کورونا... بےروزگاری اور مہنگائی عوام کس حال میں

December 11, 2020

محمد اکرم خان

ایڈیٹر، جنگ فورم، کراچی

کورونا سے قبل بھی پاکستان کی معیشت ڈوب چکی تھی، جی ڈی پی کی شرح نمو منفی رہی،

ڈاکٹر قیصر بنگالی
سوشل سائنٹسٹ/ اکنامسٹ

تمام اہم معاشی شعبوں میں ریکارڈ کمی واقع ہوئی، روپے کی قدر خطرناک حد تک گری، برآمدات میں اضافہ نہیں ہوسکا، حکومتی آمدنی میں اضافہ منفی رہا،کورونا نے صورت حال کو مزید سنگین کیا،حکومت نے کسی سنجیدگی کا مظاہرہ بھی نہیں کیا، صحت کا شعبہ بری طرح ایکسپوز ہوا، یہ سٹے بازوں کی معیشت ہے اور اسی طرز پر چلائی جارہی ہےجس کے سبب منہگائی، غربت اور بے روزگاری میں اضافہ ہورہا ہے،روپے کی قدر میں بے تحاشہ کمی اور شرح سود میں ریکارڈ اضافے نے امیر کو امیر تر بنادیا،کورونا وبا نے یونیورسل انکم کے تصور کو جنم دیا ہے،حکومت نجی شعبے کو کنٹرول کرے جو منافع میں ریاست کو شامل نہیں کرتا لیکن نقصان میں ریاست سے مانگتا ہے

ڈاکٹر قیصر بنگالی

حکومت نے 71 کھرب 37 ارب کے بجٹ میں وفاق کے ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کیا نہ ہی ریٹائرڈ ملازمین کی پیشن میں ،

ناصر منصور
سیکریٹری جنرل ، نیشنل ٹریڈ
یونین فیڈریشن، پاکستان

صوبوں یا وفاقی کے زیر انتظام صنعتی ، مالیاتی اور دیگر اداروں کے ورکرز کی کم از کم اجرت میں بھی کوئی اضافہ نہیں کیا گیا حالاں کہ کرونا کی وجہ سے سب سے زیادہ متاثر یہی محنت کش طبقہ ہوا ہے،حکومتی اعدادوشمار کے مطابق کرونا وبا کے باعث اب تک ساٹھ لاکھ سے زائد محنت کش مکمل یا جزوی طور پر ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں ،بےروزگاروں کی تعداد تقریبا ایک کڑور اسی لاکھ مزدور تک پہنچ چکی ہے . لیکن ان کی مالی معاونت کے لیے صرف 200 ارب رکھے گیے ہیں ،بے حسی کی انتہا ہے کہ حکومت نے صحت جیسے اہم شعبہ کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا ہے،ریاستی سبسڈی کو مکمل بحال کیا جائے

ناصر منصور

نوجوانوں میں بےروزگاری کی شرح آٹھ فی صد کی تشویش ناک حد تک سے بھی زائد ہے،روپے کی قدر میں کمی سے حقیقی اجرتوں میں پچاس فی صد کمی واقع ہوئی ہے ،

زہرہ خان
مرکزی جنرل سیکریٹری ،
ہوم بیسڈ وومن ورکرز فیڈریشن

حکومت نے بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی ایما پر ریاستی سبسڈی واپس لے کر اشیاء خورد نوش ، بجلی ، گیس ، ادویات کی قیمتوں میں سو سے لے کر دو سو فی صد اضافہ کر کے ثابت کر دیا ہے کہ اسے عوام کے مفادات سے کوئی سروکار نہیں۔ آج عام شہری دو وقت کی روٹی سے محروم ہوگیا ہے ،کورونا کے بحران سے نبردآزما ہونے میں حکومت اور ریاستی ڈھانچہ مکمل طور پر ناکام رہا ، عوام کو کسی بھی قسم کا ریلیف دینے کی بجائے دولت مند طبقات کو مراعات فراہم کی گئی۔ اس بحرانی کیفیت میں سب سے زیادہ متاثر غیر منظم شعبہ خصوصا گھر مزدور عورتیں ہوئی ہیں جو مکمل طور پر روزگار سے ہاتھ دھو بیٹھی ہیں

