تُم مجھے ڈرا نہ پاؤ گے (دوسری اور آخری قسط)

December 19, 2020

2020 میں عورتوں کو کیا چیلنجز درپیش رہے اور کیا کامیابیاں حاصل ہوئیں۔اس بارے میں نیشنل کمیشن برائے وقار نسواںکی سابق چیئر پرسن اور ممتازایکٹوسٹ انیس ہارون کا کہنا ہے کہ ’’یہ سال تو ’جان بچی سو لاکھوں پائے‘ کے مصداق بقا کی جدوجہد کا سال تھا۔اتنے اچھے دوست بچھڑ گئے۔ عورتوں پر تشدد میں اضافہ ہوا۔ اس کی وجہ مہنگائی، بے روز گاری اور لاک ڈائون کی وجہ سے گھروں میں بند ہو جانے والے مردوں نے اپنا غصہ عورتوں پر ہی نکالنا تھا۔بس سندھ میں ایک کامیابی حاصل ہوئی کی عورتوں کے لئے تولیدی صحت کا قانون بن گیا۔‘‘

2020میں کرونا کی وبا نے گھروں میں بیٹھ کر کام کرنے والی عورتوں (جنہیں ہوم بیسڈ ورکر کہا جاتا ہے )کو بھی متاثر کیا۔پاکستان کے بیس ملین ہوم بیسڈ ورکرز میں بارہ ملین عورتیں ہیں جو پاکستان کی معیشت میں خاطر خواہ حصہ ڈالتی ہیں۔انہیں سوشل سیکورٹی فراہم کرنا ضروری ہے۔

قومی کمیشن برائے وقار نسواں کی موجودہ چیئر پرسن خاور ممتاز نے یو این ویمن کے تعاون سے 2020ءمیں پاکستان کی نوجوان لڑکیوں کی صورتحال کے بارے میں رپورٹ شائع کی ۔ اس رپورٹ کے مطابق پندرہ سے چوبیس سال کی نوجوان لڑکیوں میں سے اڑتالیس فی صدجب کہ لڑکوں میں سے سات فی صد تعلیم، روزگاریا تربیت حاصل نہیں کر پاتے۔نوجوان لڑکیوں میں خواہ شادی شدہ ہوں یا غیر شادی شدہ میں سے صرف تین فی صد زرعی زمین کی مالک ہیں اور صرف دو فی صد لڑکیوں کا اپنا مکان ہے۔

جہاں تک فیصلہ سازی اور خود مختاری کا تعلق ہے، چوبیس فی صد لڑکیاں اپنی تعلیم اور ملازمت کے بارے میں خود فیصلہ کرتی ہیں۔صرف ایک فی صد لڑکیاں اپنی شادی کا فیصلہ خود کرتی ہیں۔سولہ فی صد لڑکیوں سے گھر والے شادی کے بارے میں مشاورت کرتے ہیں۔ایک چوتھائی لڑکیوں کو اپنا علاج کروانے کے لئے اجازت لینا پڑتی ہے۔جب کہ 71 فی صد لڑکیاں اکیلے کلینک یا ہسپتال نہیں جانا چاہتیں۔ایک تہائی سے کم لڑکیاں خوراک اور کپڑوں کی خریداری خود کر سکتی ہیں۔انچاس فی صد شادی شدہ ملازمت پیشہ خواتین کی آمدنی پر گھر والوں کا کنٹرول ہوتا ہے۔

جب کہ صرف نو فی صد عورتوں کو اپنے شوہر کی کمائی کے بارے میں کوئی مشورہ دینے کا حق ملتا ہے۔29فی صد نوجوان شادی شدہ لڑکیوں کو شوہروں کی پابندیوں اور روک ٹوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔جب کہ 44فی نوجوان شادی شدہ جوڑوں کی رائے میں بیویوں کی مار پیٹ میں کوئی حرج نہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق 2020ءمیں پندرہ فی صد لڑکیوں کوغیر مردوں کے ہاتھوں جسمانی تشدد اور چار فی صد کو جنسی تشدد کا سامنا کرنا پڑاجب کہ چودہ فی صد خواتین کو شوہروں کے ہاتھوں جسمانی تشدد اورچار فی صد کو جنسی تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔

