• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کل رات جو کھول کر دیکھی یادوں کی کتاب

روپڑے کہ کیا کیا کھویا ہے ہم نےاے زندگی

2020 ء صنف نازک کے لیے اُمیدوں کی اُبھری ہوئی لہروں کے مانند اُٹھا لیکن بارہ ماہ میں وہ لہریں تھک کر مایوسی کے گہرے سمندر کی آغوش میں گر گئیں ۔ماتمی گیت ،شب کے پرندوں کی طرح نمکین ہوائوں میں اُڑتے رہے ۔کبھی صنف ِقوی نےاُس کے سر سے چادر کھینچی تو کبھی اس پر تشددکی گہری چھاپ ثبت کردی۔ کبھی وہ برابری کے حقوق مانگتی رہی تو کبھی انصاف کا دروازہ کھٹکھٹاتی رہی۔ تصورات کی دنیا میں اس کا سفر چلتا رہا لیکن حاصل وصول کیا ہوا؟کورونا سے بدلتی دنیا میں 2020ء خواتین پر کتنا بھاری پڑا ؟اس کا اندازہ مختصراً زیر نظر جائزہ رپورٹ میں ملا حظہ کریں ۔

……٭٭……٭٭……٭٭……

2020عورتوں کے حقوق کے حوالے سے تاریخی اہمیت کا حامل رہا۔ امسال بیجنگ اعلامیہ کی پچیسویں سالگرہ منائی گئی۔ قارئین کو یاد ہو گاکہ 1995میں بیجنگ میں عورتوں کی چوتھی عالمی کانفرنس ہوئی تھی، اس کے بعد کوئی عالمی کانفرنس نہ ہو سکی، البتہ اس کانفرنس کے فیصلوں اور تجاویز پر عمل در آمد کے لئے بنائے جانے والے’ ’بیجنگ پلیٹ فارم فار ایکشن‘ ‘ کے اجلاس ہر پانچ سال بعد ہوتے رہے ہیں۔ عورتوں اور مردوں کے درمیان برابری 1945میں بننے والے اقوام متحدہ کے منشور کا بنیادی حصہ تھی لیکن 75 سال گزرنے کے بعد آج بھی عورتیں اور لڑکیاں ایک ایسی دنیا میں رہ رہی ہیں جہاں صنفی نا برابری عام ہے۔2020 میں اس نابرابری کو ختم کرنا اقوام متحدہ کی ترجیح رہا۔

امسال سیکورٹی کونسل کی قرارداد 1325جو عورتوں، امن اور سیکورٹی کے بارے میں تھی کی بیسویں سالگرہ اور پائیدار ترقی کے مقاصد کی پانچویں سالگرہ منائی گئی۔ ایجنڈا واضح ہے ہمیں 2030 ءتک ساری عورتوں اور لڑکیوں کے لئے برابری اور خودمختاری حاصل کرنا ہو گی۔ یہ بجائے خود ایک مقصد ہے لیکن اس سے دوسرے ترقیاتی مقاصد کے حصول میں بھی مدد ملے گی۔ترقی اسی صورت میں پائیدار ہو گی جب اس سے مردوں اور عورتوں کو مساوی فائدہ ملے ۔مختلف شعبوں میں عورتوں اور لڑکیوں کے لئے اہم پیش رفت ہونے کے باوجود دنیا بھر میں پائے جانے والے صنفی تفاوت کو ختم کرنے کے لئے مزید ایک صدی درکار ہے۔

2020 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے عورتوں کی عالمی کانفرنس کی سلور جوبلی کے موقع پر بتایاکہ کووڈ 19کی وجہ سے صنفی مساوات اور عورتوں کے حقوق کے حصول کا عمل بری طرح متاثر ہوا ہے۔ اس وبا نے پوری دنیا کو یر غمال بنا لیا ہے ۔ستمبر میں جنرل اسمبلی کے اجلاس میں عالمی رہنمائوں کی توجہ کا مرکز اس وبا سے پیدا ہونے والے مسائل رہے۔ان میں سر فہرست صنفی مساوات کا مسئلہ تھا۔

بات صرف اس عالمی وبا کی نہیں، جب بھی کوئی قدرتی یا انسانی آفت آتی ہے یا جنگوں اور تنازعات کے نتیجے میں لوگ دربدر ہوتے ہیں تو سب سے زیادہ مصیبت عورتوں کو ہی اٹھانی پڑتی ہے۔اس وبا کی وجہ سے لوگوں کو طویل عرصہ تک گھروں میں بند رہنا پڑا اور کینیڈا، ارجنٹائن، فرانس، اسپین، انگلینڈ اور امریکا میں عورتوں پر گھریلو تشدد کے اتنے واقعات سامنے آئے کہ لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ گھر بھی عورتوں کے لئے محفوظ نہیں رہے۔سنگاپور اور قبرص میں ہیلپ لائنز پر مدد کے لئے کی جانے والی کالز میں تیس فی صد اضافہ ہوا۔ عورتوں پر ہونے والے تشدد کو اکثر لوگ گھریلو معاملہ کہہ کر نظر انداز کر دیا کرتے تھے لیکن کرونا کی وبا نے انہیں یہ حقیقت تسلیم کرنے پر مجبور کر دیا ہے کہ آج بھی مردانہ حاکمیت اور عورتوں سے نفرت کرنے والی ذہنیت صنفی مساوات کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔

2020کے آغاز میں صورتحال یہ تھی کہ دنیا بھر میں ہر روز 810 عورتیں حمل یا زچگی کے مسائل کی وجہ سے مر گئیں۔تعلیم کے میدان میں اسکولوں میں داخلے کی شرح میں اضافہ تو ہوا لیکن بیچ میں ہی تعلیم ادھوری چھوڑ دینے کا مسئلہ برقرار رہا۔لیبر فورس میں عورتوں کی شراکت کم ہورہی ہے، کیوں کہ انہیں گھر میں بیماروں کی دیکھ بھال اور دوسرے بلا معاوضہ کام کرنے پڑتے ہیں۔کووڈ 19کی وجہ سے عورتوں کے اس طرح کے کاموں میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔عورتوں کی اقتصادی شراکت میں اضافے کے لئے گذشتہ نصف صدی میں بے شمار اصلاحات کی گئی ہیں لیکن ابھی بھی عورتوں کو مردوں کے مقابلے میں تین چوتھائی قانونی حقوق حاصل ہو سکے ہیں۔ابھی بھی بہت سی عورتوں کا اپنا بینک اکائونٹ نہیں ہے۔

آج بھی دنیا بھر میں ہر تین میں سے ایک عورت صنفی بنیاد پر تشدد کا شکار ہوتی ہے۔عورتوں پر ہونے والے تشدد سے صرف عورتوں کی اپنی عافیت خطرے میں نہیں پڑتی بلکہ ان کے خاندان اور معاشرہ بھی متاثر ہوتا ہے اور اس کے اثرات نسل در نسل چلتے ہیں۔اس وقت دنیا بھر میں ہمیں جو اقتصادی ماڈلز نظر آتے ہیں،وہ عام لوگوں کو ترقی اور خوشحالی فراہم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔2020میں اقتصادی مواقع کا فرق پہلے سے بھی زیادہ دیکھنے میں آیااور عورتوں کے لئے اقتصادی خود مختاری کا وعدہ پورا نہ ہو سکا۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق کام کرنے والی عورتوں میں پچاس فی صد سے بھی کم لیبر مارکیٹ میں موجود ہیں ۔ بلا معاوضہ کئے جانے والا گھریلو کام اور بیماروں کی دیکھ بھال عورتوں کی ذمہ داری سمجھی جاتی ہے اور یوں ان کی اقتصادی استعداد محدود ہو جاتی ہے۔اس کے علاوہ کووڈ19کی وبا نے بھی عورتوں کے روزگار اور ملازمتوں پر برا اثر ڈالا ہے۔جہاں تک اختیارات اور فیصلہ سازی کی بات ہے،2019ءمیں اٹھائیس فی صد عورتیں انتظامی عہدوں پر فائز تھیں ، یہ تقریباََ وہی تناسب ہے جو 1995ءمیں تھا۔2020ءمیں جن کاروباری اداروں کا سروے کیا گیا ، ان میں صرف اٹھارہ فی صد میں عورتیں انتظامی سربراہ تھیں۔پانچ سو فورچون کارپوریشنوں میں انتظامی سربراہ عورتیں صرف سینتیس تھیں۔

سیاست میں اگرچہ دنیا بھر میں پارلیمانوں میں عورتوں کی تعداد دگنی ہو گئی ہے۔لیکن 2020ءتک انہوں نے پارلیمانی نششستوں کی پچیس فی صد کی حد کو عبور نہیں کیا تھا۔گذشتہ پچیس سال میں کابینہ کے وزرا میں عورتوں کی تعداد چوگنی ہو چکی ہے، مگر مردوں کے مقابلے میں ابھی بھی وہ صرف بائیس فی صد ہیں۔ایک اور تحقیقی سروے کے مطابق 2015ءسے اب تک کاروباری شعبے میں عورتوں کی لیڈرشپ میں اضافہ ہوا ہے۔کاروباری دنیا سے ہٹ کر بھی مختلف نسلوں سے تعلق رکھنے والی خواتین رہنما اکٹھے ہو کر دنیا کے مسائل حل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ٹیکنالوجی کے شعبے میں بھی عورتیں بڑی تعداد میں داخل ہو رہی ہیں۔

ایک مثالی دنیا میں تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ عورتیں کوئی بڑا مالیاتی ادارہ چلا رہی ہیں یا کسی سیاسی پارٹی کی سربراہ ہیں۔ایک عام شہری تو یہی چاہتا ہے کہ اس کے کام اور اس کی زندگی میں آسانیاں پیدا ہوں، وہ یہ نہیں سوچتا کہ یہ آسانیاں کس کے فیصلوں کے نتیجے میں مل رہی ہیں لیکن موجودہ عہد میں یہ بات بہت اہمیت رکھتی ہے کہ لیڈرشپ پوزیشن تک پہنچنے کے لئے عورتوں کی حوصلہ افزائی کی جائے۔اعلیٰ کاروباری عہدوں پر عورتوں کی تعداد ابھی بھی بہت کم ہے۔