زہرہ خان

کوئی حالت نہیں یہ حالت ہے

یہ تو آشوب ناک صورت ہے

جون ایلیا نے یہ شعر اپنی کسی کیفیت میں کہا ہوگا لیکن ان دنوں یہ کورونا وبا کے سبب ملکی اور عوام کی معاشی صورت حال پر پورا اترتا دکھائی دیتا ہے۔ حکومت فلاحی ریاست کے قیام میں ناکام دکھائی دیتی ہے۔ کورونا سے تحفظ اور اس کے نچلے طبقے پر پڑنے والے معاشی اثرات سے بے خبر بھی نظر آتی ہے۔ کورونا سے قبل بھی معاشی تباہی کے سبب مہنگائی، بے روزگاری عروج پر تھی۔ مجموعی قومی پیداوار میں نمایاں کمی اور صنعتوں میں منفی شرح نمو نے بے روزگاری کا طوفان برپا کیا ہوا ہے۔ زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جو تباہی کا شکار نہ ہو، کورونا نے ایسے حالات میں مسائل کو سنگین صورت حال کی شکل دے دی ہے۔ دو سال قبل افراط زر کی شرح تین فی صد تھی جو اب بڑھ کر چودہ فی صد ہے۔ خطرناک بات یہ ہے کہ خوراک میں یہ شرح سترہ فی صد ہے۔ عوام کی حقیقی آمدنی نصف سے بھی کم ہوچکی ہے جس کے سبب مزید ایک کروڑ سے زائد افراد خط غربت سے نیچے جاچکے ہیں۔ صنعتوں کی بندش، کاروبار کی تباہی نے بے روزگاری میں مزید اضافہ کیا۔ نجی شعبے سے کیا شکایت کی جائے حکومت خود کورونا وبا میں ملازمین کو برطرف کررہی ہے۔ لوگ ایک طرف کورونا سے جاں بحق ہورہے ہیں تو دوسری طرف بھوک انہیں نگل رہی ہے۔ ملک میں کورونا وبا نے معیشت خاص کر غربت، منہگائی اور بے روزگاری پر کیا اثر ڈالا ہے! اشیائے صرف کی قیمتوں کے اثرات کیا ہیں۔ صنعتوں اور کاروبار کی تباہی بے روزگاری کی صورت حال کیسی ہے؟ حکومت کی معاشی پالیسیاں کس تباہی کو جنم دے رہی ہیں! حکومت کی کورونا اور معاشی پالیسی کیا ہونی چاہیے! یہ سب جاننے کے لیے ’’کورونا، غربت، بے روزگاری اور منہگائی، عوام کس حال میں ہیں؟‘‘ کے موضوع پر جنگ فورم کا انعقاد کیا گیا جس میں معروف سوشل سائنٹسٹ اور اکنامسٹ ڈاکٹر قیصر بنگالی، نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن پاکستان کے سیکریٹری جنرل ناصر منصور اور ہوم بیسڈ وومن ورکرز فیڈریشن کی مرکزی جنرل سیکریٹری زہرہ خان نے اظہار خیال کیا۔ فورم کی رپورٹ قارئین کی نذر ہے۔

زہرہ خان

مرکزی جنرل سیکریٹری ،ہوم بیسڈ وومن ورکرز فیڈریشن

ہوم بیسڈ وومن ورکرز فیڈریشن کی مرکزی جنرل سیکرٹری نے کہا کہ حکم رانوں نے ملک کو غیر ملکی مالیاتی اداروں کی غلامی میں دے دیا ہے جس کے نتیجے میں ان اداروں کے ملازمین وائسرائے بن کر عوام دشمن پالیسیوں پر عمل درآمد کروا رہے ہیں۔ ان ناعاقبت اندیش پالیسیوں کے نتیجے میں حقیقی افراط زر کی شرح چودہ فی صد تک پہنچ گئی ہے ، سات فی صد یعنی پونے دو کروڑ کے قریب افراد بے روزگاری کا شکار ہیں۔ جب کہ نوجوانوں میں بےروزگاری کی شرح آٹھ فی صد کی تشویش ناک حد سے بھی زائد ہے۔ اس حکومت کی بدترین معاشی پالیسیوں کے نتیجے میں پاکستان ایک سو تیرہ ارب ڈالر کا مقروض ہو چکا ہے۔ حکومت نے ملک ہی نہیں آنے والی نسلوں کو بھی غیر ملکی آقاؤں کے ہاتھ گروی رکھ دیا ہے۔ ملکی ترقی کے لئے اہمیت کے حامل اداروں کی نجی کاری کی جارہی ہے ، ہزاروں محنت کشوں کو غیرقانونی طور پر جبری برطرف کیا جارہا ہے اس کی بدترین مثال پاکستان اسٹیل ملز کے ساڑھے چار مزدوروں کی بیک جنبش قلم برطرفی ہے ۔ یہی کچھ پی آئی اے اور دیگر اداروں میں کیا جارہا ہے۔

