، لیکن کچھ کہنا اور بولنا میرا کام نہیں، بس لکھوں تو سب ہرا ہی ہرا، لکھو ں عوام کو بتائو ں کہ ہر طرف امن ہی امن اور آتشی ہے جو ملک کے قرعہ قرعہ میں موجزن ہے، یہ مزدوری کی قسمت، کسان کا مقدر، بھوک و پیاس سے مرتے لوگ خودکشیاں کرتی مائیں، عصمت دری کے بعد قتل ہوتے بچے، لاقانونیت، ناانصافیاں یہ سب کچھ اپنے دماغ کے کینوس سے حذف کرکے مجھے بس اپنے رہنمائوں کی ہدایات پر عمل کرنا اور اپنے پریشر ککر میں ابلنا ہوگا جیسے میرے قماش کے لوگ اپنے اپنے پریشر ککر میں تاحیات ابلتے رہتے ہیں۔