تشدد کا شکار ہونے والی صرف 23فی صد خواتین نے مدد طلب کی جب کہ سولہ فی صد نے صرف اپنی قریبی سہیلیوں اور گھر والوں کو بتایا،مگر کسی سے مدد نہیں مانگی۔متاثرہ خواتین میں سے صرف تین فی صد نے پولیس، وکیل یا کسی ادارے سے رابطہ کیا۔

رپورٹ سے پتا چلتا ہے کہ کم عمری کی شادیوں کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے۔اٹھائیس فی صد پاکستانی لڑکیوں کی شادی اٹھارہ سال کی عمر سے پہلے ہی کر دی جاتی ہے اور سولہ فی صد لڑکیاں اٹھارہ سال کی ہونے سے پہلے ہی مائیں بن جاتی ہیں۔جہاں تک عورتوں کے کام کا تعلق ہے، صرف چھ فی صد زراعت کے شعبے میں اور نو فی صد غیر زراعتی شعبے میں خاندان کے حصے کے طور پر کام کرتی ہیں۔

بتیس فی صد خواتین با معاوضہ کام کرتی ہیں جب کہ باون فی صد لڑکیاں بلا معاوضہ کام کرتی ہیں۔اکسٹھ فی صد لڑکیاں زرعی فارسٹری اور ماہی گیری کا کام کرتی ہیں۔اکیس فی صد لڑکیاں مینو فیکچرنگ انڈسٹری میں کام کرتی ہیں اور سولہ فی صد سروسز کے شعبے میں کام کرتی ہیں۔اور یہ سب لڑکیاں دہری، تہری ذمہ داری کا بوجھ اٹھاتی ہیں۔

یہ بات تو طے ہے کہ جب تک ہم اپنی عورتوں کو مساوی حقوق اور خود مختاری نہیں دیں گے، پاکستان ترقی نہیں کر سکتا لیکن اس پدر سری معاشرے میں عدم مساوات اور عورتوں پر ہونے والے تشدد کے خلاف بات کرنا آسان نہیں۔ 2020 میں جب عورتوں کے عالمی دن پر عورتیں سڑکوں پر نکلیں تو بہت سے لوگ ان کے نعروں سے ناراض ہو گئے۔

لیکن اس کے بعد جب لڑکیوں اور بچیوں کے ریپ اور قتل کے خوفناک واقعات سامنے آئے تو ناقدین کو احساس ہواکہ عورت جب ’’میرا جسم، میری مرضی‘‘ کا نعرہ لگاتی ہے تواس سے اس کی مراد یہی ہوتی ہے کہ کسی کو اس کے جسم کو پامال کرنے کا حق نہیں ہے۔عورت کے جسم کو اس کی مرضی کے بغیر کوئی ہاتھ نہیں لگا سکتا۔

جہاں عورتوں نے 2020ءمیں اپنی ترقی کا سفر جاری رکھا، وہیں کرونا کی وبا نے معاشرے کے ہر حصے خاص طور پر عورتوں کو بے حد متاثر بھی کیا۔صحت سے لے کر گھریلو زندگی تک، روزگار سے لے کر عالمی معیشت تک،کوئی شعبہ اس وبا سے نہیں بچا۔اس وبا اور اس کی روک تھام کے لئے کئے جانے والے اقدامات نے معاشرے کو عورت کی اہمیت اور اتنے عرصے سے اس کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا احساس بھی دلایا۔

اس بیماری کے خلاف جنگ میں اگلی صفوں میں عورتیں کھڑی تھیں، خواہ وہ ہیلتھ پروفشنلز ہوں، رضاکار خواتین ہوں،یا دیگر سہولتیں فراہم کرنے والی ہوں۔گھروں میں بیماروں کی دیکھ بھال اور گھریلو ذمہ داریوں میں بے پناہ اضافہ ہوا، جنسی اور تولیدی سہولتوں تک رسائی کم ہو گئی اور گھریلو تشدد کا خطرہ بڑھ گیا۔

آج کل دنیا بھر میں آن لائن تعلیم ایک معمول کی بات بن گئی ہے اور لاک ڈائون میں اسکول بند ہو جانے کے بعد طلبہ آن لائن کلاسز لیتے ہیں ،مگر پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں ہر ایک کو یہ سہولت حاصل نہیں ہے،خاص طور پر غریب گھرانوں کی لڑکیوں کی تعلیم متاثر ہوئی ہے۔