عوام دشمن پالیسیوں اور بڑھتی ہوئی غربت، منہگائی اور بے روزگاری کے خلاف عوام سڑکوں پر

فیکٹریوں ، کارخانوں اور کارگاہوں میں مزدوروں اور ہاریوں کو غلامی کے ماحول میں کام پر مجبور کیا جارہا ہے ۔ حکومتی اعلان کردہ کم از کم اجرت سترہ ہزار پانچ سو ماہانہ نہیں دی جاتی، اجرتوں میں کٹوتی عام ہے، روپے کی قدر میں کمی سے حقیقی اجرتوں میں پچاس فی صد کمی واقع ہوئی ہے ۔ فیکٹری مالکان ورکرز کو سوشل سیکورٹی اور پینشن کے اداروں سے رجسٹرڈ نہیں کرتے ، فیکٹریوں میں بغیر اجرت جبری دو سو گھنٹے ماہانہ اوور ٹائم کرایا جاتا ہے، یونین سازی اور اجتماعی سوداکاری جیسے بنیادی جمہوری حق کو دہشت گردی بنا دیا گیا ہے ، پولیس اور رینجرز فیکٹری مالکان کے غیر قانونی اقدامات کی پشت بانی کرتے ہوئے مزدوروں کو ہراساں کرتے ہیں، فیکٹریوں میں ریٹائرڈ فوجی افسران کی تعیناتی نے عملا صنعتی مارشل لاء نافذ کیا ہوا ہے۔ محنت کش عورتوں سے امتیازی سلوک عام ہے ، انہیں جنسی طور پر ہراساں کرنا عام ہے ۔

عوام کے ووٹوں کی چوری کی مرتکب حکومت نے پچھلے ڈھائی سال ہر وہ عمل کیا ہے جس سے عوام کی زندگیوں میں تلخی کا اضافہ ہوا ہے ۔ حکومت نے بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی ایما پر ریاستی سبسڈی واپس لے کر اشیاء خورد نوش ، بجلی ، گیس ، ادویات کی قیمتوں میں سو سے لے کر دو سو فی صد اضافہ کر کے ثابت کر دیا ہے کہ اسے عوام کے مفادات سے کوئی سروکار نہیں۔ آج عام شہری دو وقت کی روٹی سے محروم ہوگیا ہے ۔ آٹا پینتیس روپے فی کلو سے پچہتر روپے کلو تک جا پہنچا ہے جو حکم رانوں کی بے حسی کا منہ بولتا بوٹ ہے ۔ آج صورت حال یہ ہے کہ کل آبادی کا پینتس فی صد (چھ کروڑ سے زائد افراد )بدترین غربت کا شکار ہے یعنی ہر تیسرا فرد خط افلاس سے نیچے چلا گیا ہے۔ یہ عوام کا معاشی قتل ہے جس کا مقدمہ موجودہ حکم رانوں پر دائر کیا جانا چاہئے۔

کووڈ- نائین ٹین کے بحران سے نبردآزما ہونے میں حکومت اور ریاستی ڈھانچہ مکمل طور پر ناکام رہا ہے۔ عوام کو کسی بھی قسم کا ریلیف دینے کی بجائے دولت مند طبقات کو مراعات فراہم کی گئی۔ اس بحرانی کیفیت میں سب سے زیادہ متاثر غیر منظم شعبہ خصوصا گھر مزدور عورتیں ہوئی ہیں جو مکمل طور پر روزگار سے ہاتھ دھو بیٹھی ہیں۔ یہاں تک کہ ا پنے کئے گئے کام کی اجرتوں سے بھی محروم ہوئیں جو پہلے ہی بہت قلیل تھی۔ حد یہ تھی کہ حکومت کے پاس غیر رسمی شعبے سے وابستہ افراد خصوصا عورتوں کا کوئی ڈیٹا بھی موجود نہیں تھا۔ حکومت نے عوام کو خطرناک جان لیوا وائرس کے سامنے بے یارومدگار چھوڑ دیا۔ ایسے وقت میں جب صحت کی سہولیات عام کرنے کی ضرورت تھی ادویات خصوصا جان بچانے والی ادویات کی قیمتوں میں دو سو فی صد سے زائد اضافہ کر دیا ۔

