اٹک کے بخاری خاندان کی داستانِ شجاعت

September 17, 2020

پشاور میں بڈابیر ایئر بیس پر 18ستمبر 2015کو دہشتگردوں نے دھاوا بول دیا۔ دہشتگردوں کا مقابلہ کرتے ہوئے نہ صرف 28جوان شہید ہو گئے بلکہ آپریشن کے انچارج میجر سمیت 29 فوجی زخمی بھی ہو گئے۔ کیپٹن اسفند یار جو اسٹاف افسر تھے انہوں نے اصرار کرکے اس آپریشن کی کمانڈ حاصل کی اور پھر کچھ ہی دیر میں بغیر کسی جانی نقصان کے 13دہشتگرد وں کو ختم کردیا گیا۔ اب ایک دہشتگرد بچ گیا تھا، جب ایریا کلیئر کیا جا رہا تھا تو اس دہشتگرد نے اچانک فائرنگ کردی جس سے کیپٹن اسفند یار شہید ہو گئے مگر ضلع اٹک کے اس بخاری خاندان کی داستان شجاعت کا آغاز 1857کی جنگ آزادی سے ہوتا ہے۔ اٹک سے پنڈی گھیب جاتے ہوئے راستے میں ایک چھوٹا سا قصبہ آتا ہے جس کا نام ہے ’’کِسراں‘‘۔ سید صاحب شاہ بخاری نے 1845میں یہاں ایک عظیم الشان مکتب کی بنیاد رکھی جس میں عربی ،فارسی اور ریاضی کے علاوہ فن سپاہ گری کی تعلیم دی جاتی تھی۔اسی اثنا میں 1857کی جنگ آزادی کا آغاز ہوجاتا ہے اور مزاحمت کی بازگشت ضلع اٹک کے اس چھوٹے سے گائوں میں بھی سنائی دینے لگتی ہے۔ کیپٹن اسفند یار شہید کے والد ڈاکٹر فیاض حسین بخاری نے اپنے بڑے بیٹے یعنی اسفند یار کے بڑے بھائی شہر یار کے استفسار پر ماہنامہ حکایت کے 1990میں شائع ہونے والے شمارے میں جنگ آزادی کی یہ داستان بیان کی ہے۔ ڈاکٹر فیاض حسین بخاری لکھتے ہیں کہ سید صاحب شاہ بخاری کو مولوی احترام الدین فرید کوٹی کا پیغام جہاد ملا۔ اگلے ہی روز انہوں نے مدرسے کے سامنے ایک مجمع میں اعلان جہاد کردیا۔ چند ہی دنوں میں سید صاحب شاہ کے پاس 400مجاہدین اکھٹے ہوگئے ان میں سے پچاس سے زیادہ ان کے شاگرد تھے۔