یو این ویمن کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر کا کہنا ہے کہ اگرچہ اس وبا نے دنیا بھر میں انتشار پھیلا دیا ہے۔ لیکن اس خرابی میں بھی تشکیل نو، تصور نو اور ایک بہتر دنیا بنانے کا امکان موجود ہے۔بہر حال اس وقت تو صورتحال یہ ہے کہ اس وبا سے عورتوں کا کام اور آمدنی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ویسے بھی عام طور پر عورتیں مردوں سے کم کماتی ہیں ۔اس وبا کی وجہ سے اقتصادی سرگرمیاں بند ہو گئی تھیں اور غیر رسمی شعبے میں کام کرنے والی عورتوں کے لئے کام کے مواقع بہت کم ہو گئے تھے۔

اس وبا سے پہلے بھی عورتوں کو محض عورت ہونے کی وجہ سے بہت سے مسائل کا سامنا تھا، مثال کے طور پر ابھی بھی عورتوں کے ماہانہ ایام کے بارے میں بات کرنا معیوب سمجھا جاتاہے اور حیض کے حوالے سے عورتوں کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ غریب عورتوں کے پاس پیڈز خریدنے کے پیسے نہیں ہوتے، باہر جاتی ہیں تو ان کے لئے بیت ا لخلا نہیں ہوتے۔ رواجوں اور امتیازی قوانین کی وجہ سے عام حالات میں بھی اورقدرتی آفات کے دوران عورتوں کو ماہواری یا حاملہ ہونے کی وجہ سے مزید مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

کملا ہیرس، امریکا کی نائب صدر

اب مسائل سے ہٹ کر کچھ کامیابیوں کی بھی بات کرتے ہیں۔جنوبی ایشیا میں تو بہت پہلے عورتیں وزیراعظم یا صدر کے عہدے پر فائز رہ چکی ہیں، مگر 2020ء میں پہلی مرتبہ امریکا میں ایک عورت نائب صدر منتخب ہوئی اور حسن اتفاق دیکھئے کہ اس کا تعلق جنوبی ایشیا سے ہے۔ کملا ہیرس نے جیتنے کے بعد ساری امریکی عورتوں، خاص طور پر سیاہ فام عورتوں کو خراج تحسین پیش کیا جن کی بدولت وہ دو صدیوں کی سفید فام مردوں کی برتری کو ختم کرنے میں کامیاب ہوئیں۔

جہاں تک پاکستانی خواتین کا تعلق ہے، خواہ چھوٹے پیمانے پر ہی سہی، انہوں نے بھی اس سال کچھ کامیابیاں ضرور حاصل کی ہیں۔ اگر ہم آغا خان رورل سپورٹ پروگرام کی بات کریں تو اسکردو گلگت ،بلتستان کے ایک چھوٹے سے گائوں میں ایک ستائیس سالہ بیوہ روبینہ کوثر نے اپنے خاندان کی کفالت کے لئے ایک ایسا پیشہ اپنایا جو شاید ہی کسی اور پاکستانی عورت نے اپنایا ہو، وہ ایک الیکٹریشن ہے۔وہ دو بچوں کی ماں ہے، چار سال قبل اس کے شوہر کا کینسر سے انتقال ہو گیا تھا۔

اسے بچپن سے بجلی کے کاموں سے دلچسپی تھی۔ اس نے ایک ٹریننگ پروگرام میں اپنا نام درج کرایا۔ دو ماہ کا کورس مکمل کرنے کے بعد اس نے بجلی کے آلات اور بجلی کے تاروں کے سسٹمز کی مرمت کی دکان کھول لی۔اس کے علاوہ وہ گھر سے بھی بجلی کے سامان کی دکان چلاتی ہیں۔ ان کی ماہانہ اوسط آمدنی تیس ہزار روپے ہے۔شروع میں گائوں کے لوگ اسے یہ کام کرتے دیکھ کر بہت حیران ہوتے تھے، مگر اب عورتیں زیادہ تعداد میں ان کی دکان پر آتی ہیں اب بہت سی عورتیں غیر روائتی پیشے اپنانے کے بارے میں سوچ رہی ہیں اور مردوں کو اس پر کوئی اعتراض نہیں۔