موجودہ حکومت نہ صرف عوام کے معاشی حقوق پر ڈاکہ ڈال رہی ہے بلکہ وہ ملک کے وفاقی ڈھانچہ کی بنیادوں پر بھی حملہ آور ہے ، پہلے وہ اٹھارویں آئینی ترمیم ختم کرکے صوبوں کو اپنا مطیع بنانا چاہتی تھی اس میں ناکامی کے بعد اب وہ صوبوں کے وسائل اور ساحل پر قبضہ کی سازش رچا رہی ہے۔ اس منصوبہ کے تحت وہ سندھ اور بلوچستان کے جزائر پر قبضہ کرنے کا ارادہ رکھتی۔ یہ نہ صرف وفاقی اکائیوں کے حقوق پر ڈاکہ ہے بل کہ ماحولیاتی و معاشی دہشت گردی بھی ہے ۔ جرائز پر قبضہ سے ساحلی علاقے سمندری طوفانوں کی زد ہونگے اور لاکھوں ماہی گیر اپنے روزگار کے تاریخی ذرائع سے یکسر محروم ہو جائیں گے ۔

اس دگرگوں صورت حال میں محنت کش طبقے کے لئے ضروری ہوگیا ہے کہ موجودہ حکومت کے خلاف فیصلہ کن معرکہ کا آغاز کیا جائے۔ بدقسمتی سے موجودہ حکومت کے خلاف متحرک اپوزیشن بھی محنت کشوں کے لئے ٹھوس لائحہ عمل کے اعلان میں ناکام رہی ہے ۔ اس ملک کو موجودہ بحران سے نکالنے کے لئے ضروری ہے کہ آئی ایم ایف کی پالیسیوں سے برات کا اعلان کیا جائے ، صوبوں کے آئینی حقوق تسلیم کرتے ہوئے ان کے ساحل اور وسائل پر ان کی حاکمیت کو تسلیم کیا جائے ۔ اشیاء خورد و نوش ، بجلی ، گیس اور ادویات کی قیمتوں میں پچاس فی صد کمی کی جائے ۔ کارگاہوں میں لیبر قوانین پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے، نجی کاری کے عمل کو روکا جائے اور جبری برطرفیاں ختم کی جائیں، ریاستی سبسڈی بحال کی جائے، تمام شہریوں کو یونیورسل سوشل سیکورٹی ، پینشن کے اداروں سے رجسٹرڈ کیا جائے اور بےروزگاری الاؤنس دیا جائے۔عورتوں کے خلاف تمام امتیازی قوانین منسوخ کئے جائیں اور کام کہ جگہوں کو ہر قسم کی ہراسگی سے محفوظ کیا جائے۔ حکومت کو ملک میں موجود مزدوروں خاص طور پر خواتین مزدور اور غیر رسمی شعبے سے وابستہ مزدوروں کا ڈیٹا جمع کرے تاکہ ان کے لیے حقیقی بنیادوں پر کام کیا جا سکے۔ مر د اور عورت کی اجرتوں میں تفاوت ختم کیا جائے ۔

ناصر منصور

سیکریٹری جنرل ، نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن، پاکستان

نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن پاکستان( NTUF) کے سیکریٹری جنرل ناصر منصور کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت نے کرونا کی آڑ میں آئی ایم ایف کا عوام دشمن معاشی ایجنڈہ ملک پر مسلط کر دیا ہے. یآئی ایم ایف کا ایجنڈا ، آئی ایم ایف کے نمائندوں کی جانب سے، آئی ایم ایف کے مفادات کے تحفظ لیے ہے. یہ معاشی جبر کا شکار عوام پر ناقابلِ برداشت بوجھ ڈالنے کو نسخہ ہے جسے پاکستان کے عوام خصوصاً محنت کش طبقہ نے مکمل طور پر مسترد کردیا ہے۔

حکومت نے 71 کھرب 37 ارب کے بجٹ میں نہ تو وفاق کے ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کیا گیا ، نہ ہی ریٹائرڈ ملازمین کی پیشن میں اضافہ کیا گیا ہے اور نہ ہی جب صوبوں یا وفاقی کے زیر انتظام صنعتی ، مالیاتی اور دیگر اداروں کے ورکرز کی کم از کم اجرت میں بھی کوئی اضافہ نہیں کیا گیا حالاں کہ کرونا کی وجہ سے سب سے زیادہ متاثر یہی محنت کش طبقہ ہوا ہے. لیکن اسی اثنا میں نیب، ایف آئی اے، عدالتی اسٹاف اور نیا پاکستان ہاؤسنگ اسکیم کے اہل کاروں کی تن خواہوں میں ہوش ربا اضافہ کیا گیا ہے. بجٹ میں پیش کردہ عوام دشمن اقدامات ایک طرح سے صوبائی حکومتوں کو بھی راہ دیکھا رہے ہیں وہ بھی اسی طرح عوام دشمن اقدامات کو یقینی بنائیں۔