امریکا کی اہم ترین کارپوریشنوں میں خواتین چیف ایگزیکٹو آفیسرز صرف پانچ فی صد ہیں۔جب کہ پاکستان میں صرف ایک فی صد عورتیں کاروباری منتظمین ہیں۔ ان عورتوں کو بہت سے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ان میں کاروباری رکاوٹوں سے لے کر قرضوں تک رسائی نہ ہونے سے لے کر مالیاتی مہارت اور معلومات کا نہ ہونا شامل ہے۔

ہم صدیوں سے ایک پدر سری معاشرے میں رہتے چلے آرہے ہیں،جس میں عورتوں کو کم تر اور نچلا درجہ دیا جاتا ہے۔عورتیں جب کاروبار کی دنیا میں قدم رکھتی ہیں تو انہیں بہت سے سماجی، ثقافتی، روائتی اور مذہبی عوامل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ہمارے معاشرے میں صنفی تعصبات کی جڑیں بہت گہری ہیں۔دردانہ نجم کی تحقیق کے مطابق کاروباری منتظمین کی حیثیت سے عورتوں کے پیچھے رہنے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ان کی مالیاتی وسائل تک رسائی نہیں ہے۔

اگر اسٹیٹ بنک کی طرف سے دئیے جانے والے قرضوں کا صنفی تجزیہ کیا جائے تو چھوٹے اور درمیانی کاروباری قرضوں کا صرف تین فی صد عورتوں کو ملتا ہے جب کہ ستانوے فی صد قرضے مردوں کو ملتے ہیں۔اسی طرح صرف انیس فی صد مائیکرو فنانس قرضے عورتوں کو ملتے ہیں، جب کہ مردوں کو ستاسی فی صد ملتے ہیں۔

جب ایک عورت اپنے کاروبار کے لئے بنک اکائونٹ کھولنے جاتی ہے تو اسے لازمی طور پر ایک گواہ کی موجودگی میں اپنے باپ یا شوہر کا حوالہ دینا پڑتا ہے۔ ان ساری رکاوٹوں کے باوجود عورتوں نے مختلف شعبوں میں نام کمایا ہے۔روشانے ظفر عورتوں کو مالیاتی طور پر خود مختار بنانے کے لئے سرگرم عمل ہیں۔ وہ کشف فائونڈیشن کی بانی ہیں۔انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں جہاں آرا کا نام کامیابی کی ضمانت سمجھا جاتا ہے۔ماریہ عمر ویمنز ڈیجیٹل لیگ کی بانی اور صدر ہیں۔سدرہ قاسم نے انٹرنیٹ پر کشیدہ کاری والے جوتے متعارف کرائے ہیں۔ وہ ’’مارخور‘‘ کے نام سے ایک شو کمپنی چلاتی ہیں۔

دنیا بھر میں لاک ڈائون کی وجہ سے گھروں میں بند ہو جانے کے بعد عورتوں پر گھریلو تشدد میں اضافہ ہوا ۔ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں ہر روز 137عورتیں شوہر یا گھر کے کسی فرد کے ہاتھوں ماری جاتی ہیں۔اس وقت افریقا اور مشرق وسطیٰ میں دو سو ملین لڑکیاں اور عورتیں نسوانی ختنہ جیسے تکلیف دہ عمل سے گزر چکی ہیں۔ 2020ءمیں بھی عورتوں اور مردوں کے معاوضوں اور تنخواہوں میں فرق برقرار رہا لیکن اس کے ساتھ ساتھ #Me Too, Times UPجیسی تحریکوں کی بدولت عورتوں کی طاقت میں اضافہ بھی ہوا اور عورتیں زیادہ تعداد میں سیاست میں آئیں۔2020ءتک دنیا کی ورک فورس کا چالیس فی صد حصہ عورتوں پر مشتمل تھا۔ تعداد کے لحاظ سے مردوں کے برابر آنے کے لئے تیس سال سے زیادہ کا عرصہ درکار ہے۔لیڈرشپ کردار میں صنفی مساوات کے حصول کے لئے کاروباری اداروں کو زیادہ تعداد میں عورتوں کو بھرتی کرنا ہو گا اور انہیں ترقی دینا ہو گی۔

عورتوں کی صورتحال کا جائزہ لینے کے لئے مستند اور بروقت معلومات اور اعداد و شمار کی فراہمی ضروری ہے۔اقوام متحدہ کی سماجی اور اقتصادی امور کی انڈر سیکریٹری لیو زین من کا کہنا ہے کہ اعدادوشمار اور معلومات کی فراہمی کو بہتر بنایا جائے۔عمر، جنس، محل وقوع اور دیگر بدلتے ہوئے عوامل کے مطابق اعداد و شمار جمع کئے جائیں، تا کہ نا برابری کو سمجھا جائے ، بحرانوں سے نمٹا جائے اور 2030ءتک صنفی مساوات کو یقینی بنایا جائے۔