ایک کہانی ڈاکٹر پروین اعظم کی ہے جو پاکستان کے لوگوں کو منشیات کی لت سے نجات دلانے کی جدو جہد کر رہی ہیں۔ لوگ انہیں پاکستان کی مدر ٹریسا کہتے ہیں۔وہ پاکستان پرائمری ہیلتھ کئیر انیشیٹو، پاکستان چائلڈ پروٹیکشن ویلفئیر کمیشن کی رکن ہیں اور جیل خانوں کی اصلاحات کے لئے بھی کام کرتی ہیں۔

وہ اپنے آپ کو ایک مشنری ڈاکٹر کہتی ہیں۔ان کے والد کی خواہش تھی کہ وہ ڈاکٹر بن کے غریبوں کی خدمت کریں۔1992ءمیں جب پشاور کی سڑکوں پر نشے کے عادی افراد اچانک نظر آنا بند ہو گئے تو ڈاکٹر پروین نے ان کا پتہ لگانے کی کوشش کی، معلوم ہوا پولیس انہیں گرفتار کر کے یا تو جیل میں ڈال دیتی ہے یا شہر سے باہر چھوڑ آتی ہے۔

چناں چہ منشیات کے عادی افرادکارخانہ مارکیٹ یا اسمگلرز مارکیٹ میں جمع ہونے لگے جو پولیس کی حدود سے باہر تھی۔وہاں ایک احاطے میں ڈاکٹر پروین کو تین سو نشئی افراد ملے جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل تھے، وہاں کچھ لاشیں بھی پڑی ہوئی تھیں۔ڈاکٹر پروین کو شدت سے احساس ہوا کہ انہیں ان لوگوں کی مدد کرنی چاہئیے ،تا کہ وہ عزت سے زندگی گزار سکیں۔

ڈاکٹر پروین اعظم خان

انہوں نے اپنی ٹیم کے ساتھ مل کے ایک ٹرسٹ بنایا اور ان لوگوں کاعلاج شروع کر دیا۔ ابتدا میں انہیں ڈرگ مافیا کی دھمکیوں اور سازشوں کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ 2020 میں ان کے ٹرسٹ نے اپنی تئیسویں سالگرہ منائی۔ ڈاکٹر پروین کا انسانیت کی خدمت کا جذبہ آج بھی جوان ہے۔ہماری دعا ہے کہ ان کا ٹرسٹ آنے والے سالوں میں بھی اسی طرح انسانیت کی خدمت کرتا رہے۔

پاکستان کی نوجوان لڑکیاں بہتر ملازمتوں کی تلاش میں ڈیجٹل ٹیکنالوجی سیکھ رہی ہیں۔ اورنگی ٹائون میں رہنے والی بائیس سالہ کائنات ناز محلے کے ایک اسکول میں پڑھاتی تھی، مگر وہ اپنی ملازمت سے مطمئن نہیں تھی چنانچہ اس نے ایک سماجی تنظیم ’’سرکل‘ ‘جو پاکستانی عورتوں کے انسانی حقوق کے لئے کام کرتی ہے کے ٹیکنیکل پروگرام میں داخلہ لیا۔اور اب وہ ایک سافٹ وئیر کمپنی میں ملازمت کر رہی ہے۔

ورلڈ بینک کے مطابق پاکستان کی لیبر فورس میں عورتوں کی تعداد پچیس فی صد ہے جو اس خطے میں سب سے کم ہے۔ورلڈ بینک کا ہدف اسے پنتالیس فی صد تک لے جانے کا ہے۔اس کے لئے بچوں کی دیکھ بھال کی سروسز اور عورتوں کے لئے جنسی ہراسانی سے پاک ماحول پیدا کرنا ضروری ہے۔پاکستان کی آئی ٹی ورک فورس میں عورتوں کی نمائندگی صرف چودہ فی صد ہے۔

