دولے شاہ کے چوہے!

January 22, 2021

یہ اس دور کی بات ہے جب میرے بہت سے قارئین ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے تھے۔ مجھے یاد ہے اس دور میں ایک طبقہ شیطان کی عبادت کرتا تھا۔ گوجر خان کے قریب سڑک سے ڈیڑھ دو کلو میٹر پرے ایک ٹیلہ تھا جس پر مختلف رنگوں کے علم لہرا رہے ہوتے تھے اور وہاں دن اور رات کے چوبیس گھنٹوں میں شیطان کے پجاری برہنہ ہو کر دھمال ڈالنے میں مصروف رہتے تھے۔ علاقے کے افراد میں سے جب کسی نے انہیں روکنے کی کوشش کی، وہ وہیں پھڑک کر مر گیا۔ یہ لوگ خود کو کھلم کھلا شیطان کے پجاری کہلاتے تھے۔

ایک دفعہ علاقے کے مکینوں نے ان کے خلاف جدوجہد کرنے کی ٹھانی، ایک جلسہ منعقد کیا گیا اور اس تحریک کے روح رواں کو اسٹیج سے اظہارِ خیال کی دعوت دی گئی، وہ اسٹیج پر آئے اور انہوں نے ابھی ابتدائی کلمات ہی ادا کئے تھے کہ ان کی زبان بند ہو گئی اور کچھ دیر بعد وہ لڑکھڑا کر وہیں گر گئے، جلسہ تو تتربتر ہونا ہی تھا، اس کے باوجود چند نوجوانوں نے ہمت کی اور وہ انہیں اٹھا کر ہسپتال لے گئے، جہاں وہ کافی مدت زیر علاج رہنے کے بعد بولنے کے قابل ہوئے مگر اس کے بعد وہ ساری صورتِ حال سے بیگانہ ہو گئے۔ وہ اب صرف معمولاتِ زندگی ادا کرتے ہیں۔

اور اس کے بعد شیطان کے پجاری پورے ملک میں پھیل گئے۔ یہ سب لوگ اپنے اپنے علاقہ کے کسی اونچے ٹیلے پر برہنہ رقص کرتے تھے، لوگ یہ سب دیکھتے تھے اور کڑھتے تھے مگر عجیب بات ہے کہ جب کوئی کسی محفل میں ان کے خلاف زبان کھولتا، وہ کسی نہ کسی حادثے کا شکار ہو جاتا تھا۔ مجھے یاد ہے ان دنوں کچھ اخبارات نے اس صورتِ حال کے خلاف اداریے لکھے، بعض کالم نگار بھی میدان میں آ گئے، مگر ان سب کو کسی نہ کسی مشکل سے دوچار ہونا پڑا۔ پھر ایک عجیب واقعہ رونما ہوا، یہ لوگ کاغذ قلم ہاتھ میں لے کر بیٹھتے اور دل میں پختہ ارادہ کرتے کہ جو ہو سو ہو، مگر وہ کلمۂ حق ضرور بلند کریں گے مگر جب وہ اپنی تحریر مکمل کرتے تو حیرت انگیز طور پر وہ اس شیطانی ٹولے کے حق میں ہوتی، چنانچہ آہستہ آہستہ عوام کے ذہن بدلنا شروع ہو گئے اور لوگوں کی بہت بڑی تعداد شیطان کی پجاری ہوتی چلی گئی۔

اور ہاں اس دور میں ایک بات یہ بھی دیکھنے میں آئی کہ شیطانی ٹولے کے خلاف بولنے والوں کو سزا کی بجائے جزا ملنا شروع ہو گئی۔ ایک دن اچانک انہیں پتہ چلتا کہ حکومت میں انہیں ایک بلند عہدے پر فائز کر دیا گیا ہے، جس کے بعد انہوں نے رضاکارانہ طور پر زبان بندی کر لی، جو صحافی اس صورتِ حال پر ہلکے پھلکے انداز میں اظہارِ خیال کرتے تھے، ان سے چشم پوشی اختیار کی جانے لگی اور یوں مستقبل قریب میں وہ لاوا پھٹ سکتا تھا، جو بہت سے دلوں میں ابھی تک پک رہا تھا۔ ان کے دلوں کی تھوڑی بہت تشفی ہو گئی اور یوں شیطانی تحریک کو دوام ملنے لگا۔ اس دور میں ایک کام یہ بھی کیا گیا کہ محکمہ اطلاعات نے کچھ کالم نگاروں کو بھاری معاوضوں کے عوض تحریک کے حق میں راہ ہموار کرنے کی ترغیب دی اور انہوں نے اپنی تحریروں میں جھوٹ کے انبار لگا دیے۔ ان کی تحریروں سے لگتا تھا کہ پاکستان پہلی بار اپنی صحیح منزل کی طرف رواں دواں ہے۔ ظاہر ہے یہ لوگ بظاہر شیطان کے پجاریوں کی حمایت نہیں کرتے تھے بلکہ کہیں کہیں انہیں رگید بھی دیتے تھے اور یوں ان کی تحریر کم پڑھے اور کچھ زیادہ ہی پڑھے لکھوں کو اپنی طرف راغب کرنے لگی۔

آپ کو یہ سن کر حیرت ہو گی کہ شیطانی ٹولہ مسجدوں، مزاروں، درگاہوں اور علماء و مشائخ کے کام میں دخل اندازی نہیں کرتا تھا۔ مسجدیں پہلے ہی کی طرح آباد تھیں، درگاہوں پر نذر نیاز کا سلسلہ بھی ہمیشہ کی طرح قائم و دائم تھا، چادریں بھی چڑھائی جاتی تھیں، عید میلاد النبیؐ اور محرم کے جلوس بھی پوری آن شان سے پہلے ہی کی طرح نکلتے تھے مگر عجیب بات ہے کہ لوگ نماز کے دوران یا کسی اور موقع پر اعوذ باللہ پڑھنے کے دوران شیطان الرجیم کہنے لگتےاور وہاں آ کر اٹک جاتے۔ بہرحال یہ بہت لمبی کہانی ہے، پاکستان کئی سال تک اس صورتحال سے گزرا، پھر ایک دن قدرت کو پاکستان پر رحم آ گیا اور ملک اس صورتحال سے نکل گیا۔

الحمد للہ آج ہم شیطانی ٹولے کے چنگل سے نکل گئے ہیں۔ اب خرید و فروخت کا سلسلہ بند ہو گیا ہے البتہ ایک طویل عرصہ تک ایک غیرمعمولی صورتحال میں زندگی گزارنے کے بعد لوگوں کے سر چھوٹے ہو اور منہ بڑے ہو گئے ہیں۔ ممکن ہے شیطانی ٹولہ اب بھی کچھ ایسی کارروائیوں میں مشغول ہو جس سے پاکستان کی آئندہ نسل دولے شاہ کے چوہے بن کر رہ جائے مگر مجھے یقین ہے کہ ایسا کبھی نہیں ہو گا۔ آپ اسے میری خوش فہمی بھی کہہ سکتے ہیں لیکن میرے نزدیک ناامیدی سے خوش فہمی بہرحال بہتر ہے!

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)