عورت کی زندگی کو بنانے اور بگاڑنے میں خاندان کا بڑا ہاتھ ہوتا ہے۔ موجودہ دور میں خاندان کی نوعیت بدل چکی ہے۔خاندان عورت کے لئے محبت، دیکھ بھال اور کامیابی کا وسیلہ ہوتا ہے لیکن بعض صورتوں میں خاندان میں ہی عورتوں کے حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے، ان کی آوازوں کو خاموش کرا دیا جاتا ہے اور صنفی عدم برابری روا رکھی جاتی ہے۔

اس بدلتی ہوئی دنیا میں قانون اور پالیسیاں بناتے وقت خاندانوں کی صورتحال کو سامنے رکھنا ضروری ہے۔اقوام متحدہ کی رپورٹ ’’ 2019-2020میں دنیا میں عورتوں کی ترقی اور خاندان کی صورتحال‘‘میں اقتصادی، آبادیاتی، سیاسی اور سماجی تبدیلی کے تناظر میں خاندانی حقائق کا تجزیہ کیا گیا ہے۔ اس رپورٹ میں عائلی قوانین، روزگار، بلا معاوضہ کام،عورتوں پر تشدد، اور تارک الوطنی جیسے اہم مسائل کا تجزیہ کیا گیا ہے۔

انسانی حقوق کے حوالے سے ریاست پر جو ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں،ان کے تحت ہر فرد کو نقصان سے بچانا اور خاندانوں میں مساوات کو فروغ دینا ریاست کا فرض ہے۔سرکاری اور نجی شعبے کو خاندانوں کو ’’اندھا کنواں‘‘ نہیں سمجھنا چاہئیے جہاں سے انہیں ہمیشہ لیبر سروسز، ٹیکس اور کارآمد شہری ملتے رہیں گے۔

جہاں گھرانوں میں لوگوں کو پیسا کمانے کے لئے دن بھر باہر جسمانی مشقت کرنا پڑتی ہو،یا بے روزگاری اور سماجی و اقتصادی عدم تحفظ کا سامنا کرنا پڑے۔انہیں کسی قسم کی شہری سہولتیں مہیا نہیں کی جائیں، تووہ مایوسی کا شکار ہو جاتے ہیں اور عزت نفس سے محروم ہو جاتے ہیں ،اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ وہ کس قسم کی گھریلو زندگی گزارتے ہوں گے۔

ان لوگوں کی توانائی بحال کرنے اور امداد باہمی کا جذبہ پیدا کرنے کے لئے سرکاری اور نجی شعبوں کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ان کے لئے اچھی ملازمتیں اور روزگار کے ذرائع اور سماجی تحفظ فراہم کیا جائے۔ان کے لئے معیاری سہولتیں اورپائیدار انفرا اسٹرکچر بنایا جائے۔حکومتوں کو ایسی ’کنبہ پرور‘ یا خاندان دوست پالیسیاں بنانی چاہئیں جن سے عورتوں کے انسانی حقوق کو بڑھاوا ملے۔اس کے لئے سماجی تحفظ کا نظام بنانا ضروری ہے۔

2020ءمیں کرونا کی وبا نے لوگوں کے روزگار کو بری طرح متاثر کیا، بہت سے کاروبار بند ہو گئے اور بہت سے لوگ بے روزگار ہو گئے۔عورتوں پر خاص طور پر اس کے منفی اثرات مرتب ہوئے۔ ملازمت پیشہ خواتین پر پہلے ہی کام کا دہرا بوجھ تھا۔کرونا کی وبا اور لاک ڈائون نے ان کے مسائل اور ذمہ داریوں میں مزید اضافہ کر دیا۔ستمبر 2020ءمیں دو واقعات نے پوری قوم کو ہلا کر رکھ دیا۔ 

کراچی میں ایک پانچ سالہ بچی کو جنسی تشدد کے بعد قتل کر دیا گیا اور پنجاب موٹر وے پر ایک عورت کو اس کے معصوم بچوں کے سامنے ریپ کیا گیا۔ان واقعات پر ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے کئے گئے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ریپ اور بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ اکثر لوگ زیادتی کا نشانہ بننے والی عورتوں کو ہی مورد الزام ٹہراتے ہیں۔ بچوں کی فلاح و بہبود کے معاملے میں دنیا کے 182ممالک میں سے پاکستان کا نمبر 147ہے۔ان سب ممالک نے اقوام متحدہ کے بچوں کے کنونشن کی توثیق کر رکھی ہے۔

عورتوں کے عالمی دن کے موقع پر آٹھ مارچ 2020ءکو پاکستان بھر میں عورتوں نے اپنے حقوق کے لئے مظاہرے کئے۔وہ صنفی مساوات کے اور محنت کش طبقے کے لئے مناسب اجرتوں اور اپنے لئے جسمانی حقوق کا مطالبہ کر تے ہوئے جنسی ہراسانی اور صنفی تشدد کے خلاف نعرے لگا رہی تھیں۔ عورت مارچ کی منتظمین کے جاری کردہ منشور میں اقتصادی اور سماجی انصاف، تولیدی حقوق اور عوامی جگہوں تک بہتر رسائی کے مطالبات شامل تھے۔ورلڈ اکنامک فورم نے اپنی 2020ءکی گلوبل جینڈر گیپ انڈکس رپورٹ میں 153ممالک میں سے پاکستان کا نمبر 151رکھا ہے۔