2020میں دنیا بھر کی عورتوں نے ترقی کا کتنا سفر طے کیا؟ اس کے بارے میں کراچی کی ممتاز سماجی رہنما محترمہ نرگس رحمٰن کا کہنا ہے کہ کچھ اعدادوشمار میں تو بہتری نظر آتی ہے۔ دنیا بھر میں یہاں تک کہ سعودی عرب میں بھی عورتیں نئے کردار میں سامنے آئی ہیں لیکن ابھی بھی ترقی یافتہ ممالک تک میں عورتوں کو طاقتور مقام اور مرتبہ نہیں مل پایا۔حالاں کہ کرونا بحران کے دوران جن چند ممالک میں عورتوں کے پاس سیاسی قیادت تھی ، انہوں نے کامیابی کے ساتھ بحران کا مقابلہ کیا۔

عورتوں نے معیشت کو بھی سنبھالا اور اب تو ایک سیاہ فام عورت امریکا کی نائب صدر بھی بن گئی ہے لیکن مجموعی طور پر سیاسی قیادت کے لحاظ سے مردوں کو واضح برتری حاصل ہے۔پاکستان کی وفاقی کابینہ میں صرف تین خواتین ہیں۔

اس حوالے سے دنیا بھر میں آج بھی عورتوں کے ساتھ امتیاز روا رکھا جاتا ہے اور پاکستان تو ویسے بھی قبائلی اور جاگیردارانہ روایات پر عمل پیرا ہے۔ کاروباری دنیا میں بھی ابھی تک عورتوں کو اپنی صلاحیتوں کے مطابق مقام نہیں مل پایا۔کام اور کام کی جگہ پہنچنے تک عورت کو ہراساں کئے جانے کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔اسی لئے مڈل کلاس کی ملازمت پیشہ خواتین کی تعداد آج بھی کم ہے۔ خواندگی، تعلیم اور صحت کے اشارئے بتاتے ہیں کہ عورتوں کے پیچھے رہ جانے کی وجہ روایتی سوچ کا غلبہ ہے۔لڑکے کو بڑھاپے کی لاٹھی سمجھا جاتا ہے اس لئے والدین لڑکی کی تعلیم اور صحت پر کم سرمایہ کاری کرتے ہیں۔

اتنے قوانین بن جانے کے باوجود عورتیں آج بھی عدم تحفظ کا شکار ہیں۔جو عورتیں بہادری سے اپنے نظریات کا اظہار کرتی ہیں جیسے چند عورتوں نے عورت مارچ میں کیاتو انہیں تحقیر آمیز روئیے کا سامنا کرنا پڑا۔ایسا صرف کم فہم اور احساس برتری کے مارے ہوئے مردوں نے ہی نہیں کیا بلکہ بہت سی عورتوں نے بھی ان مردوں کا ساتھ دیا۔ٹی وی ڈراموں میں عورت کا ’نیک پروین‘ والا تصور پیش کیا جاتا ہے جو سر جھکا کر جیتی ہے اور ہر طرح کی زیادتی خاموشی سے برداشت کرتی ہے۔صرف وہی عورتیں آگے بڑھ سکتی ہیں جن کے والد، بھائی اور شوہر روشن خیال ہیں۔نرگس کی رائے میں اقتصادی خود مختاری میں ہی عورت کے مسائل کاحل پوشیدہ ہے۔‘

اقوام متحدہ کے شعبہ برائے سماجی و اقتصادی امور کے مطابق2020میں زرعی شعبے میں مردوں اور عورتوں دونوں کے لئے روزگار کے مواقع کم ہوئے ہیں جب کہ سروسز یا خدمات کے شعبے میں روزگار کے مواقع میں اضافہ ہوا ہے۔سروسز یا خدمات کے شعبے میں 59فی صد عورتیں اور 45فی صد مرد کام کر رہے ہیں۔

1995-2020کے دوران صنعتی شعبے میں کام کرنے والی خواتین کی تعداد میں تھوڑی سی کمی واقع ہوئی ہے جب کہ مردوں کی تعداد میں 28فی صداضافہ ہوا ہے۔ جنوبی ایشیا، ذیلی صحارا افریقا اور اوشنیا میں پچاس فی صد عورتیں زراعت کے شعبے سے وابستہ رہیں۔ عورتیں سروسز کے چار ذیلی سیکٹرز میں کام کر تی رہی ہیں یعنی انسانی صحت اور سماجی کام، تعلیم اور گھریلو ملازمائوں کا کام اور رہائشی اور کھانے پکانے سے متعلق سرگرمیاں۔ 2019 ءتک دنیا بھر میں 79فی صد با معاوضہ یا اجرت والا گھریلو کام عورتیں کررہی تھیں۔

