صحتِ زباں: اَفشاں یا اِفشا ؟

July 16, 2020

ایک اخبار میں ایک سرخی دیکھی :طیارے کے حادثے کی رپورٹ بائیس جون تک’’ افشاں ‘‘ کردی جائے گی ۔ یہاں ’’اَفشاں ‘‘کا نہیں بلکہ ’’اِفشا ‘‘کا محل تھا۔ اگر پڑھے لکھے لوگ بھی لفظوں کے استعمال میں احتیاط نہ کریں تو دُکھ ہوتا ہے۔

اَفشاں اور اِفشا دو الگ الفاظ ہیں اور ان کے مفہوم میں بہت فرق ہے۔ ’’ اِفشا‘‘ عربی زبان کا لفظ ہے اور اس کے معنی ہیںظاہر کرنے کا عمل، انکشاف۔ خاص طور پر کسی راز یا بھید کے ظاہر کرنے یا کسی خفیہ بات کو منظر ِ عام پر لانے کا عمل’’ اِفشا ‘‘کہلاتا ہے۔ اس کی ضد ہے ’’اِخفا‘‘ یعنی خفیہ رکھنا، چھپانا ، پوشیدہ رکھنا ۔ اگرچہ اب اردو میں ان دونوں الفاظ کے املا سے ہمزہ کو خارج کردیا گیا ہے اور انھیں اردو میں اب عام طور پر اِفشا اور اِخفا لکھا جاتا ہے (جو اردو کے لحاظ سے درست ہے ) لیکن عربی میں چونکہ یہ ’’اِ فعال ‘‘ کے وزن پر ہیں لہٰذا عربی میں ان الفاظ کے آخر میں ہمزہ لکھنا پڑتا ہے ، گویا عربی کے لحاظ سے ان کا درست املا اِفشاء اور اِخفا ء ہوگا۔ لیکن اِفشا (یا اِفشاء) میں الف کے نیچے زیر ہے۔

جبکہ ’’اَفشاں ‘‘ میں الف کے اوپر زبر ہے اورآخر میں نون غنہ بھی ہے۔ افشاںفارسی زبان کا لفظ ہے اور اَفشاں کہتے ہیں اُس سنہرے بُرادے کو جو سنگھار کے طور پر خواتین مانگ میں چھڑکتی ہیں۔خیال آتا ہے کہ یہاں مانگ کی بھی وضاحت کردی جائے کہ سر کے بالوں کو دو حصوں میں الگ کرنے پر باریک لکیر کی صورت میں نظر آنے والی سر کی کھال کو مانگ کہتے ہیں ( ورنہ بعض لوگ اسے’’مطالبہ ‘‘ یعنی مانگنے کا عمل سمجھیں گے ، اگرچہ وہ معنی بھی درست ہیں ) ۔

سونے چاندی یا گوٹے کی باریک کترن کو بھی افشاں کہتے ہیں۔جس کاغذ یا کپڑے یا پتھر پر رنگ چھڑکا گیا ہو یا رنگین نشانات بنے ہوئے ہوں اُسے بھی افشاں کہتے ہیں اور اسی لیے ’’افشاں کرنا‘‘ اردو میں ایک محاورہ ہے جس کا مطلب ہے رنگ چھڑکنا۔ اگر خبر کے مطابق طیارے کی رپورٹ ’’ افشاں کی جائے گی‘‘ تو کیا اس پر رنگ چھڑکا جائے گا؟ افسوس کہ ایک سانحے کی خبر کو بھی مضحکہ خیز بنادیا گیا ۔