انسانی حقوق پر نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ زنا بالجبر، گھریلو تشدد اور ہراسانی سمیت عورتوں پر تشدد آج بھی پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔اس موقع پر ایمنسٹی انٹرنیشنل کے جاری کردہ بیان میں کہا گیا تھا کہ پاکستان میں ہر روز عورتوں کو ہراساں کیا جاتا ہے، ان پر دھونس جمائی جاتی ہے، ان کا خلاف امتیاز روا رکھا جاتا ہے، ان پر جسمانی حملے کئے جاتے ہیں، انہیں مار ڈالا جاتا ہے، صرف اس لئے کہ وہ اپنے وجود اور زندگی کے بارے میں خود فیصلے کرنا چاہتی ہیں۔ان جرائم کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو روکنے کی بجائے ان جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کو روکا جائے۔

دنیا بھر کی عورتوں نے 1911سے اپنے حقوق کا عالمی دن منانا شروع کیا تھا،تب سے 2020ء تک عورتوں کی خود مختاری کے لئے بہت کچھ کیا گیا اور کوشش کی گئی کہ انہیں مردوں کے برابر مواقع حاصل ہو جائیں۔ اس طویل عرصہ میں عورتیں عالمی رہنما بھی بنیں۔ اس سلسلے کا پہلا سنگ میل سری ماو بندرا نائیکے کا سری لنکا کا وزیر اعظم بننا تھا۔عورتوں نے بڑی بڑی کمپنیوں میں اہم عہدے بھی سنبھالے ۔نوبل پرائز اور آسکر ایوارڈ بھی جیتے لیکن ابھی بھی بہت کچھ کیا جانا باقی ہے۔

ورلڈ اکنامک فورم کی گلوبل جینڈر رپورٹ کے مطابق صورتحال پہلے سے بہتر ہوئی ہے ۔مساوات کی دوڑ میں اب سو مردوں کے مقابلے میں 68.6عورتیں سامنے آچکی ہیں لیکن ابھی بھی 31.4عورتوںکو میدان میں لانا باقی ہے۔سب سے زیادہ صنفی تفاوت عورتوں کی سیاسی شراکت کے حوالے سے نظر آتا ہے۔دوسرا بڑا فرق اقتصادی شراکت اور مواقع کا ہے ،گو کہ عورتوں نے تعلیمی کامیابیاں حاصل کی ہیں اور صحت کے شعبے میں بھی صورتحال بہتر ہوئی ہے۔

سیاسی خود مختاری کی ذیلی جدول کے مطابق 149 ممالک میں سے 108ممالک کی پارلیمنٹس میں عورتوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے، جس سے عورتوں کی مجموعی صورتحال پر اچھا اثر پڑا ہے۔لٹویا، اسپین اور تھائی لینڈ کی پارلیمانوں میں عورتوں کی تعداد میں کافی زیادہ اضافہ ہوا ہے۔اس رپورٹ میں 153ممالک کا جائزہ لیا گیا تو معلوم ہوا کہ گزشتہ پچاس برسوں میں ان میں سے 85ممالک میں کبھی کوئی عورت سربراہ مملکت نہیں بنی۔

بہرحال اقتصادی شعبے میں سینئر مینجرز اور سرکاری افسران میں عورتوں کی تعداد36فی صد ہے۔عورتوں کی لیڈرشپ کی پوزیشن میں تو مثبت تبدیلی آئی ہے لیکن لیبر مارکیٹ میں عورتوں کی شراکت ابھی بھی حوصلہ افزا نہیں ہے۔اوسطاََ صرف پچپن فی صد بالغ عورتیں لیبر مارکیٹ میں نظر آتی ہیں۔جب کہ ان کے مقابلے میں مردوں کی تعداد 78فی صد ہے۔ماہرین کی رائے میں 2006-2020تک کی سست رفتار پیش قدمی کو دیکھتے ہوئے صنفی فرق کو ختم کرنے میں 257سال یا ڈھائی صدیاں لگیں گی۔

صنفی مساوات کے لحاظ سے اس وقت دنیا بھر میں سر فہرست آئس لینڈ ہے، دوسرے نمبر پر ناروے، تیسرے نمبر پر فن لینڈ، چوتھے نمبر پر سویڈن،دیگر بہترین معیشتوں میں نکارا گوا، نیوزی لینڈ،آئر لینڈ، اسپین، روانڈا،اور جرمنی شامل ہیں۔پاکستان کا نمبر آخر سے تیسرا ہے یعنی 151ہم سے نیچے عراق اور یمن ہیں۔