2020ءمیں دنیا بھر میں عورتیں پہلے کی طرح تشدد کا شکار رہیں،جس کے نتیجے میں انہیں مختلف طرح کے جسمانی، ذہنی اور جذباتی مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ترقی یافتہ ممالک ہوں یا ترقی پذیر ممالک، عورتوں پر سب سے زیادہ تشدد وہ مرد کرتا ہے جو ان کے سب سے زیادہ قریب ہوتا ہے یعنی ان کا شوہر۔ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں روزانہ 137عورتیں خاندان کے کسی مرد کے ہاتھوں ماری جاتی ہیں۔ ویسے تو دنیا بھر میں عورتیں جسمانی، ذہنی اور جنسی تشدد کا شکارہوتی ہیں لیکن پاکستان میں 2020 ءکی آخری سہ ماہی میں بچیوں اور عورتوں کے ساتھ ہونے والے زنا بالجبر اور گینگ ریپ کے واقعات نے ساری قوم کو ہلا کر رکھ دیا۔

لاہور موٹر ہائی وے پر ایک خاتون کا اس کے بچوں کے سامنے گینگ ریپ ہوا ، اس کے بعد کراچی میں ایک سات سالہ بچی زینب کو اغوا کر کے ریپ کرنے کے بعد قتل کر دیا گیا۔ان واقعات کا ذکر اس مضمون کے آغاز میں ہو چکا ہے لیکن اس کے بعد کراچی کے جناح ہسپتال سے ایک عورت کو نوکری کا جھانسہ دے کربچی سمیت کشمور لے جایا گیا۔

ماں کا گینگ ریپ ہوا اور پھر چار یا پانچ سال کی بچی کو بھی نہیں بخشا گیا۔’’انکل نے میرے ساتھ یہ کیا‘‘ بچی کا یہ جملہ پوری قوم کے ضمیر پر تازیانہ بن کر برستا رہے گا لیکن قوم اس پولیس آفیسر کو بھی ہمیشہ یاد رکھے گی ،جس نے اس درندے کی گرفتاری کے لئے اپنی بیٹی کو مظلوم ماں کے ساتھ بھیجا۔میڈیا، سول سوسائٹی نے اس حوالے سے اپنا کردار ادا کیا ہے اور حکومت نے اپنی سطح پر ضروری اقدامات کئے ہیں۔ امید ہے کہ آنے والے سالوں میں حالات بہتر ہوں گے۔

آدھی دنیا ملازمتوں پر چھائی رہی

٭…گزشتہ 100 سالہ تاریخ نے واضح طور پر ثابت کردیا ہے کہ قوموں کی ترقی ،خوش حالی اور استحکام کے لیے خواتین کا موثر مرکزی کردار اور بھر پور شر کت ضروری ہے ۔ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق سنگاپور میں کل ملازمتوں میں 45 فی صد خواتین ملازمت کرتی ہیں ۔سنگا پور کی ٹیلی کمیونی کیشن کی ایک بڑی کمپنی ’’سنگ ٹیل ‘‘ کے اعلٰی عہدوں پر ایک تہائی خواتین فائز ہیں۔ آج سنگاپور ترقی کی جس منزل پر ہے ،اس میں خواتین نے مردوں کے ساتھ اہم کردار ادا کیا ہے ۔

٭…ایک عالمی جائزہ رپورٹ میں خواتین کی ملازمتوں کے حوالے سے درج ہے کہ ،آئس لینڈ ،ترقی یافتہ ملک ہے ،جہاں 79.1 فی صد خواتین ملازمت کرتی ہیں۔ دوسرے نمبر پر سوئیڈن ہے ،جہاں 76.1 فی صد اور تیسرے نمبر پر نیوزی لینڈ ہے جہاں 73.6 فی صد خواتین ملازمت کرتی ہیں ۔سلوینیا ناروے، ککژمبرک ،ڈنمارک ،پولینڈ ،فن لینڈ اور بیلجیم با لترتیب خواتین کی ملازمتوں کے لحاظ سے پہلے آگے تھے اور 2020 ء میں بھی آگے رہے ۔لیکن پاکستا ن کہاں کھڑ اہے ؟کچھ نہیں پتا۔

