ڈوبتا ہوا کراچی اور پرعزم شہری

September 17, 2020

حالیہ بارشوں کے بعد راقم نے ہمت کرکے شہر کی سب سے بڑی ندی کا دورہ کیا تاکہ اندازہ لگایا جاسکے کہ اس پر ناجائز تجاوزات قائم ہونا شروع ہو چکی ہیں یا ابھی قابضین کی نظروں سے بچی ہوئی ہے۔ بڑے افسوس کے ساتھ عرض کرنی ہے کہ اگر ارباب اقتدار، اختیار اور متعلقین نے توجہ نا دی تو اگلی دفعہ کی بارش میں "ریسکیو" کی کوئی گنجائش نہ ہو گی۔ لیاری ایکسپریس وے کے پورے راستے میں دو بھینسوں کے باڑے قائم ہوچکے ہیں وہ بھی باقائدہ راستہ ہموار کرکے۔ اور سطح زمین کو برابر کرکے۔ اگر ابھی کوئی ایکشن نہ لیا تو پھر پوری "بھینس کالونی" یہیں منتقل ہوجائے۔ اور پھر قانون حرکت میں آنے پہ "انسانی حقوق کی پامالی" ہوجائے گی۔ اس کے علاوہ دو فٹ بال اسٹیڈیم بھی بنائے جاچکے ہیں. جن میں باقاعدہ دو گول کے پول اور بیٹھنے کے لئے سیٹس تک لگا دی گئی ہیں۔ اب دو دھوبی گھاٹ بھی قائم ہوچکے ہیں۔ ایک چھوٹے پیمانے پہ اور ایک بڑے پیمانے پہ۔ ٹرکوں کی پارکنگ بھی بنا دی گئی ہے جہاں پر بڑی تعداد میں ٹرک مستقل بنیادوں پر کھڑے کئے جا رہے ہیں اس کے علاوہ جگہ جگہ جگہ جھگیاں آباد چکی ہیں۔ جو کہ اچھی بڑی تعداد میں ہیں۔ یہ زیادہ تر یہ جھگیاں انٹرچینج پر بنائی گئی ہیں ۔ اگر اسی طرح ان خانہ بدوشوں کو یہاں آباد ہونے دیا گیا تو کچھ عرصے بعد یہ عارضی جھگیاں کچے گھروں میں تبدیل ہوکر کسی سیاسی تنظیم کی سرپرستی حاصل کرکے کچی آبادی قرار دینے کی درخواست کریں گی اور جو منظور بھی ہوجائے گی۔ پھر آئندہ بارشوں میں کتنی مشکل ہو کتنا پانی کھڑا رہے "مظلوم" یہی "غیرقانونی قابضین" ہی کہلائیں گے۔۔۔۔۔ لہذا مشکل میں پڑنے سے بہتر ہے مقتدر طبقے اس طرف توجہ دیں ورنہ آگے کے حالات کا سامنے کرنے کی ہمت کرلیں۔کیوں کہ اب شہری بہت تنگ آ چکے ہیں اور اپنی مدد د آپ کے تحت اپنے علاقے کی بہتری کے لیے کام کرنے کو تیار ہیں۔ جس کےلئے وہ حکومت کی طرف دیکھنے کی بجائے اپنے وسائل پر انحصار کرتے ہوئے انہیں جمع کر رہے ہیں۔ اور اپنے علاقے کو صاف کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کمیونٹی ڈویلپمنٹ کے طرز پہ اپنے اپنے علاقوں میں چھوٹی چھوٹی تنظیمی بنا لی ہے ہیں۔ جو کہ نہ صرف علاقے کی صفائی کی ذمہ دار ہیں بلکہ وہ اس بات کا بھی تعین کر رہی ہیں کہ کس جگہ جا کر نکاسئ آب کا تسلسل ٹوٹتا ہے۔ اور کیسی غیرقانونی تعمیرات نے ان کے علاقے کے سیوریج اور بارش کے پانی کے بہاؤ کو روکا ہوا ہے۔ نارتھ ناظم آباد ریذیڈنٹس ایکشن کمیٹی کے مطابق ایک نجی اسپتال کی نا لے پہ غیرقانونی تعمیر ان کے علاقے کے لئے عذاب بنی ہوئی ہے جس کے لئے وہ قانونی چارہ جوئی کریں گے۔ بالکل اسی طرح گلستان کے مکین نالے پہ غیرقانونی تعمیر ایک نجی یونیورسٹی سے بہت تنگ ہے جسکی وجہ سے پانی اور سیوریج کا بہاؤ الٹ جاتا اور علاقے کے مکینوں کی زندگی مشکل کردیتا ہے ۔ ناصرف کئی ہفتوں تک پانی کھڑا رہتا ہے بلکہ گھروں میں گھس کر ان کی گھریلو سامنا کو شدید نقصان پہنچاتا ہے۔ سب سے بڑھ کر جب سیوریج کا پانی زیرزمین ٹینک میں شامل ہوجاتا۔ کلفٹن اور ڈیفنس کے مکینوں کا احتجاج تو آپ دیکھ ہی رہے ہیں۔یہ تو چند مثالیں ہیں۔ لیکن واقعی اب لوگ بہت زیادہ پریشان ہوچکے ہیں ۔ اور خودانحصاری کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے ہر غیر قانونی رکاوٹ کو ختم کرنے کی ٹھان چکے ہیں۔ اب ذرا یہ ارباب اختیار غور کریں اور سوچیں کہ جب اہل علم اور اہل ثروت اپنے مسائل خود حل کرنے لگیں گے۔تو یقینا علاقے کے اپنے مسائل کے حل کے لئے ان سے رابطہ کریں گے تب ان یہ "ارباب اختیار" "کس چیز کا اختیار "رکھتے ہوں گے؟؟ اختتام پہ غیرقانونی قابضین ، نالے اور ندیوں پہ کسی کے آلہ کار بن کر اپنی بستی جمانے والے ہوشیار ہوجائیں ۔ کیونکہ جس طرح ان غیرقانونی قابضین نے سچے اور محب وطن شہریوں کو تنگ کیا ہے اور وہ اب باعزم، باحوصلہ، اور با اختیار ہوکر اپنے علاقے، اپنے شہر اور سب سے بڑھ کر اپنی آنے والی نسل کو ان تکالیف سے بچانے کے لئے میدان میں اتر چکے ہیں۔ بس اب وہ ہاتھوں میں ہتھوڑے لئے ان رکاوٹوں کو گرانے نہ آجائیں۔ انسانوں کا جم غفیر بڑے سے بڑے انقلاب کا ذریعہ بنتا ہے۔ زبان خلق کو نقارہ خدا سمجھو۔

minhajur.rabjanggroup.com.pk