حکومت نے اپنی غریب دشمن پالیسی کے تحت ریاستی سبسڈی کے مد میں پچھلے سال کی نسبت اڑتالیس فی صد کمی کی گئی، جو کہ 350 ارب سے کم کر کے 180 ارب کر دی گئی ہے اس کا براہ راست مطلب یہ ہے کہ یہ رقم عوام کی جیبوں سے چرائی جائے گی۔ جبکہ وفاقی ترقیاتی بجٹ بھِی پچھلے سال کے 950 ارب سے کم کرکے 650 بلین کر دیا گیا ہے۔ جب کہ صوبوں کے ترقیاتی اخراجات بھی 912 ارب سے کم کر کے 674 ارب روپے کر دیے ہیں۔

حکومتی اعدادوشمار کے مطابق کرونا وبا کے باعث اب تک ساٹھ لاکھ سے زائد محنت کش مکمل یا جزوی طور پر ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں جب کہ ایک اندازہ کے مطابق بےروزگاروں کی تعداد تقریبا ایک کڑور اسی لاکھ مزدور تک پہنچ چکی ہے . لیکن ان کی مالی معاونت کے لیے صرف 200 ارب رکھے گیے ہیں جو کروڑوں محنت کش گھرانوں کے ساتھ بھیانک مذاق ہے۔

حکومت ایک طرف یہ کہہ رہی ہے کہ وہ عوام کو ریلیف دینا چاہتی ہے لیکن اصل میں اس نے رواں مالی سال میں 6.57 ٹریلین روینیو جمع کرنے کا ہدف مقرر کر کے مہنگائی کے جن کو بوتل سے باہر نکال دیا ہے ۔ آئی ایم ایف کے تیار کردہ معاشی پالیسیوں نے زندگی کے کسی شعبہ کو بھی نہیں بخشا، ایسے وقت میں جب پوری دنیا میں تیل اور ماِئع گیس کی قیمتوں میں کمی واقع ہوئی ہے تو حکومت کو تو چاہِے تھا کہ وہ ملکی ایکسپورٹ اور ملکی صنعتی پیداوار بڑھانے کے لیے گیس اور بجلی کے نرخوں میں کمی کرتی. حکومت نے اس کے برعکس انرجی پر دی جانے والی 24 ارب روپے کی ریاستی سبسڈی کم کر کے 10 ارب روپےکر دی ہے. اس کا نتیجہ صنعتی شعبہ خصوصا ٹیکسٹائل اور گارمنٹ کی مکمل تباہی کی صورت نمودار ہوگا جو کہ بے روزگاروں کی نئی فوج وجود میں لائے گا۔

ملک کی لیبر فورس جو کہ 6 کروڑ اسی لاکھ کے قریب ہے، کا 75 فی صد حصہ ٹیکسٹائل، گارمنٹ، چمڑہ، کھیلوں کا سامان، سرجیکل اور قالین بافی کی صنعت سے وابستہ ہے اور یہی پانچ شعبے غیر ملکی زرِ مبادلہ کے حصول کا بڑا ذریعہ ہیں. ان شعبوں کی ترقی کے لیے موجود " زیرو ریٹنگ" کے نظام کو بھی پچھلے برس ختم کر کے ملکی معشیت کی ریڑھ کی ھڈی میں خنجر گھونپا گیا ہے . امید کی جا رہی تھی کہ موجودہ بحرانی کیفیت میں یہ نظام بحال کیا جائے گا لیکن ایسا نہ کر کے مزدوروں کے روزگار اور ایکسپورٹ کی صنعت کو مزید خطرے میں ڈال دیا ہے. ان ترقی دشمن اقدامات کے نتیجے میں نہ صرف اشد ضروری غِیر ملکی زرمبادلہ میں کمی واقع ہو رہی ہے بلکہ کروڑوں محنت کش بے روزگار کے دلدل میں پھنسے جارہے ہیں جو مزید معاشی، سماجی اور سیاسی ابتری کو جنم دے چکی ہے۔