خواتین کو ہراساں کرنے سے متعلق بل منظور

قومی اسمبلی کی ذیلی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق نے دفاتر اور کام کرنے والے اداروں میں خواتین کو ہراساں کئے جانے، وفاقی دارلحکومت میں جنسی استحصال کا شکار بچوں کے میڈیکل ودیگر مقامات پر منتقلی مردوں کے ذریعے کئے جانے کے خلاف اور قیدی خواتین و بچوں سے متعلق فنڈز کی تفصیلات پر مشتمل بل سمیت چار بلوں کی منظوری دے دی ہے ۔رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ نے بطور کنوینئر سب کمیٹی اجلاس کی صدارت کی۔

اجلاس میں ممبر خاتون مہرین رزاق اور بل مووزررکن اسمبلی امجد علی خان، عظمٰی ریاض اور نفیسہ شاہ نے شرکت کی ۔خواتین کو ہراساں کرنے سے متعلق بل پیش کرتے ہوئے امجد علی خان نے بتایا کہ اکثر ایسی شکایات موصول ہوتی ہیں کہ دفاتر اور دیگرکام کرنے والے مقامات پر خواتین ملازمین کو ہراساں کیا جاتا ہے اس حوالے سے قانون تو موجود ہے ،مگر اس میں تر میم کرکے ان کی سزا کے دائرہ کارکو شامل کیا جائے ۔

وزارت انسانی حقوق کے حکام کے مطابق اس سے متعلق قانون موجود ہے ،تا ہم اس کو بہتر بنانے کے لیے مشاورت جاری ہے، بہت جلد اس سے بھی سخت شقیں شامل کرلی جائیں گی ۔اُمید ہے کہ قوانین پر سختی سے عمل در آمد ہوگا۔

خواتین کے حقوق کا تحفظ اور ریاست کی ذمے داری

دنیا بھر میں سال 2020ء میں تو ہر دن ہی تشویش ناک خبریں پڑھنے اور سننے کوملیں ،خصوصاً خواتین کے حوالے سے۔ اگر چہ اس وقت عالمی سطح پر خواتین کے حقوق کے بارے میں بہت سی تنظمیں موثر کردار ادا کررہی ہیں جن کے سبب خواتین میں شعور پیدا ہوا اور حکومتوں پر دباؤ بڑھا، جس کے باعث خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے بہت سے قوانین بنانے پر مجبور ہو گئیں ۔

اب معاملات یہاں پر پہنچ چکے ہیں کہ خواتین پر جہاں بھی مظالم ہوں ،ا س کے خلاف اس قدر شد ومد سے آواز اٹھائی جاتی ہے کہ ظلم کرنے والے کے خلاف قانون حرکت میں آنے پر مجبور ہوجاتا اور مجرم کو کیفر کردار تک پہنچایا جاتا ۔پاکستان میں بھی خواتین کے حوالے سے شعور میں نمایاں اضافہ ہونے سے ریاستی سطح پر خواتین کے حقوق کا بھر پور تحفظ کیا جانے لگا ہے۔

سیاسی سطح پر بھی خواتین کی ایک بڑی تعداد کافی متحرک ہوچکی ہے ۔صوبائی اور قومی اسمبلیوں میں خواتین کی نمایاں تعداد نظر آتی ہے ،مگر اس سب کے باوجود خواتین پر مظالم کے واقعات کا رونما ہونا افسوسناک امر ہے۔

گھر یلو سطح پر لڑائی جھگڑے خاندانی دشمنی یا کسی بھی وجہ تنازع کے سبب خواتین کے خلاف کارروائیاں معاشرے کے چہرے پر بد نما داغ ہیں ۔چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ایک مقدمہ میں تاریخ ساز فیصلہ سناتے ہوئے کہا تھا کہ ،خاتون پر تیزاب گردی کا مجرم کس رورعایت کا مستحق نہیں ،اس کیس میں کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا خوا ہ متاثر ہ خاتون مجرم کو معاف کردے لیکن قانون اسے معاف نہیں کرے گا ۔

