غلامانہ سوچ اور بلوچستان

July 25, 2020

بلوچستان سے دور ہر شخص سمجھتا ہے کہ یہاں سے اب اچھی خبریں آرہی ہیں، گویا سب مسائل حل ہو گئے ہیں، صحت کی سہولتیں بھی سب کو میسر ہیں۔ غریبوں اور ناداروں کا ملکی سطح پر علاج کروانے کیلئے اڑھائی ارب روپے کی ایئر ایمبولینس بھی حکومت خرید رہی ہے اور مالی سال کے اختتام پر صحت مند وزیراعلیٰ بلوچستان کو حکومت علاج معالج کی مد میں آٹھ لاکھ روپے ادا کر چکی ہے۔ قدیم تہذیبوں میں جب غلامی جائز تھی تو باقاعدہ غلاموں کی منڈیاں لگتی تھیں جہاں سرعام اور آزادانہ طور پر انسانوں کی خرید و فروخت ہوتی تھی۔ غلام خریدنے والے کو اس کے جسم و جاں پر کلی اختیار ہوتا تھا۔ پھر بیسویں صدی میں غلامی کو ناجائز، غیرقانونی اور انسانیت کی تذلیل قرار دیا گیا اور دنیا سے اس قسم کی غلامی کا خاتمہ ہو گیا۔ اب دنیا بھر میں غلامی ایک جرم ہے لیکن غلامی اب بھی مختلف صورتوں میں نہ صرف موجود ہے بلکہ معاشرے میں اس کے اثرات بھی انتہائی بھیانک ہیں۔ میں غلامی کی دو قسموں، ذہنی غلامی اور معاشی غلامی کا ذکر کرتا ہوں کیونکہ آج کل ہمارا معاشرہ انہی اقسام کی غلامیوں سے دوچار ہے۔ میں اپنے صوبے کی بیورو کریسی کو ذہنی طور پر غلام سمجھتا ہوں۔ آپ کسی بھی آفس میں جائیں اور پوچھیں کہ یہ آپ کیوں کر رہے ہیں جبکہ آپ کو پتا بھی ہے یہ غلط کام ہے۔ تو آگے سے ایک ہی جواب سننے کو ملتا ہے کہ کیا کریں جی نوکری کرنی ہے گویا نوکری نہ ہوئی غلامی ہوئی۔ اس سال کے بجٹ کے بارے میں پی اینڈ ڈی کے افسروں سے جب پوچھو کہ آپ نے یہ کس طرح کی پلاننگ کی ہے کہ جہاں اسکیموں کی نہ فزیبیلیٹی بنی، نہ کوئی طریقہ کار اپنایا گیا ہے۔ یہ ترجیحات طے کہاں ہوئیں تو جواب ملتا ہے کہ ہمیں تو اپنی پانچ تنخواہوں سے غرض ہے جو بغیر کام کیے مل جاتی ہیں۔ بس قصہ تمام۔ جب محکمہ فنانس سے پوچھو کہ آپ نے بجٹ میں کیا حصہ ڈالا تو جواب ملتا ہے چونکہ 90فیصد نان ڈویلپمنٹ بجٹ تنخواہوں کا ہوتا ہے اس لیے کوئی تردید نہیں کرنا پڑتی۔ کچھ اسی قسم کی صورتحال آپ کو ہر محکمے میں نظر آئے گی سوائے ایک یا دو سیکرٹریوں کے کوئی یہ نہیں کہے گا کہ اس بجٹ میں میری بھی کوئی کنٹریبوشن ہے۔ میں ایک یا دو سیکرٹری کیوں کہتا ہوں اس لیے کہ ان کی تو لاٹری نکلی ہوئی ہے اربوں کے پروجیکٹ ان کے محکمے کے ذریعے ہو رہے ہیں۔ ان میں سے ایک سیکرٹری صاحب تو شہباز شریف کے دور حکومت میں اپنے جوہر دکھا چکے ہیں،یہاں بھی ان کی لینڈنگ بڑی شاندار ہوئی ہے۔ وہ بڑے صاحب کو سمجھتے اور پرکھتے ہوئے ان کے مزاج کے مطابق ڈیل کرتے ہیں، حال ہی میں موصوف سیکرٹری صاحب نے کوئی 35سے 40کروڑ روپے مالیت کے روڈ ٹینڈر کیے ہیں۔ ان میں سے کوئی روڈ بھی نیا نہیں ہے بلکہ وہ روڈ اچھی حالت میں ہیں لیکن چونکہ روڈ کا کام آسان ہے، دوسرا ان میں بچت بہت ہے، اس کے مقابلے میں بلڈنگ کا کام ذرا مشکل ہے، بچت بھی کم ہے لہٰذا اپنا نقصان نہیں کرنا چاہئے۔ بیوروکریسی کے یہ غلام اپنی ٹائپ کے وکھرے غلام ہیں جو مالک کے لیے کم اور اپنے لیے زیادہ کام کرتے ہیں۔ ہمارے صوبے میں معیشت کی بہت بری حالت ہے۔ لوگوں کی اکثریت کی صبح کا آغاز دو وقت کی روٹی کے حصول کی تلاش سے شروع ہوتا ہے جو دن ڈھلنے تک جاری رہتا ہے۔ ان میں سے اگر کوئی بیمار پڑ جائے تو قرضہ مانگ کر کسی سرکاری اسپتال کا رخ کرتا ہے جہاں بہت مشکل سے اگر ڈاکٹر تک رسائی ہو بھی جائے تو دوائی پھر بھی خود سے خریدنا پڑتی ہے۔ جہاں اس قسم کی غربت ہو وہاں حکومتیں معیشت کو رواں رکھنے کیلئے یا اس میں تیزی لانے کیلئے بجٹ میں اس قسم کے اقدامات کرتی ہیں کہ جس سے معاشرے کا بلاتخصیص بھلا ہولیکن یہاں اس بدقسمت صوبے میں سب اس کے برعکس ہوتا ہے۔ ایک انجینئر کے بقول بجٹ کا دن ہمارے حکمرانوں کے لیے عید سے بڑھ کر ہوتا ہے۔ سوچ سوچ کر اور بڑی تحقیق سے اس قسم کی اسکیمیں ڈالی جاتی ہیں جس سے مال ہاتھ میں آئے اور جلد آئے چونکہ کوئی سسٹم نہیں ہے اس لیے ہمارے عوام بھی اپنے چھوٹے اور بنیادی معاشی مسائل یعنی روزگار، سڑک، اسپتال، اسکول کیلئے حکمرانوں کا طواف کرنا شروع کر دیتے ہیں جسے معاشی غلامی کہا جا سکتا ہے۔ یہ ایک ایسا گھن چکر ہے جس سے نکلنے کی کوئی سبیل نظر نہیں آتی یہ معاشرے میں غلامی کی بدترین قسم ہے۔