میں بچ بھی جاتا تو اک روز مرنے والا تھا

September 02, 2020

یہ سانحہ تو کسی دن گزرنے والا تھا

میں بچ بھی جاتا تو اک روز مرنے والا تھا

ترے سلوک تری آگہی کی عمر دراز

مرے عزیز مرا زخم بھرنے والا تھا

بلندیوں کا نشہ ٹوٹ کر بکھرنے لگا

مرا جہاز زمیں پر اترنے والا تھا

مرا نصیب مرے ہاتھ کٹ گئے ورنہ

میں تیری مانگ میں سندور بھرنے والا تھا

مرے چراغ، مری شب ، مری منڈیریں ہیں

میں کب شریر ہواؤں سے ڈرنے والا تھا