اپوزیشن حکومت ٹکرائو اور بند گلی

October 24, 2020

تحریر:ہارون مرزا ۔۔۔راچڈیل
گیارہ مختلف سیاسی جماعتوں کے اپوزیشن اتحاد اور حکومت کے درمیان لفظی گولہ باری میں باضابطہ مقابلے کی فضا پیدا ہو چکی ہے،گوجرانوالہ اور کراچی میں پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کے قائدین کی تقاریر اور اسٹیڈیم میں عوامی اجتماع کا حقیقی جائزہ لینا یا اس کے دیگر بہت سے سیاسی پہلوئوں کا احاطہ کرنا مشکل ہے مگر یہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کو ایک نئے موڑ پر لے آئے ہیں یہ دیکھنے کی اشد ضرورت ہے کہ آخر یہ نوبت کیوں آئی کہ سب پردے فاش ہونے لگے اگر موجودہ حکومت کی حامی قوتیں، پی ڈی ایم کی بڑی جماعتوں میں سے کسی ایک کو الگ کرنے میں کامیاب نہیں ہوتی اور مہنگائی کے جن کو قابو نہیں کر سکیں تو ملک کا سیاسی منظرنامہ مستقبل قریب میں مزید پیچیدہ ہو جائے گا ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے منتخب نمائندوں کو توڑ کر جو سیاسی نظام تشکیل دیا گیا وہ ڈیلیور نہیں کر سکا ہے جس کے بعد نہ صرف حکومت غیر مقبول ہوتی گئی بلکہ حالات عوم کو اس نہج پر لے آئے ہیں کہ اب وہ سڑکوں پر آنے پر مجبور ہو گئے ہیں پی ٹی آئی حکومت کے دو سال کے دوران متحدہ اپوزیشن کا گوجرانوالہ میں پہلا جلسہ عام تھا جس میں ملکی سیاسی صورت حال پر اپوزیشن رہنماؤں نے کھل کر اظہار خیال کیا اور حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا، اقتصادی، معاشی، سماجی، سیاسی منظر نامہ اور حکومتی کارکردگی کا تنقیدی جائزہ لیا اور اپنے دل کی بھڑاس بھی خوب نکالی،حکومتی پالیسیوں پر کھل کر تنقید کی اور حکومت کی رخصتی کی ڈیڈ لائن تک کا اعلان کر دیا حکومت نے دو برسوں میں مہنگائی ‘ بیروزگاری ‘ اور ذخیرہ اندوزی کو کنٹرول کرنے کیلئے اقدامات نہیں کیے جس پر آج آٹا اور چینی جیسی بنیادی اشیائے ضروریہ کے بحران کو اپوزیشن ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہی ہے مگر وزیر اعظم آج بھی حالات کی بہتری کیلئے پر امید ہیں، اپوزیشن کے جلسوں پر حکومت کا رد عمل سامنے آیا وزیر اعظم عمران خان نے پی ڈی ایم کی تحریک کے جواب میں کہا کہ انہیں نیب زدہ سیاستدانوں سے کوئی خطرہ نہیں وہ این آر او دے کر زندگی کو آسان اور مسائل کو ختم کر سکتے تھے مگر یہ تباہی کا راستہ ہوتا، اپوزیشن کی مرکزی رہنما مریم نواز کے شوہر کیپٹن ریٹائرڈ صفدر اعوان کو کراچی میں مزار قائد کی بے حرمتی کے پر گرفتار کر کے مقدمہ درج کر لیا گیا جنہیں بعد میں ضمانت پر رہا کردیا گیاجس پر اپوزیشن رہنمائوں میں غم وغصہ پایا جا تا ہے، موجودہ صورتحال میں حکومت کو چاہیے کہ اپوزیشن اور جلسوں سے پیدا ہونے والی صورت حال کو بند گلی میں نہ لے جا ئے سیاسی ہم آہنگی اور پارلیمانی اشتراک عمل کا راستہ ہمیشہ کھلا رہنا چاہیے، اپوزیشن اور حکومت کی لڑائی سے معیشت کمزور ہو سکتی ہے سیاسی اسٹیک ہولڈرز قوم کو باور کرائیں کہ مستقبل جمہوری استحکام سے ہی وابستہ ہے اور ملکی سیاست کو دور اندیشی، عوامی مسائل کے حل کے لیے غیر معمولی افہام و تفہیم اور سیاسی بصیرت کی ضرورت ہے کسی سیاسی تحریک کو طوفان کا پیش خیمہ نہیں ہونا چاہیے ن لیگ کے سربراہ میاں نواز شریف جو اس وقت برطانیہ میں مقیم ہیں کو واپس لانا بھی حکومت کیلئے بڑا چیلنج ہوگا وزیر اعظم انہیں ہر صورت واپس لانے کا اعلان کر چکے ہیں مگر موجودہ حالات ان کے دعوئوں کو تقویت نہیں دیتے غیر ملکی قرضوں میں مسلسل اضافہ ‘ آئی ایم ایف کی پابندیاں تنزلی کا اشارہ دے رہی ہیں، ایسے حالات میں سیاسی پنڈت حکومت کے ساتھ کیسے ڈیل کرتے ہیں یہ آنے والا وقت بتائے گا۔