اس وقت ڈاکٹر فیاض حسین بخاری کے دادا اور اسفند یار شہید کے پردادا یعنی سید صاحب شاہ کے بیٹے حیدر شاہ محض چار سال کے تھے مگر یہ بطل حریت اپنے کم سن بیٹے اور رفیقہ حیات کو اٹک میں چھوڑ کرجون 1857میں مجاہدین کے قافلے کی قیادت کرتے ہوئے کِسراں سے لاہور کی طرف روانہ ہوئے۔ یہ قافلہ سخت جاں چند دنوں کی مسافت کے بعد ہی لاہور پہنچ گیا۔ لاہور میں مولوی احترام الدین فرید کوٹی کے ہاں بھی لگ بھگ 150حریت پسند جمع تھے۔ ان مجاہدین کی منزل دہلی تھی جہاں آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر کی قیادت میں انگریزو ں سے آزادی کی جنگ لڑی جا رہی تھی مگر یہ سفر کٹھن اور دشوار ہی نہیں پرخطر بھی تھا کیونکہ لاہور سے دہلی جانے والے تمام راستوں پر کڑی نگرانی کا سلسلہ جاری تھا اور نہ صرف انگریز بلکہ ان کے ایجنٹ کا کردار ادا کرنے والے مقامی افراد بھی مجاہدین کی بو سونگھتے پھرتے تھے۔تمام تر خطرات کے باوجود مجاہدین کا یہ قافلہ اگست 1857میں دہلی کے لال قلعہ تک پہنچ گیا جہاں مغل بادشاہ بہادر ظفر کے زیر سایہ فوج کی قیادت روہیلہ سردار بخت خان کر رہے تھے۔ سید صاحب شاہ بخاری نے کئی معرکوں میں شجاعت کا مظاہرہ کیا تو انہیں فوج کی ایک ٹکڑی کا کمانڈر بنادیا گیا اور یہ دستہ پگڑی والے کے لشکر کے نام سے مشہور ہو گیا۔ سید صاحب شاہ بخاری اور ان کی کمان میں موجود مجاہدین کو دہلی کے مشہور اجمیری دروازے کی حفاظت پر مامور کیا گیا۔ اُدھر انگریز فوج کے جنرل نکلسن جن کا شمار نہایت قابل فوجی افسروں میں ہوتا تھا،کو اب دہلی کا قبضہ واپس لینے کی ذمہ داری انہیں سونپی گئی تھی اور وہ اپنی فوج کیساتھ دہلی کا محاصرہ کئے ہوئے تھے۔

جنرل جان نکلسن بہادر ہونے کیساتھ ساتھ نہایت ظالم اور سفاک انسان تھا۔ اس نے سیالکوٹ اورپشاور سمیت کئی علاقوں میں بغاوت کرنے والے مقامی سپاہیوں کو بغیر ٹرائل کے نہایت بےرحمانہ انداز میں مار دینے کا کلچر متعارف کروایا۔ اجمیری دروازے کے معرکے میں سید صاحب شاہ بخاری کے دستے نے جنرل نکلسن کو گھائل کردیا اور وہ بعد ازاں انہی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے مر گیا۔قبل ازیں جنرل نکلسن نے 14ستمبر 1857کو نئی حکمت عملی کے تحت انگریز فوج اور اس کے زیر سایہ لڑنے والے مقامی لشکر کو پانچ حصوں میں تقسیم کرکے پانچ مختلف اطراف سے بیک وقت حملہ کرنے کا منصوبہ بنایا۔ سب سے شدید حملہ اجمیری دروازے پر کیا گیا اور اس کی حفاظت پر مامور سید صاحب شاہ کے دستے نے انگریز فوج کی توقعات سے کہیں بڑھ کر مزاحمت کی۔ انگریز میجر جیک فصیل پر چڑھ آیا مگر اس سے پہلے کہ وہ بندوق سیدھی کرتا، سید صاحب شاہ کے دستے میں شامل ایک جوان نے اسے مار گرایا۔ اٹک کے مٹھیال قبیلے سے تعلق رکھنے والے مجاہدین نہایت بے جگری سے لڑے اور ایک موقع پر انگریز فوج کو پسپا کرنے میں کامیاب ہوگئے۔

کیپٹن اسفند یار بخاری شہیدکے والد ڈاکٹر فیاض حسین بخاری کے پردادا سید صاحب شاہ نے جوانوں کا حوصلہ بڑھایا اور انہیں للکارتے ہوئے کہا، میرے مجاہد ساتھیو! تم بہت دور سے آئے ہو، تم پہاڑوں سے شہادت کا عزم لیکر آئے ہو۔ پیٹھ مت دکھانا۔ اجمیری دروازے پر لڑنے والے مٹھیال قبیلے کے پرعزم جوانوں نے تو پیٹھ نہ دکھائی مگر غدار فصیل سے باہر ہی نہ تھے بلکہ قلعے کے اندر بھی موجود تھے۔ ان غداروں نے فصیل کو اندر سے توڑ دیا تو انگریز فوج کا دستہ اندر داخل ہونے میں کامیاب ہو گیا۔ (جاری ہے)