بیجنگ میں 1995میں ہونے والی عورتوں کی عالمی کانفرنس میں ہونے والے وعدوں اور پلیٹ فارم فار ایکشن کے باوجود 2020ءتک عورتوں اور لڑکیوں کو اپنی تولیدی اور جنسی صحت اور sexuality کے بارے میں فیصلے کرنے میں سماجی، سیاسی اور ثقافتی رکاوٹوں کا سامنا ہے۔جبر، دبائو اور تشدد کی وجہ سے عورتیں اپنے بارے میں فیصلے کرنے میں آزاد نہیں ہیں۔

ہارورڈ بزنس اسکول کے اسکالرز اکثر بڑی کمپنیوں سے پوچھتے ہیں کہ عورتیں ملازمت کیوں چھوڑ جاتی ہیں اور انہیں اعلیٰ عہدوں پر ترقی کیوں نہیں دی جاتی جب کہ انیس سو ستر اور اسی کے عشروں میں عورتوں نے کافی ترقی کی تھی، مگر انیس سو نوے کے عشرے میں ترقی کی رفتار سست ہو گئی۔اور اب تو لگتا ہے کہ ترقی کا سفر بالکل رک گیا ہے۔ انہیں جواب ملتا ہے کہ بڑے افسروں کو دیر تک دفتر میں رکنا پڑتا ہے اور عورتوں کی گھریلو ذمہ داریاں انہیں اس کی اجازت نہیں دیتیں۔

یوں لگتا ہے کہ خاندانی اقدار کے تحفظ کے نام پر عورتوں کو اپنی زندگی کے بارے میں فیصلہ کرنے کے حق سے محروم کیا جا رہا ہے۔بہرحال تحقیق اور شواہد سے ظاہر ہوتا ہے کہ خاندان کی کوئی ایک معیاری شکل نا اب موجود ہے نہ پہلے کبھی تھی۔ لیکن ہمارا یہ ماننا ہے کہ خاندان کتنے ہی متنوع اور مختلف کیوں نہ ہوں، وہ صنفی مساوات پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں بشرطیکہ حکومت میں بیٹھے ہوئے لوگ ایسی پالیسیاں بنائیں جن کا تعلق لوگوں کی روزمرہ زندگی کے حقائق سے ہو اور جن کی بنیاد عورتوں کے حقوق پر رکھی جائے۔ایسا کہنا ہے یو این ویمن کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر کا۔

2020میں درج ذیل رحجانات دیکھنے میں آئے

٭دنیا بھر میں شادی کی عمر میں اضافہ ہوا ہے، شرح پیدائش میں کمی ہوئی ہے، عورتیں اقتصادی طور پر خود مختار ہوئی ہیں۔

٭دنیا بھر میں اکائی گھرانے(میاں، بیوی، بچے) کوئی اڑتیس فی صد ہیں، جب کہ مشترکہ خاندانوں کی تعداد تقریباََ ستائیس فی صد ہے۔

٭…سنگل پیرنٹ والے خاندان مجموعی گھرانوں کا آٹھ فی صد ہیں اور زیادہ تر ایسے گھرانوں کی سربراہ عورتیں ہیں جو ملازمت بھی کرتی ہیں، بچے بھی پالتی ہیں اور بلا معاوضہ گھریلو کام بھی کرتی ہیں۔

جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے، یہاں قانون سازی کے باوجود کم عمری کی شادی کے واقعات سامنے آتے رہتے ہیں۔ 2017 کی مردم شماری اور خانہ شماری کے مطابق پاکستان میں مردوں کی تعداد عورتوں سے زیادہ ہے۔مرد کل آبادی کا اکاون فی صد اور عورتیں انچاس فی صد ہیں۔

جن لوگوں کو نوبل انعام یافتہ امرتیا سین کی تحقیق یاد ہے، وہ جانتے ہیں کہ ترقی یافتہ ممالک میں عورتوں کی تعداد مردوں سے زیادہ ہے۔امرتیا سین کی تحقیق کے مطابق عورتوں کی تعداد کم ہونے کا مطلب یہ ہے کہ الٹرا سائونڈ کی بدولت بچے کی پیدائش سے پہلے اس کی جنس کا پتا چل جانے کے بعد اکثر والدین لڑکی کو اس دنیا میں آنے کا موقع ہی نہیں دیتے۔پاکستان میں ایسی کوئی تحقیق نہیں ہوئی ہے لیکن عورتوں کی کم تعداد ایک لمحہ ء فکریہ ہے۔

اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام UNDPنے مارچ 2020 میںصنفی سماجی معیارات کا اشاریہ جاری کیا تھا ،جس کے مطابق سیاست، ملازمت اور تعلیم کے شعبے میں سماجی معیارات صنفی مساوات کی راہ میں رکاوٹ پیدا کرتے ہیں۔آپ نے ’’گلاس سیلنگ‘‘ یا ’’کانچ کی چھت ‘‘کی اصطلاح تو سنی ہو گی یعنی ایک خاص مقام پر پہنچنے کے بعد ترقی کی راہ میں ایک نظر نہ آنے والی حد کھڑی کر دی جاتی ہے۔یہ چھت کتنی بڑی اور کتنی موٹی ہوتی ہے؟