وفاقی حکومت کی ناعاقبت اندیش پالیسی کی وجہ سے کرونا وائرس نے 22 کروڑ سے زائد انسانوں کو بٌری طرف اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، اس کے پاس اس عفریت سے نبردآزما ہونے کے لئے کوئی ٹھوس لائحہ عمل نہیں لیکن اس جان لیوا وائرس کو اقتدار بچانے کے لئے استعمال کیا جارہا ہے۔ عوام کو وبا سے بچانے کے لیے داکٹرز، نرسز ، پیرا میڈیکل اسٹاف فرنٹ لائن زندگی محافظ بن کر کھڑے ہوگئے، اپنی قیمتی جانیں کھو رہے لیکن حکومت نے انہیں بے یارو مددگار چھوڑ دیا ہے۔

بے حسی کی انتہا ہے کہ حکومت نے صحت جیسے اہم شعبہ کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا ہے. جبکہ ضروری یہ تھا کہ صحت سے متعلق افرادی قوت کو بڑھانے، مراعات دینے اور صحت کےشعبے کو سب سے زیادہ ترجیح دی جاتی اور خطیر رقم صحت کی سہولیات جنگی بنیادوں پر عوام تک پہنچانے کے منصوبوں کے لیے مختص کی جاتی. شرم کا مقام ہے کہ صحت کے شعبہ کے لیے صرف 20 ارب مختص کیے گیے اور زرعی شعبہ کی ترقی کے لیے 12 ارب رکھے گئے جب کہ حکومت نے غیر پیداواری اخراجات خصوصا دفاع کے لیے بارہ فی صد اضافہ کے ساتھ بارہ کھرب نوے ارب روپے مختص کر کے اپنی ترجیحات کا ایک بار پھر واضح اعلان کر دیا ہے۔

حکومت ایک جانب شہریوں کے روزگار اور دیہاڑی دار محنت کشوں کے دکھ میں مگر مچھ کے آنسو بہا رہی ہے تو دوسری جانب کرونا کی آڑ میں 43 پبلک سیکٹرز کے اداروں کی نج کاری، 8 اداروں کو مکمل طور پر بند کرنے، 34 اداروں کو ضم کرنے کے خطرناک منصوبے کے ذریعے لاکھوں محنت کشوں کو بے روزگار کرنے کی سازش کر رہی ہے. جس کی ابتدا اسٹیل ملز کے 4544 ملازمین کی جبری برطرفی کی شکل میں ہو چکی ہے۔

عالمی سطح پر غیر ملکی قرضہ جات موخر کئے جانے کے اعلان کےباوجود نئے بجٹ میں 2.94 ٹریلین روپے ان قرضوں کی ادائیگیوں کے لیے رکھنا سمجھ سے بالا ہے. یہ رقم عوامی بہبود کے منصوبوں ترقیاتی، صحت کی سہولیات مہیا کرنے اور بےروزگاری الاؤنس کی مد میں رکھی جا سکتی تھی۔

موجودہ معاشی بحرانی کے حل کے لئے ضروری ہے کہ تمام سرکاری و پرائیویٹ سیکٹر کے ملازمین کی تنخواہوں اور ریٹائرڈ ملازمین کی پینشن میں مہنگائی کے تناسب سے اضافہ کیا جائے۔ صحت، تعلیم اور عوامی بہبود کی ترقی کے لیے مختص رقم کو دفاعی اخراجات کے مساوی کیا جائے۔ تمام شہریوں کو سوشل سیکورٹی اور پینشن کی اسکیم کے تحت رجسٹر کیا جائے ۔ غیر ملکی قرضہ جات سے انکار اور اس رقم کو عوام کی ترقی پر خرچ کیا جائے۔ نج کاری کا عمل فی الفور روکا جائے۔ اسٹیل ملز سمیت تمام سرکاری و نجی اداروں کے برطرف ملازمین کو فی الفور بحال کیا جائے۔ ریاستی سبسڈی کو مکمل بحال کیا جائے تاکہ بڑھتی ہوئی غربت کو روکا جا سکے۔ اشیا خوردونوش پر سیلز ٹیکس کا خاتمہ جائے اور ادویات کی قیمتوں میں پچاس فی صد تک کمی شامل ہیں۔