تیزاب گردی سے جلانا قتل سے بھی بڑا جرم ہے ،جس کی سزا عمر قید ہے اپنی سنگینی کے اعتبار سے یہ ریاست کے خلا ف جرم ہے ۔لہٰذا اس کی کوئی معافی نہیں ۔قابل افسوس امریہ ہے کہ 2020 ء میں تیزاب گردی ہی نہیں ،اغوا، زیادتی ،تشدد وغیرہ کی وارداتوں میں ہر گزرتے دن میں اضافہ ہی ہوتا رہا ۔عورتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے جہاں قوانین پر فوری عمل در آمد کی ضرورت ہے وہاں غربت اور پسماندگی کا خاتمہ کرکے تعلیم اور ورزگار کے مواقعے بھی عام کرنے پر توجہ دینی چاہیے ۔

خواتین کو بااختیار بنانے میں پاکستان ’’143‘‘ ویں نمبر پر

٭…دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں خواتین کی جدوجہد 2020 ء میں بھی جاری رہی۔ اکثر محققین اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ خواتین کو مزید بااختیار بنانے اور معاشرے سے صنفی امتیاز کا خاتمہ اور صنفی توازن ضروری ہے ۔پاکستان کی ترقی وخوش حالی میں ایک اہم رکاوٹ خواتین کی تعلیم وتر بیت ،تحفظ اور ان کی معاشی ترقی کے لیے ناکافی اقدامات ہیں ۔

٭…ورلڈ اکنامک فورم نے پاکستان کوخواتین کے بااختیار ہونے کے حوالے سے دنیا کے خراب ترین ممالک کے آخری درجے سے صرف ایک درجہ او پر کاملک قرار دیا ہے ۔یعنی پاکستان ’’144‘‘ ممالک کی فہرست میں 143 ویں نمبر پر ہے۔ یہ صورت حال انتہائی خطر ناک ،ملک کی ترقی اور خوش حالی میں بہت بڑی رکاوٹ ہے ۔

بھلا کیا دشمنی تھی ؟

(احفاظ الرحمٰن)

زمین وآسماں کی حیرتوں کا بھید کھلتا جارہا ہے

بہت سارے سوال اب بھی اُداس آنکھیں لیے دنیا کوتکتے ہیں

اک اونچے پیڑ کی نازک سی ڈالی پر

وہ اپنے گھونسلے میں شاد بیٹھا تھا

ابھی ماں آئے گی ،آکر اسے چوگا کھلائے گئ

پرندے گا رہے تھے ،اور پتے رقص کرتے تھے

اچانک ایک جھونکا تیز ہوا کا ڈالیوں کے بیچ سے گزرا

لرزتا گھونسلا اُڑتا ہوا نیچے گرا ………

’’ماں ، کہا ہو تم مجھے ڈر لگا رہا ہے ………‘‘

ہوا تھمتے ہی چیونٹو ں کی قطاریں ،جُھنڈ کو ئوں کے اُمڈ آئے

’’ماں ،کہاں ہو تم … یہ مجھ کونوچ کھانا چاہتے ہیں …

یہ مجھے کو نوچ ………‘‘

اور گہری چُپ ……

ہواکی ننھےپنچھی سے بھلا کیا دشمنی تھی ؟

وہ بے حد پیار کرتی تھی ،

کتابوں سے ،کتابوں کے صفحوں میں بند تصوریر وں کی دنیا سے

کھلونوں سے ،کھلونوں کی نرالی ،چُلبلی دل کش ادائوں سے

ملائم تتلیوں سے ،پھولوں کی دل دار خوش بوسے

محبت سے بھری ماماسے

او بابا کی میٹھی میٹھی باتوں سے

ستارے ناچتے تھے اس کی آنکھوں میں،

وہ سب سے پیار کرتی تھی

یہی پیاراس کا مذہب تھا

’’وہ خوش خوش گھر سے نکلی تھی ………

تو اپنے نرم ہونٹوں سےمرے گالوں کو چوماتھا …

اور اس نے وین کی کھڑکی سے سر باہر نکالا تھا …

بائے بائے ماما …بائے بائے ……‘‘

وہ دیواروں سے سر ٹکراکے غش کھاتی تھی ،

سینہ پیٹتی تھی،آہیں بھرتی تھی

گھر آنے والے سارے سوگواروں کوپکڑ کر پوچھتی جاتی تھی …

’’مری بچی سے …مجھ سے _…قاتلوں …

خود کش درندوں کی عدات کا سبب کیا ہے ……؟‘‘