نیا تجزیہ بتاتا ہے کہ یہ چھت عورت کی زندگی کہ ہر پہلو کا احاطہ کرتی ہے اور اس میں اس کا گھرانہ بھی شامل ہے۔اور یہ چھت شیشے سے نہیں بلکہ ان تعصبات اور بد گمانیوں سے بنتی ہے جو دنیا بھر میں عورتوں کے بارے میں پائے جاتے ہیں۔مردوں اور عورتوں کے درمیان نا برابری کو ختم کرنے کی برس ہا برس کی کوششوں کے باوجوداب بھی نوے فی صد لوگ(مرد اور عورتیں) عورتوں کے خلاف کسی نہ کسی قسم کا تعصب رکھتے ہیں۔یوں ہمیں عورتوں کی مساوات کی راہ میں نظر نہ آنے والی رکاوٹوں کے بارے میں نئے اشارے ملے ہیںاور اس ’’گلاس سیلنگ‘‘کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کا امکان بھی پیدا ہوا ہے۔

اس اشارئیے کے مطابق دنیا بھر کے نصف لوگ (مرد اور عورتیں)یہ سمجھتے ہیں کہ مرد زیادہ اچھے سیاسی لیڈر ثابت ہوتے ہیں۔اور چالیس فی صد کا خیال ہے کہ مرد بہتر کاروباری منتظم ثابت ہوتے ہیں اور اگر ملازمتیں کم ہوں تو ان پر مردوں کا حق زیادہ ہے اور اٹھائیس فی صد کا خیال ہے کہ شوہر کا بیوی کو مارنا جائز ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق بہت سے ممالک میں ان تعصبات میں تبدیلی آرہی ہے لیکن کچھ ممالک میں پہلے سے بھی زیادہ خراب روئیے دیکھنے میں آ رہے ہیں۔

اس نئے تجزئیے میں اس بات پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے کہ ہماری معیشتوں، ہمارے سیاسی نظاموں اور ہماری کارپوریشنوں میں اتنا زیادہ پاور گیپ یا عورت اور مرد کے درمیان اختیارات کا فرق کیوں پایا جاتا ہے۔حالاں کہ ترقی کے بنیادی شعبوں یعنی تعلیم اور صحت کے شعبوں میں صنفی فرق کو کم کرنے کی بہت کوششیں کی گئی ہیں۔عورتوں کی سیاسی اور اقتصادی شراکت کی راہ میںحائل قانونی رکاوٹوں کو بھی ہٹا دیا گیا ہے۔

صنفی مساوات اور عورتوں کے انسانی حقوق کے حوالے سے پاکستان کئی بین ا لاقوامی معاہدوں کا رکن ہے۔ان ہی معاہدوں کی بدولت عورتوں کے لئے بہت سے اقدامات کئے گئے ہیں اور وقار نسواں کے لئے قومی اور صوبائی کمیشنوں کا قیام عمل میں آ چکا ہے۔

سندھ کمیشن آن دی اسٹیٹس آف ویمن کی چیئر پرسن نزہت شیریں نے جنوری 2020ءمیں کورٹ کی وزٹ کے بعد لڑکیوں کو تشدد سے نجات دلانے کے لئے رپورٹ جمع کرائی اور تجویز پیش کی کہ عورتوں کے لئے کام کرنے والے سارے اداروں کو ایک شعبے کے ماتحت کر دیا جائے۔ان اداروں کی خالی آسامیوں کو پر کیا جائے اور ان کے مالی وسائل میں اضافہ کیا جائے۔انہوں نے نوٹ کیا کہ پولیس اسٹیشن میں تشدد کی ایف آئی آر درج کرتے ہوئے گھریلو تشدد اور دیگر متعلقہ قوانین کی شقوں کو شامل نہیں کیا جاتا۔

عدالت نے کمیشن کی سفارشات کو اپنے ایک فیصلے کا حصہ بناتے ہوئے سندھ حکومت سے کہا کہ کمیشن کی تجاویز پر عملدر آمد کیا جائے۔اس ضمن میں چیف سیکریٹری کی زیر صدارت اجلاس میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی اور شیلٹرہومز، سیف ہوم،اور چائلڈ پروٹیکشن یونٹ کو ویمن ڈیولپمنٹ ڈپارٹمنٹ کے تحت کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

عورتوں کو تشدد سے بچانے کے لئے عدالت نے بھی ایک کمیٹی تشکیل دی گئی، جس کے ارکان میں پولیس حکام، ویمن ڈیولپمنٹ ڈپارٹمنٹ کی سیکریٹری، چیئر پرسن سندھ کمیشن برائے وقار نسواں،محکمہء سماجی بہبود کی سیکریٹری اور سول سوسائٹی کی دو ارکان شامل ہیں۔کمیٹی نے سندھ بھر میں پندرہ ون ونڈو یا ون اسٹاپ سینٹرز کے قیام کا منصوبہ بنایا ہے۔   