ڈاکٹر قیصر بنگالی

سوشل سائنٹسٹ/ اکنامسٹ

ڈاکٹر قیصر بنگالی سندھ اور بلوچستان حکومتوں کے معاشی مشیر رہ چکے ہیں۔ نیشنل فنانس کمیشن میں بلوچستان کی جانب سے رکن بھی ہیں۔ اس سے قبل وہ سندھ اور بلوچستان کی نمائندگی کرچکے ہیں۔ کورونا وباء ، غربت ، بے روزگاری اور مہنگائی کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ یہ کہنا درست نہیں کہ کورونا نے ہماری ملکی معیشت کو تباہ و برباد کیا ہے، موجودہ مہنگائی، غربت اور بے روزگاری کی صورت حال کورونا وباء کے سبب سنگین ہوئی ہے۔ کورونا سے قبل بھی پاکستان کی معیشت ڈوب چکی تھی۔ جس کے سبب افراطِ زر پندرہ فی صد پر تھا اورخوراک میں یہ شرح بیس فی صد سے زائد تھی۔ گزشتہ مالی برس میں جی ڈی پی کی شرح نمو میں ریکارڈ کمی واقع ہوئی تھی اور پھر تحریک انصاف کی حکومت کے دوسرے سال میں یہ شرح منفی زون میں چلی گئی۔ اہم شعبوں میں شرح نمو منفی چھ تک گئی۔ زراعت، سروسز سمیت تمام اہم شعبوں میں شرح نمو میں ریکارڈ کمی واقع ہوئی۔

برآمدات میں اضافہ نہیں ہو سکا، روپے کی قدر میں خطرناک کمی واقع ہوئی۔ حکومتی وسائل میں تاریخ میں پہلی بار منفی اٗضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ گزشتہ مالی برس میں ایف بی آر کی انکم کا ہدف حاصل نہ ہو سکا۔ جب اہداف میں دو مرتبہ کمی بھی کی گئی۔ ترقیاتی اخراجات میں نمایاں کمی کی گئی اور مزید ناکامی یہ کہ اس کے استعمال کی صلاحیت نہ ہونے کے سبب وہ خرچ بھی نہ کیا جا سکا۔ بجٹ خسارہ تاریخ کی بلند ترین سطح پر رہا۔ گزشتہ مالی برس میں دس فیصد کے برابر رہا۔

جو معیشت کی بدترین کارکردگی کو نمایاں کرکے بتا رہا ہے۔ ان حالات میں کورونا وباء نے جنم لیا۔ جس نے صورتحال کی سنگینی کو مہمیز کیا اور وہ مکمل طور پر ڈوب گئی۔ بیروزگاری کی شرح میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آیا۔ مہنگائی نے اپنا عروج لیا خاص کر خوراک کی اشیاء میں یہ ستائیس فی صد تک دیکھا گیا۔ جس کے سبب عوام کی حقیقی آمدنی میں بہت کمی ہوئی قوت خرید میں کمی سے غربت نے جنم لیا اور پیداوار میں کمی ہوتی گئی۔ زرعی شعبے کی غیر مؤثر پالیسی کے سبب کپاس، گندم اور گنا کی پیداوار میں ریکارڈ کمی واقع ہوئی۔ جس کے سبب آٹے اور چینی کی قیمتیں آسمان پر پہنچ گئیں اور گندم اور چینی کو امپورٹ کرنا پڑ رہا ہے۔ جبکہ ٹیکسٹائل انڈسٹری کو چلانے کے لئے کپاس امپورٹ کی جا رہی ہے۔

کورونا وباء پر حکومت نے سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ عوام اور ان کے کاروبار کے تحفظ کی کوئی حکمت عملی اختیار نہیں کی گئی۔ صحت کا شعبہ بھی بری طرح ایکسپوز ہوا۔ صحت کی سہو لتوںکی عدم فراہمی نے کورونا وباء سے اموات میں اضافہ کیا۔ کورونا کے بعد بھی ہم صحت عامہ کے انفرا اسٹرکچر کو بہتر نہ بنا سکے یوں لگتا ہے کہ حکومت نے طے کر رکھا ہے کہ عوام کی صحت اور تعلیم پر خرچ ہی نہیں کرنا۔

گزشتہ چالیس برسوں کی معاشی پالیسیوں اور چلنے والی معیشت کا جائزہ لیا جائے تو ہم کہنے پر مجبور ہوئے ہیں کہ یہ سٹے بازوں کی معیشت ہے اور اسی طرز پر چلائی جا رہی ہے۔ اسٹاک اور رئیل اسٹیٹ سے وابستہ افراد کیلئے پالیسی استوار کی جاتی ہے۔ ان کے کاروبار کو تحفظ دیا جاتا ہے۔ وہ مال بنانےمیں آزاد ہیں جبکہ کارخانے بند، نوکریاں ختم ہو رہی ہیں۔ کارخانے لگیں گے تو روزگار کے ذرائع پیدا ہوں گے لیکن یہاں تو کارخانوں کے لئے صنعت شکن پالیسی اختیار کی جاتی رہی ہے۔ اس نظام کے سبب ہی مہنگائی، بے روزگاری اور غربت میں اضافہ ہو رہا ہے اور ملک معاشی مسائل کی دلدل میں مزید سے مزید دھنستا جا رہا ہے۔