افشاں چُننا، افشاں جمانا ، افشاں چھڑکنا جیسے مرکبات بھی اردو میں مستعمل ہیں اور لگی ہوئی افشاں کو الگ کرنے کو افشاں چُھڑانا کہتے ہیں۔جو چیز چھڑکی جائے اسے بھی افشاں کہتے ہیں اور افشاں ایک لاحقۂ فاعلی بھی ہے اور اس کا مطلب ہے چھڑکنے والا ۔ دراصل فارسی میں ایک مصدرہے ’’ افشاندن ‘‘، یعنی چھڑکنا ،بکھیرنا، منتشر کرنا ۔ اسی سے لاحقۂ فاعلی ’’اَفشاں ‘‘بھی بنا ہے یعنی چھڑکنے والا، بکھیرنے والا۔ افشاں کی ایک صورت الف کے بغیر اور فے کے نیچے زیر کے ساتھ بھی ہے ، یعنی ’’فِشاں‘‘ اور یہ بھی چھڑکنے والا یا بکھیرنے والا کے مفہوم میں ہے ۔ اردو میں ایسے مرکبات بکثرت ہیں جن میں اَفشاں یا فِشاں بطور لاحقۂ فاعلی آتا ہے اور بکھیرنے والا ؍والی کا مفہوم دیتا ہے ، مثلاًراحت افشاں ، آتش فِشاں(آگ اُگلنے والا پہاڑ )، دُرفِشاں (جو موتی بکھیرے)وغیرہ۔ خوں افشاں یا خوں فِشاںعموماً آنکھ کے لیے آتا ہے ، جیسے چشم ِ خوں فشاںاور مراد ہے خون کے آنسو رونے والی آنکھ ۔یہ شدید رنج و غم کا استعارہ ہے۔

اسی طرح گل فِشاںیا گل افشاں( پھول بکھیرنے والی یا والا) کی ترکیب بھی ہے۔گل کامطلب پھول ہے اور گل افشاں یعنی جو پھول بکھیرے۔لیکن گل افشاں کے اور معنی بھی ہیں۔افسوس کہ اردو لغت بورڈ نے اپنی لغت میں گل افشاں کے تمام معنی نہیں لکھے ۔ جس شیشی یا دھاتی برتن سے گلاب کا پانی چھڑکتے ہیں اسے بھی گل افشاں کہتے ہیں ۔گل افشاں ایک طرح کی آتش بازی بھی ہوتی ہے جس میں سے چنگاریاں بکھرتی ہیں تو بظاہرپھول سا بن جاتا ہے اور اسے خالص اردو میں پُھل جھڑی (پھلجھڑی )کہتے ہیں کہ اس میں پھول سے جھڑتے نظر آتے ہیں۔

فارسی کے اسی مصدر افشاندن سے فِشانی یااَفشانی بھی ہے جس کا مطلب ہے بکھیرنے کا عمل، جیسے : گوہر افشانی یعنی موتی بکھیرنے کا عمل ۔ عمدہ گفتگو کرنے کو بھی گوہر افشانی کہتے ہیں، لیکن یہ طنزیہ بھی آتا ہے اور جب کوئی فضول بات کرے تو طنزاًکہتے ہیں کہ ’’کیا گوہر افشانی فرمائی ہے‘‘ ۔جس کاغذ یا فرش پر رنگ چھڑک کر نقش و نگار بنائے گئے ہوں اُسے افشانی کاغذ اور افشانی فرش کہتے تھے ۔ اب اس کا استعمال شاذ و نادر ہی ہوتا ہے۔ البتہ گل افشانی (یعنی پھول بکھیرنے کا عمل) کی ترکیب اب بھی مستعمل ہے ۔ گل افشانی کا ایک مفہوم عمدہ باتیں ، خوش بیانی اور خوش گفتاری بھی ہے جسے ہم اردو میں’’ منھ سے پھول جھڑنا ‘‘ بھی کہتے ہیں۔ غالب نے کہا :

پھر دیکھیے انداز ِ گل افشانی ٔ گفتار

رکھ دے کوئی پیمانہ ٔ صہبا مرے آگے

صہبا سرخ شراب کو کہتے ہیں اور انگور کے رس کو بھی صہبا کہتے ہیں ۔

شبنم افشانی کے لفظی معنی تو’’ شبنم چھڑکنا ‘‘ ہیں لیکن مرادی معنی ہیں آنسو بہانا۔ اقبال نے اپنی نظم ’’والدہ ٔ مرحومہ کی یاد میں‘‘ میں کہا ہے :

آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے

سبزۂ نَو رُ ستہ اس گھر کی نگہبانی کرے

چلتے چلتے یہ وضاحت بھی کردی جائے کہ اس شعر میں لفظ ’’ رَ ستہ ‘‘ نہیں ہے بلکہ ’’رُستہ‘‘ ہے اور فارسی کے مصدر رُستن (یعنی اُگنا )سے ہے ۔ نَو رُستہ یعنی تازہ اُگا ہوا۔