’’رحجانات اور شماریات ‘‘

دنیا بھر میں صنفی مساوات کی صورتحال کا جائزہ’’ رحجانات اور شماریات‘‘ نامی رپورٹ میں پیش کیا گیا ہے۔ اس رپورٹ میں جن چھ اہم شعبوں کو سامنے رکھ کر صنفی مساوات کا تجزیہ کیا گیا ہے، ان میں ’ آبادی اور خاندان‘ ، صحت، تعلیم، اقتصادی خود مختاری اور اثاثوں کی ملکیت، اختیارات اور فیصلہ سازی،عورتوں اور بچیوں پر تشدداور ان پر کووڈ 19کی وبا کے اثراتـ‘ شامل ہیں۔

بیجنگ اعلامیہ اور پلیٹ فارم فار ایکشن کو اپنائے ہوئے پچیس سال ہو گئے مگر ابھی تک مساوی حقوق اور مساوی اختیارات کی جانب پیش رفت واضح طور پر سامنے نہیں آئی۔ کوئی ملک صنفی مساوات حاصل نہیں کر پایا۔

اوپر سے کرونا کی وبا سے یہ خطرہ پیدا ہو چلا ہے کہ ابھی تک جو کچھ حاصل ہوا تھا ،وہ بھی ہاتھ سے نہ نکل جائے۔اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گٹرس کی رائے میں پائیدار ترقیاتی مقاصد کے حصول کے لئے ہمارے پاس ابھی دس سال ہیں،اگر ہم کرونا کی وبا سے اچھے طور پر نمٹنے میں کامیاب ہو گئے تو ہم عورتوں اور لڑکیوں کی زندگی میں بہتر تبدیلی لا پائیں گے‘‘۔گو کہ اس وبا کی بدولت مردوں اور عورتوں دونوں کے گھریلو اور بیماروں کی دیکھ بھا ل جیسے کاموں میں اضافہ ہوا ہے، مگر اس کا زیادہ بوجھ عورتوں پر پڑا ہے۔

اب کسی بھی عام دن میں عورتیں دنیا بھر میں ان بلا معاوضہ کاموں پر تین گنا زیادہ وقت صرف کر رہی ہیں۔شمالی افریقا اور مغربی ایشیا میں صنفی تفاوت میں اور بھی اضافہ ہوا ہے۔ وہاں عورتیں مردوں کے مقابلے میں ان بلا معاوضہ کاموں پر سات گنا زیادہ وقت صرف کر رہی ہیں۔ظاہر ہے اتنے کاموں کے بعد عورتیں لیبر مارکیٹ میں مردوں کی طرح حصہ نہیں لے سکتیں۔ 

کرونا کی وبا کی وجہ سے صنفی نا برابری اور بڑھ جائے گی ،کیوں کہ بہت سی عورتیں ان شعبوں میں کام کرتی ہیں جو اس وبا اور لاک ڈائون کے اقدامات سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ جیسے گھریلو ماسیاں اور ہوم بیسڈ ورکرز۔صحت کے شعبے میں ستر فی صد خواتین کام کرتی ہیں ، اس لئے مردوں کے مقابلے میں ان کے کرونا وائرس سے متاثر ہونے کے امکانات زیادہ ہیں۔

وبا کے بعد بحالی کے منصوبوں میں عورتوں کو بھی شامل کریں،یو این ویمن کی سربراہ

ورلڈ اکنامک فورم کے مطابق کوووڈ 19کی وجہ سے عورتوں کے کام، بچوں کی دیکھ بھال اور گھریلو ذمہ داریوں میں اضافہ ہوا ہے۔اعلیٰ عہدوں پر فائز عورتیں اپنی جیسی پوزیشن رکھنے والے مردوں کے مقابلے میں زیادہ دبائو کا شکار ہیں۔ہر چار میں سے ایک عورت پارٹ ٹائم کام یا نوکری چھوڑنے کے بارے میں سوچ رہی ہے۔

عالمی ادارہء محنت کے مطابق کووڈ 19کی وجہ سے بے روزگار ہونے والوں میں دو تہائی تعداد عورتوں کی ہے۔دوسری وبائوں کی طرح یہ وبا جینڈر نیوٹرل نہیں ہے، اس نے عورتوں کو زیادہ متاثر کیا ہے۔ یہ صرف صحت کا مسئلہ نہیں بلکہ سماجی اور اقتصادی مسئلہ بھی ہے۔ویسے بھی عورتیں زیادہ تر ایسے کام کرتی ہیں جن میں ملازمت کا تحفظ نہیں ہوتا، مثال کے طور پر گھریلو ماسیاں۔

ترقی یافتہ ملکوں میں بھی عورتیں زیادہ تر خدمات کے شعبے میں کام کرتی ہیں۔عام طور پر انہیں تقرری کا پروانہ یا کنٹریکٹ لیٹر بھی نہیں دیا جاتا۔غیر رسمی شعبے میں کام کرنے والے عورتوں کو مالی معاونت کی اور بھی زیادہ ضرورت ہے۔یو این ویمن کی سربراہ نے دنیا بھر کے ممالک سے اپیل کی ہے کہ وہ اس وبا کے بعد بحالی کے منصوبوں میں عورتوں کو بھی شامل کریں۔

تازہ ترین