پاکستان میں اپنائے گئے معاشی نظام نے چند خاندانوں نے پیسے بنائے ہیں اور یہ نظام جاری و ساری ہے۔ پیسہ بنائو کی اس پالیسی سے اب غیر ملکیوں سے بھی فائدہ اٹھانا شروع کر دیا ہے۔ پاکستان میں گزشتہ برس شرح سود سوا تیرہ فی صد تھی اس وقت امریکا میں سود کی شرح پونے دو فی صد تھا۔ جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کیسے غیر ملکیوں کو پیسے بنانے کے مواقع فراہم کئے گئے۔ پھر روپے کی قدر میں بے تحاشا کمی نے بھی ڈالر میں کمانے والوں کو راتوں رات امیر ترین بنا دیا ہے۔ اس تمام دور میں عوام کی فلاح و بہبود، زندگی کو آسان بنانے، تعلیم و صحت اور روزگار کا کچھ خیال نہیں کیا گیا۔

کس قسم کی کوئی منصوبہ بندی سامنے نہیں آئی۔ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ عوام کے معیارِ زندگی کو بہتر بنانا ریاست کا مقصد ہے نہ ذمہ داری، حکومت کی آمدنی کا صرف تین فی صد غریب ترین دس فی صد آبادی پر خرچ کیا جاتا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں 37 فیصد امیر ترین دس فی صد افراد پرخرچ کیا جانا ہے۔ اس سے ریاست کی ترجیحات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اگر شرح ترقی میں اضافہ بھی کیا ہوا تو عوام تک صرف نمبرز تک کی خوشخبری پہنچتی ہے۔ اس ترقی میں ان کو کوئی حصہ نہیں ملتا۔ یہ درست ہے کہ نظام کی تبدیلی کے بنا عوام کے حالات بہتر نہیں ہوں گے۔

کورونا پر حکومت نے عوام کیلئے تحفظ کے اقدامات کئےنہ ہی کے کاروبار کو بچایا لاک ڈائون کے سبب عوام کی آمدنی میں کمی واقع ہوئی۔ کاروبار بند ہوا۔ بڑی تعداد میں لوگ بےروزگار ہوئے لیکن حکومت کسی قسم کی منصوبہ بندی میں ناکام رہی کہ انہیں ریلیف مہیا کرے۔

کورونا سے شادی ہالوں اور ریستورانوں کی بندش سے ہی تین سو اقسام کے کاروبار سے وابستہ افراد متائر ہوئے۔ حکومت نے ان کے ریلیف کے لئے کوئی کام نہیں کیا۔ ڈیلی ویجز سے وابستہ افراد بھوک کا شکار ہو گئے۔ اگر سوشل سیکورٹی کا کوئی نظام ہوتا یا تشکیل دیا جاتا تو ایسے افراد کو فائدہ دیا جا سکتا تھا۔

کورونا وباء سے یونیورسل انکم کےتصور نے جنم لیا ہے وہ یہ کہ حکومت سب کو تنخواہ دے۔ اس نظام سے صدر بھی تنخواہ لے گا اور مزدور بھی۔ یہ ریاست کی ذمہ داری ہےکہ صرف بیروزگار افراد کو ہی نہیں ہر ضرورت مند کو مالی امداد فراہم کرے۔ اس مقصد کے لئے امیر ترین طبقے سے اضافی ٹیکس وصول کیا جائے۔ تین ہزار ٹیکس دینے والا اضافی ایک ہزار ٹیکس دے گا جو ضرورت مندوں میں امداد کی صورت میں پہنچے گا۔ مارکیٹ اکانومی ، گلوبلائزیشن ناکام ثابت ہو گیا ہے یہ عوام کی فلاح کا نظام نہیں ہے۔

ہماری معیشتوں کو اسی ڈگر پر ڈال دیا گیا ہےکہ بنائو نہیں امپورٹ کر لو۔ پیسے نہیں ہیں تو قرض لے لو۔ یہ تباہی کا راستہ ہے۔ جس میں نجی شعبہ بحران میں سپورٹ مانگتا ہے۔ بیل آئوٹ پیکیج دیا جاتا ہے۔ منافع میں ریاست کو شامل نہیں کرتا لیکن نقصان میں ریاست سے مانگتا ہے۔ یہ درست نہیں ریاست نجی شعبہ کو کنٹرول کرے، روزگار، تعلیم، صحت ریاست کی ذمہ داری ہے۔