آزادی

September 02, 2020

فراق گورکھپوری

مری صدا ہے گل شمع شام آزادی

سنا رہا ہوں دلوں کو پیام آزادی

لہو وطن کے شہیدوں کا رنگ لایا ہے

اچھل رہا ہے زمانے میں نام آزادی

مجھے بقا کی ضرورت نہیں کہ فانی ہوں

مری فنا سے ہے پیدا دوام آزادی

جو راج کرتے ہیں جمہوریت کے پردے میں

انہیں بھی ہے سر و سودائے خام آزادی

بنائیں گے نئی دنیا کسان اور مزدور

یہی سجائیں گے دیوان عام آزادی

فضا میں جلتے دلوں سے دھواں سا اٹھتا ہے

ارے یہ صبح غلامی یہ شام آزادی

یہ مہر و ماہ یہ تارے یہ بام ہفت افلاک

بہت بلند ہے ان سے مقام آزادی

فضائے شام و سحر میں شفق جھلکتی ہے

کہ جام میں ہے مئے لالہ فام آزادی

سیاہ خانۂ دنیا کی ظلمتیں ہیں دو رنگ

نہاں ہے صبح اسیری میں شام آزادی

سکوں کا نام نہ لے ہے وہ قید بے میعاد

ہے پے بہ پے حرکت میں قیام آزادی

یہ کاروان ہیں پسماندگان منزل کے

کہ رہروؤں میں یہی ہیں امام آزادی

دلوں میں اہل زمیں کے ہے نیو اس کی مگر

قصور خلد سے اونچا ہے بام آزادی

وہاں بھی خاک نشینوں نے جھنڈے گاڑ دیئے

ملا نہ اہل دول کو مقام آزادی

ہمارے زور سے زنجیر تیرگی ٹوٹی

ہمارا سوز ہے ماہ تمام آزادی

ترنم سحری دے رہا ہے جو چھپ کر

حریف صبح وطن ہے یہ شام آزادی

ہمارے سینے میں شعلے بھڑک رہے ہیں فراقؔ

ہماری سانس سے روشن ہے نام آزادی